اسپورٹس

وہ اولمپینز جنہوں نے ‘ناممکن’ کو ممکن کر دکھایا

Written by Omair Alavi

کراچی — آپ نے میدانِ جنگ میں شہسواروں کے گرنے کا تو سنا ہی ہو گا۔ لیکن کسی کھیل میں کھلاڑی کے گرنے اور پھر اٹھ کر چیمپئن بننے کے بارے میں کم ہی سنا اور دیکھا ہو گا۔

رواں اولمپکس گیمز میں جب نیدرلینڈ کی ایتھلیٹ سیفان حسن 1500 میٹرز کی ہیٹس کے آغاز میں گریں تو شائقین کو ایسا لگا جیسے ان کی جیت اب ناممکن ہے لیکن پھر انہوں نے ریس جیت کر سب کو حیران کردیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب کسی ایتھلیٹ کو پرفارمنس کے دوران دھچکا لگا ہو اور وہ اس کے باوجود کامیاب ہو گیا ہو۔

ایسے کئی ایتھلیٹس گزرے ہیں جنہوں نے انجری اور مشکل حالات میں بھی فتوحات اپنے نام کی ہیں۔ ایسے ہی چند کھلاڑیوں کا ذکر کرکے اولمپک گیمز کے اختتامی روز کو یاد گار بناتے ہیں۔

ناممکن کو ممکن کرنے والے ایتھلیٹس

سال 1928 کے اولمپکس میں پہلی بار خواتین کی 100 میٹر ریس متعارف کی گئی، امریکی ٹریک اسٹار بیہٹی رابنسن نے اس ایونٹ میں نہ صرف گولڈ میڈل جیتا بلکہ وہ اس ریلے ریس کا بھی حصہ تھیں جس میں انہوں نے سلور میڈل جیتا۔

البتہ 1931 میں وہ ایک طیارہ حادثے میں شدید زخمی ہو گئی تھیں، جس فرد نے بیہٹی کو جائے حادثہ پر پایا۔ وہ سمجھا کہ وہ مر چکی ہیں اور انہیں ڈاکٹر کے بجائے انڈر ٹیکر (دفنانے والے) کے پاس لے گیا۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔

وہ امریکہ میں ہونے والے 1932 کے اولمپکس میں شرکت نہ کرسکیں لیکن وہ 1936​کے ایونٹ سے قبل اتنی صحتیاب ہوگئیں کہ اولمپک میں حصہ لے سکیں۔ چونکہ وہ حادثے کی وجہ سے اپنی ٹانگ نہیں موڑ سکتی تھیں۔ اس لیے صرف ریلے ریس میں شریک ہوئیں اور وہ گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھیں۔

امریکہ کی جانب سے تین اولمپکس میں آٹھ گولڈ میڈل جیتنے والے رے یوری کو بہت لوگ جانتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب وہ پولیو کی وجہ سے ویل چیئر استعمال کرتے تھے۔

ان کے لیے اسٹینڈنگ ہائی جمپ، ٹرپل جمپ اور لونگ جمپ میں کامیابی تو کیا شرکت بھی اس وقت ناممکن تھی۔ لیکن انہوں نے ناممکن کو ممکن کیا اور سب سے زیادہ گولڈ میڈل کا ریکارڈ سو سال تک اپنے پاس رکھا۔

سن 1956 کے اولمپک گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے امریکی ڈسکس تھرور ایل اورٹر کامیابی کے ایک سال بعد ہی ایک کار حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی چیمپئن بننے کی جستجو نہیں چھوڑی اور اگلے تین اولمپکس میں طلائی تمغے جیتے۔

سیاہ فام امریکی ٹریک اسٹار ولما روڈولف کی زندگی کا آغاز ہی امتحان سے ہوا اور انہیں بچپن میں ہی نمونیا، اسکارلیٹ فیور اور پولیو جیسی بیماریاں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے ان کا دوڑنا تو کیا چلنا بھی مشکل ہو گیا۔

لیکن ولما نے ہمت نہیں ہاری انہوں نے اپنے گھر والوں اور ڈاکٹروں کی مدد سے پہلے چلنا سیکھا اور پھر دوڑنا جس کے بعد وہ ایسا دوڑیں کہ 1960 کے اولمپک گیمز میں 100 میٹر، 200 میٹر اور ریلے ریس میں گولڈ میڈل جیتا۔

