جائزے

ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈکپ میں کب کب بڑے اپ سیٹ ہوئے؟

ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈکپ میں کب کب بڑے اپ سیٹ ہوئے؟
Written by Omair Alavi

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کے پہلے دو دن میں ہی دو اپ سیٹ میچز کی وجہ سے شائقینِ کرکٹ کی ٹورنامنٹ میں دلچسپی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پہلے دن نمیبیا نے ایشین چیمپئن سری لنکا کو 55 رنز سے ہرا دیا تھا جب کہ دوسرے روز دو مرتبہ کی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو اسکاٹ لینڈ کے ہاتھوں 42 رنز سے شکست ہوئی تھی۔

کرکٹ ورلڈ کپ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کسی مضبوط ٹیم کو کمزور ٹیم سے شکست ہوئی ہو۔ کرکٹ کی تاریخ میں ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی یا 50 اوورز کے ورلڈ کپ سمیت ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں چیمپئن ٹیم سے لے کر فیورٹ ٹیم کو غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی سب سے بڑی اپ سیٹ 1983 کے فائنل میں ویسٹ انڈیز کو ہوئی تھی، جسے بھارت نے فائٹل میچ میں شکست دے کر مسلسل تیسری بار چیمپئن بننے سے روک دیا تھا۔

اسی ٹورنامنٹ میں زمبابوے کی ٹیم نے اپنے پہلے انٹرنیشنل میچ میں آسٹریلیا کو شکست دے کر دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا تھا۔

سن 1983 سے لے کر اب تک کرکٹ ورلڈ کپ میں بہت سے ایسے موقع آئے جب نتائج کا اندازہ نہ تو ہارنے والی ٹیم کو تھا اور نہ ہی شائقین کو۔ چلیں ایسے ہی کچھ اپ سیٹس پر نظر ڈالتے ہیں۔

ورلڈ کپ 1983: زمبابوے ڈیبیو پر آسٹریلیا کو آؤٹ کلاس کیا

ڈنکن فلیچر کو لوگ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کامیاب کوچ کی حیثیت سے تو جانتے ہیں لیکن 1983 کے ورلڈ کپ کے دوران ان کی آل راؤنڈ کارکردگی نے انہیں خوب شہرت دلوائی۔

سن 1983 میں ناٹنگھم میں کھیلا گیا میچ زمبابوے کا پہلا ون ڈے انٹرنیشنل تھا لیکن انہوں نے مخالف ٹیم میں ڈینس للی، ایلن بارڈر، جیف لاسن اور جیف تھامسن کی موجودگی کو بھلا کر بہترین پر فارمنس دی۔

اس میچ میں زمبابوے کے کپتان ڈنکن فلیچر کی کارکردگی سب سے زیادہ اہم رہی۔

انہوں نے پہلے 69 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو پانچ وکٹوں کے نقصان پر 94 رنز سے 239 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 42 رنز کے عوض چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے آسٹریلیا کو آؤٹ کلاس کیا۔

آسٹریلوی اوپنر کیپلر ویسلز اور روڈ مارش کی نصف سنچریاں بھی آسٹریلیا کو شکست سے نہ بچاسکیں اور یوں ورلڈ کپ کی تاریخ کا پہلا اپ سیٹ میچ سامنے آیا۔

ورلڈ کپ1983: بھارت نے دو بار کی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو ہیٹ ٹرک سے روک دیا

سن 1983 کے ورلڈ کپ سے قبل کوئی اپ سیٹ نہیں ہوا تھا بلکہ اس ورلڈ کپ کا اختتام ہی ایک اپ سیٹ پرہوا تھا۔

لارڈز کے مقام پر جب ویسٹ انڈیز اور بھارت کی ٹیمیں فائنل میں آمنے سامنے آئیں تو خیال یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ بھارتی ٹیم کو شکست ہوگی اور ویسٹ انڈیز مسلسل تیسرا ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوگی۔

لیکن توقعات کے برعکس 184 رنز کا بظاہر کم دکھنے والا ہدف دفاعی چیمپئن کے لیے اس وقت پہاڑ جیسا ٹارگٹ بن گیا جب کپل دیو نے مدن لال کی گیند پر الٹے بھاگتے ہوئے ویوین رچرڈز کا کیچ پکڑا۔

بعد ازاں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ہدف کے قریب پہنچنے کی کوشش تو کی لیکن مدن لال اور مہندر امرناتھ کی تین تین وکٹوں نے ان کی اس کوشش کو بریک لگا دیا اور بھارت کو 43 رنز سے کامیابی حاصل ہوئی۔

اس طرح ویسٹ انڈیز کی ٹیم تیسری مرتبہ تو ورلڈ کپ نہیں جیت سکی لیکن عالمی کرکٹ کو ایک نیا چیمپئن مل گیا جس نے اگلے چار برس تک دنیائے کرکٹ پر راج کیا۔

ورلڈ کپ1992: انگلش ٹیم کو زمبابوے کے ہاتھوں شکست

سن 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں جہاں پاکستان کی فائنل میں جیت سب کو یاد ہے وہیں سیمی فائنل سے قبل انگلینڈ کی زمبابوے کے ہاتھوں شکست کو بھی بہت کم ہی لوگ بھولے ہیں۔

کپتان گراہم گوچ، این بوتھم، روبن اسمتھ اور ایلک اسٹورٹ جیسے بلے بازوں کی موجودگی میں انگلینڈ کا 135 رنز کا ہدف حاصل نہ کرپانا ناقابلِ یقین تھا۔اس دن ایلبری کے مقام پر زمبابوے کے بالر ایڈو برینڈز نے 21 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔

تجربہ کار بلے بازوں گراہم گوچ، ایلن لیمب، رابن اسمتھ اور گریم ہک کو آؤٹ کرکے اینڈو برینڈز نے جیت کی بنیاد رکھی، جس کے بعد پوری انگلش ٹیم صرف 125 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی تھی۔

اس کامیابی کا فائدہ یہ ہوا کہ چند ماہ بعد ہی زمبابوے کو آئی سی سی نے ٹیسٹ اسٹیٹس دے دیا۔

ورلڈ کپ1996: کینیا کی ویسٹ انڈیزکے خلاف فتح

جب کرکٹ کی تاریخ کا چھٹا ورلڈ کپ کھیلا گیا، تو اس وقت تک سب سے زیادہ ٹائٹل ویسٹ انڈیز کے پاس تھے۔ اسی لیے جب دو مرتبہ کی چیمپئن ٹیم نے پونے کے مقام پر کینیا کا سامنا کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سابق چیمپئن ٹیم کو شکست ہوگی۔

لیکن ہوا کچھ ایسا ہی، 50 اوورز میں 166 رنز بناکر آؤٹ ہوجانے والی افریقی ٹیم نے دوسری اننگز میں ہمت نہ ہاری اور رچی رچرڈسن، برائن لارا اور جمی ایڈمز جیسے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کو صرف 93 رنز پر آؤٹ کرکے اپ سیٹ شکست دی۔

رجب علی اور موریس اوڈمبے کی تین تین وکٹوں کے سامنے ویسٹ انڈیز کی ٹیم بے بس نظر آئی۔

شیونارائن چندرپال اور راجر ہارپر کے سوا کوئی بھی ویسٹ انڈین کھلاڑی ڈبل فگرز تک نہ پہنچ سکا۔

ورلڈ کپ 1999: جنوبی افریقہ کو زمبابوے سے شکست

سن1999 کا کرکٹ ورلڈ کپ زمبابوے سے تعلق رکھنے والے کبھی نہیں بھول سکیں گے، کیوں کہ ان کی ٹیم نے اس ایونٹ میں شاندار کارکردگی دکھا کر سپر سکس اسٹیج میں جگہ بنائی تھی۔

گروپ اے میں انہوں نے جہاں سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت کو ہرایا تھا، وہیں جنوبی افریقہ کے خلاف ان کی فتح سب کو یاد ہے۔

اس کامیابی کے پیچھے آل راؤنڈر نیل جانسن اور مرے گوڈون کا ہاتھ تھا، جو پیدا تو زمبابوے میں ہوئے تھے البتہ انہوں نے کرکٹ دوسرے ممالک میں کھیلی۔

اس میچ میں بھی نیل جانسن کے 76 اور مرے گوڈوین کے 34 رنز کی بدولت زمبابوے کی ٹیم نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 233 رنز بنائے۔

جنوبی افریقہ کو بظاہر جو ہدف ملا وہ کم رنز کا تھا لیکن زمبابوے کے بالرز نے مخالف ٹیم کو اس کے قریب بھی پہنچنے نہیں دیا۔

آل راؤنڈرز شان پولاک اور لانس کلوزنر کے 52، 52 رنز کے باوجود جنوبی افریقی ٹیم 48ویں اوور میں 185 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔

اوپنرز گیری کرسٹن، ہرشل گبز اور مڈل آرڈر بلے باز ہینسی کرونئے، ڈیرل کلینن اور یاک کیلس پر مبنی بیٹنگ یونٹ پر نیل جانسن اور ہیتھ اسٹریک حاوی ہو گئے۔ دونوں بالرز نے تین تین وکٹیں حاصل کرکے زمبابوے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

ورلڈ کپ1999: پاکستان کو بنگلہ دیش سے شکست

جس طرح 1992 میں زمبابوے نے فائنل میں پہنچنے والی انگلش ٹیم کو سیمی فائنل سے قبل شکست دے کر اپ سیٹ کیا تھا، کچھ اسی طرح 1999 کے ورلڈ کپ کے سپر سکس مرحلے سے قبل ہوا، جب بنگلہ دیش نے پاکستان کو ہراکر دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا۔

ایونٹ میں دونوں ٹیموں کے میچ سے قبل پاکستان گروپ-بی کی ناقابل شکست ٹیم تھی، جب کہ بنگلہ دیش نے صرف ایسوسی ایٹ ٹیم اسکاٹ لینڈ کو شکست دی تھی لیکن اس میچ میں بنگلہ دیشی ٹیم کی کارکردگی الگ نظر آئی۔

جس وقت بنگلہ دیشی ٹیم نو وکٹوں کے نقصان پر 223 رنز بناکر واپس پویلین آئی، اس وقت بھی شائقین کو لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم گروپ اسٹیج کا اختتام ناقابل شکست ہی کرے گی، لیکن بنگلہ دیشی بالر خالد محمود کے دماغ میں کوئی اور پلان تھا۔

انہوں نے 21 رنز دے کر جن تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ان میں شاہد آفریدی، انضمام الحق اور سلیم ملک شامل تھے۔ بنگلہ دیشی فیلڈرز نے بھی اپنے ساتھیوں کو مایوس نہ کیا اور تین پاکستانی بلے بازوں کو رن آؤٹ کیا۔

جب پاکستان کی ٹیم 224 رنز کے تعاقب میں 45ویں اوور میں 161 رنز بناکر آؤٹ ہوئی تو بنگلہ دیش نے کرکٹ کی تاریخ کا ایک اور بڑا اپ سیٹ کرکے تاریخ رقم کی۔

ورلڈ کپ 2003: جب کینیا سابق چیمپئن سری لنکا کو شکست دینے میں کامیاب ہوا

سن 2003 کا ورلڈ کپ جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ کینیا میں بھی کھیلا گیا تھا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ میزبان ٹیم کو ہوا اور انہوں نے ایونٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔

سابق چیمپئن سری لنکا کے خلاف کینیا کی کامیابی اس لیے بھی یادگار تھی کیوں کہ سری لنکا کے پاس مشہور کھلاڑی تھے اور اس کے برعکس کینیا کے پاس ہوم ایڈوانٹیج تھا۔

نیروبی جم خانہ میں کھیلے گئے سپر سکس میچ میں مرلی دھرن کے سامنے میزبان ٹیم بے بس نظر آئی۔

کینیا نے کینیڈی اوٹیانو کے 60 رنز کی بدولت نو وکٹوں پر 210 رنز بنائے۔ جواب میں مارون اٹاپٹو، سنتھ جے سوریا، ارویندا ڈی سلوا اور کمار سنگاکارا جیسے بلے بازوں کی موجودگی میں کینیا نے سری لنکا کو 45 اوورز میں صرف 157 رنز پر آؤٹ کردیا۔

سری لنکا کے ورلڈ کپ ونر ارویندا ڈی سلوا 41 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے لیکن کولنز اوبویا کی 24 رنز کے عوض پانچ وکٹیں ان پر بھاری رہیں۔53 رنز سے ناکامی کے باوجود سری لنکا اور کینیا کی ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں اور پھر سری لنکا کو آسٹریلیاجب کہ کینیا کو بھارت نے شکست دے کرفائنل کے لئے کوالی فائی کیا۔

ورلڈ کپ 2007: جب آئرش ٹیم سے شکست کا غم پاکستانی کوچ برداشت نہ کرسکے

سن 2007 کا کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان کے لیےکسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ ایونٹ کا آغاز ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست سے کرنے والی ٹیم نے جب آئرلینڈ کے خلاف میچ کھیلا تو انہیں یقین تھا کہ وہ یہ میچ جیت کر اگلے مرحلے میں رسائی حاصل کرلیں گے۔

لیکن آئرش ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستان کو پورے میچ میں ٹف ٹائم دیا ۔ پہلے آئرلینڈ کے بالرز نے پاکستان کو صرف 132 رنز پر ڈھیر کیا، اس کے بعد 42 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر ہدف حاصل کرکے گرین شرٹس کو دوسرے مرحلےکی دوڑ سے باہر کردیا۔

آئرلینڈ کی جانب سے اس کامیابی کے ہیرو بوئیڈ رینکن رہے جنہوں نے یونس خان اور کامران اکمل سمیت تین کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔

نائل او برائن کے 72 رنز کی بدولت آئرش ٹیم نے ایک ایسی فتح حاصل کی جو ان کی تاریخ کا حصہ بن گئی۔

کہا جاتا ہے کہ اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ باب وولمر یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

ورلڈ کپ2007: بنگلہ دیشی ٹیم نے بھارت کو ایونٹ سے باہر کردیا

ایک طرف پاکستانی ٹیم کو آئرلینڈ نے دوسرے مرحلے کی دوڑ سے باہر کیا تو دوسری جانب بھارتی ٹیم بھی میگا ایونٹ میں کچھ دیر کی مہمان ثابت ہوئی۔

پاکستان کی طرح سابق چیمپئنز بھارت کو بھی ایک ایسے حریف نےہرایا جسے وہ سنجیدہ نہیں لے رہے تھے۔

پورٹ آف اسپین کے مقام پر سارو گنگولی کے 66 اور یوراج سنگھ کے 47 رنز کی بدولت بھارتی ٹیم اسکور بورڈ پر 191 رنز بناکر آؤٹ ہوئی۔

بنگلہ دیش کی جانب سے مشرفی مرتضی نے چار اور محمد رفیق نے تین وکٹیں حاصل کیں تھیں۔

جب کہ تمیم اقبال، مشفق الرحیم اور شکیب الحسن کی نصف سنچریوں کی بدولت بنگلہ دیش نے مطلوبہ ہدف 49ویں اوور میں پانچ وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا ۔

اس فتح کے ساتھ ہی 2007 کے ورلڈ کپ میں بھارت کا سفر ختم ہوا جب کہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے اگلے مرحلے کے لیے کوالی فائی کرلیا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2007: زمبابوے کی آسٹریلیا کے خلاف تاریخی کامیابی

اب ذکر کرتے ہیں پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا جب 2007 میں زمبابوے نے آسٹریلیا کوشکست دے کر 1983 کے اُس میچ کی یاد تازہ کردی جس نے زمبابوے کو دنیائے کرکٹ میں ایک پہچان دی۔

جب ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی بار زمبابوے اورآسٹریلیا کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں تو آسٹریلیا کے پاس ایڈم گلکرسٹ، میتھیو ہیڈن، رکی پونٹنگ اور مائیکل ہسسی جیسے بلے باز تھے۔ لیکن ان سب کی موجودگی کے باوجود آسٹریلوی ٹیم 20 اوورز میں نو وکٹوں پر 138 رنز بناسکی۔

