جائزے فلمی جائزے

کبھی پابندی کبھی اعتراضات؛ باربی ڈول کی اپنی کہانی کیا ہے؟

Written by ceditor

کراچی — دنیا بھر میں ا ن دنوں باربی ڈول کا کریز اپنے عروج پر ہے اور شائقین مارگو روبی کی فلم ‘باربی’ دیکھنے کے لیے سنیما گھروں کا رخ کررہے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ باربی ڈول کو یہ مقبولیت کیسے حاصل ہوئی؟

نو مارچ 1959 کو پہلی بار منظر ِعام پر آنے والی گڑیا’ باربی ‘ کی لانچ کی کہانی بھی کسی فلم سے کم نہیں ہے۔ اس کی خالق اور کھلونے بنانے والی کمپنی ‘مٹیل’ کی شریک بانی رتھ ہینڈلر کو اس کا آئیڈیا اس وقت آیا تھا جب انہوں نے اپنی بیٹی کو کاغذ کی گڑیا سے کھیلتے دیکھا۔

انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کاغذ کی گڑیا کے بجائے پلاسٹک کی گڑیا ہو جو خودمختار ہونے کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں بھی بڑی نظر آئے ۔

رتھ ہینڈلر نے جب یہ آئیڈیا اپنے شوہر ایلیٹ کو بتایا جو اس وقت مٹیل کے شریک بانی تھے، تو انہوں نے اور ان کی کمپنی کے ڈائریکٹرز نے اسے رد کردیا۔

بعد ازاں رتھ نے جرمنی میں مقبولیت حاصل کرنے والی ڈول ‘بلڈ للی ‘سے متاثر ہوکر ایک ڈول ڈیزائن کی جسے انہوں نے باربی کا نام دیا۔ اس باربی ڈول نے سن 1959 میں ہونے والے امریکی انٹرنیشنل ٹوائے فئیر میں ڈیبیو کرکے تہلکہ مچا دیا۔اس وقت سے لے کر اب تک باربی کو دنیا کی مقبول ترین گڑیا کے طور پر جانا جاتا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا ‘بریٹینیکا’ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سیکنڈ پر دو ’باربی‘ ڈول فروخت ہوتی ہیں۔ پہلی باربی نے ایک سوئم سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا جب کہ اس نے لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی جو اسے بچوں کے لیے بننے والی دیگر گڑیاؤں سے منفرد بناتی تھی۔ لیکن اس کے بعد باربی ڈول کو کئی اعتراضات اور تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

باربی پر ماؤں کو کیا اعتراض تھا؟

انتیس سینٹی میٹر لمبی پلاسٹک کی گڑیا باربی جسے 1959 میں ایک ایسے وقت متعارف کرایا گیا تھا جب لڑکے سپر ہیروز پسند کررہے تھے اور لڑکیوں کے پاس کھیلنے کےلیے صرف کاغذ کی بنی گڑیا ہی ہوتی تھی ۔

ایسے میں جب ماڈل نما باربی منظرِ عام پر آئی تو اسے والدین بالخصوص ماؤں نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ باربی کو متعارف کرنے والی کمپنی مٹیل کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق 1958 میں ماؤں نے اس لیے باربی کو رد کیا کیوں کہ ان کے خیال میں اس کا فگر بچوں کے لیے مناسب نہیں تھا۔

لیکن پہلے ہی سال مٹیل نے ساڑھے تین لاک باربی ڈولز فروخت کرکے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور بہت جلد بچوں کی پسندیدہ گڑیا بن کر سامنے آئی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ باربی جسے ٹین ایج فیشن ماڈل کے طور پر متعارف کیا گیا تھا اس کا نام رتھ ہیڈلر نے اپنی بیٹی ‘باربرا’ کے نام پر رکھا تھا جس کی وجہ سے انہیں اس گڑیا کا آئیڈیا آیا تھا۔

مبصرین کے مطابق باربی نے خواتین میں کہیں نہ کہیں آزادی رائے اور خود اعتمادی کو پروان چڑھایا ہے۔