ایک اور سیاہ فام ایتھلیٹ جنہوں نے بیماری کو شکست دے کر اولمپک گولڈ جیتا۔ ان کا نام گیل ڈیہوز تھا۔ 1988 کے اولمپکس سے قبل وہ گرویز ڈیزیز کا شکار ہو گئیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی نظر متاثر ہوئی بلکہ وزن بھی، سر درد اور مسل پُل ہو جانے کی وجہ سے وہ ایونٹ میں شرکت نہ کر سکیں۔

انہوں نے اس بیماری کا علاج تو کرایا لیکن اس کے بعد انہیں بھاگنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ گیل نے ہمت نہیں ہاری اور 1992 کے اولمپک گیمز میں 100 میٹر ریس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ ان کی قریب ترین حریف ان سے صرف 0 اعشاریہ پانچ سیکنڈز دور رہیں جس کے بعد فاتح کا فیصلہ ری پلے دیکھ کر کیا گیا۔

زخمی ہونے کے باوجود فاتحانہ پرفارمنس دینے والے کھلاڑی

1976 کے اولمپک گیمز میں جہاں کئی ایتھلیٹس نے میڈلز جیتے وہاں جاپان کے شون فُوجی موٹو کا کارنامہ اب بھی کئی لوگوں کو یاد ہے۔

آرٹسٹک جمانسٹک ٹیم ایونٹ کے دوران وہ گھٹنے کی انجری کا شکار ہوگئے تھے لیکن فُوجی موٹو نے اس درد اور تکلیف کے باوجود پہلے پومل ہارس ایونٹ میں نو اعشاریہ پانچ پوائنٹس اسکور کیے اور پھر رنگز ایونٹ میں نو اعشاریہ سات کی بہترین کارکردگی دکھاکر سب کو حیران کردیا۔ ان کی اس کوشش کے باعث ان کی ٹیم کو ایونٹ میں گولڈ میڈل ملا۔

امریکی جمناسٹک کیری اسٹرگ کو 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس کی جمناسٹک ٹیم کا سب سے کمزور حصہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسی ایتھلیٹ نے امریکہ کو گولڈ میڈل جتوانے کے لیے جو کیا اس کی مثال نہیں۔

مقابلے کے دوران پہلی ہی باری میں ان کا ٹخنہ زخمی ہوگیا جس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دوسری باری مکمل کرنی تھی تاکہ امریکی ٹیم کو طلائی تمغہ مل سکے۔ انہوں نے زخمی ٹخنے کے ساتھ ہی باری مکمل کی اور نو اعشاریہ 712 اسکور کیا اور ٹیم کو کامیابی دلائی۔

انہیں لینڈنگ پلیٹ فارم سے میڈل پوڈیم تک ان کے کوچ گود میں اٹھا کر لے گئے۔

اسی اولمپکس میں شرکت کرنے والے امریکی فری اسٹائل ریسلر کرٹ اینگل کی زندگی بھی عجیب تھی، بچپن میں باپ کا انتقال ایک حادثے میں ہوا تو کوچ کو اٹلانٹا اولمپک گیمز سے قتل کر دیا گیا اور جب اولمپک ٹرائلز کے لیے ان کا انتخاب ہونا تھا، تو وہ گردن کی انجری کا شکار ہو گئے۔

البتہ اس سب کے باوجود انہوں نے ​ہمت نہ ہاری اور پہلے ٹرائلز جیت کر اولمپک گیمز میں جگہ بنائی پھر پانچ ماہ آرام کرنے کے بعد انہوں نے اولمپکس میں حصہ لیا۔

انہوں نے درد سے نجات کے انجکشن لگا کر ایونٹ میں شرکت کی۔ اس سب کے باوجود انہوں نے امریکہ کے لیے اولمپک میں گولڈ میڈل جیتا جس کے بعد وہ پروفیشنل ریسلر بن گئے۔

کوئی گیم چھوڑ کر واپس آیا تو کسی کو دوسرا موقع ملا

امریکی ایتھلیٹ جارج آئیزر نے جب 1904 کے اولمپک گیمز میں شرکت کی تو ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی میڈل جیتیں گے، کیوں کہ وہ دیگر ایتھلیٹس سے مختلف تھے۔

ان کی بائیں ٹانگ ایک ٹرین حادثے میں ضائع ہو گئی تھی اور وہ لکڑی کی ٹانگ کے بل پر چلتے پھرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے ایونٹ میں تین گولڈ سمیت چھ میڈلز جیتے جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔

سن 1940 اور 1944 میں اولمپک گیمز دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے نہیں ہو سکے تھے۔ البتہ 1936 میں نیدرلینڈ کی جانب سے اولمپک شرکت کرنے والی فینی کوئن جن کی شادی ہو گئی تھی اور وہ فینی بلنکز کوئن بن کر گھریلو زندگی میں مصروف ہو گئی تھیں نے 1948 کے اولمپکس گیمز میں شرکت کی۔

انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے 100 میٹر ریس، 80 میٹر ہرڈلز، 200 میٹر ریس اور ریلے ریس چاروں میں گولڈ میڈل جیتا۔

سن 1956 میں 100 میٹر فری اسٹائل میں اولمپک ریکارڈ قائم کرنے والی آسٹریلوی سومر ڈان فریز کو اکثر اپنی ٹیم تو کبھی اولمپکس اسپانسرز سے مسئلہ رہتا تھا۔

سن 1963 میں وہ ایک خوفناک کار حادثے کا شکار ہو گئی، اس واقعے میں ان کی والدہ ہلاک اور بہن زخمی ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اولمپک میں حصہ لیا اور ایک ہی ایونٹ میں مسلسل تین میڈلز جیتنے والی پہلی سوئمر بنیں۔

کچھ ایتھلیٹس ساری زندگی محنت کر کے نام بناتے ہیں اور پھر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ لیکن امریکی سوئمر ڈارا ٹورز کو ریٹائرمنٹ سے ہی نفرت تھی۔ انہوں نے 1984، 1988 اور 1992 کے اولمپکس میں امریکہ کے لیے متعد کامیابیاں سمیٹیں۔ انہوں نے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کم بیک کیا اور دونوں مرتبہ ہی تمغے جیتے۔

اپنے کریئر کے دوران 12 میڈلز جیتنے والی اس سوئمر نے پہلے 2000 اولمپکس میں 33 سال کی عمر میں حصہ لیا اور پھر 41 برس کی عمر میں 2008 اولمپک گیمز میں امریکہ کی نمائندگی کی۔

سن 1984 کے اولمپک گیمز میں انہوں نے فری اسٹائل ریلے میں اپنا پہلا گولڈ میڈل جیتا، چار سال بعد انہوں نے ایک سلور اور ایک برانز میڈل اپنے نام کیا جب کہ 1992 میں فری اسٹائل ریلے میں ایک اور گولڈ جیت کر کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

بعد ازاں آٹھ سال بعد انہوں نے دوبارہ اولمپک گیمز میں شرکت کی اور 33 سال کی عمر میں دو گولڈ اور تین برانز میڈل جیت کر سب کو حیران کردیا۔ یہی نہیں، 41 سالہ ڈارا ٹورز ​کی میڈل جیتنے کی جستجو ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے بیجنگ اولپکس میں تین سلور میڈل اپنے نام کیے۔ اس طرح وہ مجموعی طور پر 12 میڈلز جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔

علاوہ ازیں 1992 کے اولمپکس میں روس کی یونی فائیڈ ٹیم کے پرچم تلے چھ طلائی تمغے جیتنے والے جمناسٹ وٹالی شربو نے چار سال بعد بیلاروس کی جانب سے اولمپکس میں شرکت کی ٹھانی۔ لیکن اولمپکس سے چند ماہ قبل ان کی اہلیہ کار حادثے میں شدید زخمی ہوکر کوما میں چلی گئیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق ان کی اہلیہ کا بچ جانا معجزہ ہو گا اور اسی انتظار میں گولڈ میڈلیسٹ ایتھلیٹ سب کچھ چھوڑ کر بیوی کے پاس بیٹھے رہے، نہ صرف انہوں نے 15 پاؤنڈ وزن بڑھا لیا بلکہ پریکٹس بھی چھوڑ دی۔

اپنی اہلیہ کی صحت یابی کے انتظار میں انہوں نے اولمپکس کے لیے پریکٹس کرنا چھوڑ دی جس کے باعث ان کا وزن 15 پاؤنڈ بڑھ گیا۔ بعد ازاں ایک ماہ بعد ان کی اہلیہ کوما سے باہر آئی اور شربو نے بغیر پریکٹس کے اولمپکس میں حصہ لیا۔

انہوں نے کھیلوں کے اس مقابلے اٹلانٹا اولمپکس مین چار کانسی کے تمغے اپنے نام کیے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