جواب میں وکٹ کیپر برینڈن ٹیلر کے ناقابل شکست 60 رنز کی بدولت زمبابوے نے ہدف ایک گیند قبل حاصل کرکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تاریخ کا پہلا اپ سیٹ اسی ٹیم کے خلاف کیا،جسے ہرا کر اس نے50اوور کرکٹ کا پہلا اپ سیٹ کیا تھا۔

بریٹ لی، مچل جانسن اور نیتھن بریکن بھی زمبابوے پر حاوی نہ ہوسکے اور انہوں نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2007: ویسٹ انڈیز کو بنگلہ دیش سے شکست

ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے آغاز میں وہ مقام حاصل نہیں تھا، جوان کی ون ڈے انٹرنیشنل ٹیم کو تھا، لیکن ان کی ٹیم کی کارکردگی بنگلہ دیش سے خاصی بہتر تھی۔

سن 2007 میں بھارت کو 50 اوور کے ورلڈ کپ سے باہر کرنے والی بنگلہ دیشی ٹیم نے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کچھ یہی حال ویسٹ انڈیز کا بھی کیا۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بنگلہ دیش نے 164 رنز پر آؤٹ کیا اور پھر اس کے بعد مطلوبہ ہدف 18 اوورز میں حاصل کرلیا۔

بنگلہ دیش کی بالنگ کے ہیرو شکیب الحسن تھے جنہوں نے چار ویسٹ انڈین بلے بازوں کو واپس پویلین کی راہ دکھائی جب کہ بیٹنگ کے وقت کپتان محمد اشرفل نے ٹیم کو سنبھالا۔

انہوں نے جوہانسبرگ کے مقام پر صرف 27 گیندوں پر 61 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ آفتاب احمد بھی 62 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2009: جب نیدرلینڈز نے میزبان انگلینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کی

دوسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی، آخری میچ کی طرح ایونٹ کا پہلا میچ بھی سنسنی خیزتھا۔

اس میچ میں نیدرلینڈز کی ٹیم نے میزبان انگلینڈ کو لارڈز کے مقام پر شکست دے کر اپ سیٹ کیا تھا۔

لیوک رائٹ اور روی بوپارا کی سنچری شراکت کی وجہ سے انگلینڈ نے ایونٹ کے افتتاحی میچ میں پانچ وکٹوں پر 162 رنز بنائے۔

لیوک رائٹ 71 اور روی بوپارا 46 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔

جواب میں ڈچ ٹیم نے اننگز کی آخری گیند پر ہدف حاصل کرکے ہوم کراؤڈ کے سامنے انگلش ٹیم کو حیران کردیا۔

میچ کے آخری اوور میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب آخری اوور کرنے والے اسٹورٹ براڈ نے اپنی ہی گیند پر رن آؤٹ کے لیے اوور تھرو پھینکی جس سے قیمتی اضافی رنز نیدرلینڈز کی ٹیم کی جھولی میں آ گئے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ2016: ویسٹ انڈیز کو افغانستان کے ہاتھوں شکست

سن 2016 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز نے اپنے نام کیا تھا لیکن جب جب ان کی اس فتح کا ذکر ہوگا تو افغانستان کے ہاتھوں ویسٹ انڈیز کی شکست کا تذکرہ بھی ہوگا۔

بھارت میں کھیلے گئےاس ایونٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو صرف افغانستان نے مشکل میں ڈالا جنہوں نے ناگپور کے مقام پر سابق چیمپئنز کو آسانی سے قابو کرلیا۔

افغانستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے نجیب اللہ زدران کے 48 ناٹ آؤٹ کی بدولت سات وکٹوں پر 123 رنز بنائے۔ جواب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں پر صرف 117 رنز ہی بناسکی اور چھ رنز کی دوری کی وجہ سے شکست کھاگئی۔

ڈوین براوو کے 28 اور جانسن چارلس کے 22 رنز ویسٹ انڈیز کے کام نہ آئے جب کہ راشد خان اور محمد نبی کی دو دو وکٹوں نے بھی ان کے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