کہنے کو باربی صرف ایک گڑیا ہے لیکن امریکی پاپ کلچر میں اسے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ایتھلیٹ سے لے کر پائلٹ، ڈاکٹر سے لے کر امریکی صدر تک، باربی نے ہر شعبے میں خود کو ڈھال کر اس بات کی عکاسی کی کہ خواتین کو کسی ایک چیز کے لیے محدود نہیں کیا جا سکتا۔

باربی کی کامیابی کو دیکھ کر مٹیل نے دو سال بعد باربی کے بوائے فرینڈ کین کو بھی متعارف کرایا جب کہ 1963 میں باربی کی دوست مج اور ایک سال بعد اس کی چھوٹی بہن سکپر بھی منظرِ عام پر آئی۔

بعد ازاں باربی کے دوستوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جو ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ باربی کے تخلیق کاروں نے اعتراضات سے بچنے کے لیے 1980 میں پہلی سیاہ فام باربی بھی متعارف کرائی جس کےبعدنیٹو امریکی اورلاطینی باربی بھی لانچ کی گئی۔

باربی کو دنیا کی مقبول گڑیا بننے کے لیے کن کن تنازعات کا سامنا کرنا پڑا؟

باربی کا سب سے بڑا اسکینڈل اس کے لانچ ہوتے ہی سامنے آیا جب جرمن کمپنی لوئی مارکس نے مٹیل پر الزام لگایا کہ اس نے ان کی گڑیا بلڈ للی کا ڈیزائن چوری کیا ۔ اس الزام میں کچھ حقیقت بھی تھی۔

بلڈ للی ایک کومک اسٹرپ پر مبنی گڑیا تھی جسے جرمنی میں بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ یہ کومک اسٹرپ 1952 سے 1961 تک جرمن اخباروں کی زینت بنی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس گڑیا کو دیکھ کر ہی باربی کا آئیڈیا وجود میں آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ معاملہ بڑھتا دونوں پارٹیوں نے اسے آؤٹ آف کورٹ سیٹل کر لیا۔

باربی کے ڈیزائن میں سب سے بڑی تبدیلی 1971 میں دیکھنے میں آئی جب رتھ ہینڈلر نے ایک ایسی باربی متعارف کرائی جو سائیڈ میں دیکھنے کے بجائے سامنے دیکھتی تھی۔ اسی تبدیلی کے تین سال بعد رتھ ہینڈلر اور ان کے شوہر ایلیٹ کو مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے اسی کمپنی سے فارغ کردیا گیا تھا جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔

سن 1994 میں فن لینڈ ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق اگر اصل زندگی میں باربی ہوتی تو شاید وہ اس فگر پر زندہ نہیں رہ سکتی تھی جس کے بعد مٹیل کمپنی نے اس کے ڈیزائن میں معمولی سا ردوبدل کرکے اسے حقیقت سے زیادہ قریب روپ میں پیش کیا۔

باربی کو اس کے فگر اور کپڑوں کی وجہ سے مسلمان ملکوں میں ویسی پذیرائی نہیں ملی جتنی کہ اسے دنیا بھر میں ملی۔ سن 1995 میں سعودی عرب نے اس کی فروخت پر پابندی بھی لگائی کیوں کہ ان کے خیال میں باربی کے کپڑے اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں تھے اور یوں باحجاب گڑیائیں منظر عام پر آئیں جو باربی جیسی تھیں لیکن ان کے سر ڈھکے ہوئے تھے۔

یہی نہیں 2012 میں ایران میں بھی باربی کو اس لیے بین کیا گیا تھا کیوں کہ وہاں کی حکومت کے خیال میں یہ گڑیا مغربی ثقافت کی نمائندگی کررہی تھی۔

مٹیل کمپنی نے آگے جاکر ‘ہی مین اینڈ دی ماسٹرز آف دی یونی ورس ‘ سیریز کے ایکشن فگرز بھی متعارف کرائے جب کہ مقبول کارڈ گیم اونو بھی ان ہی کی تخلیق ہے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor