اسپورٹس

سری لنکا کے خلاف وائٹ واش: ‘بیزبال’ کے بعد ‘بوبی بال’ کا کمال

Written by ceditor

کراچی — پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا خاتمہ مہمان ٹیم کی جیت پر ہوا۔ پاکستان نے دوسرا ٹیسٹ ایک اننگز اور 222 رنز سے جیت کر میزبان ٹیم کے خلاف وائٹ واش کیا۔

اس سیریز کی خاص بات گرین شرٹس کا ایک نئے روپ میں نظر آنا ہے جسے شائقین نے خوب پسند کیا۔

بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے اس سیریز میں نہ صرف تیز رفتاری سے بالنگ کی بلکہ بلے بازوں نے بھی اچھے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنا کر بالرز کو سہارا دیا۔

انگلش کرکٹ ٹیم کے کوچ برینڈن میکولم کے نام سے منسوب ‘بیزبال ‘طریقے سے متاثر ہو کر پاکستان نے اس سیریز میں بیٹنگ کی جس کے نتیجے میں نئی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز بابر اعظم الیون نے پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ پر پہنچ کر کیا۔

ماہرین اس جارح مزاج انداز کی کرکٹ کو کپتان بابر اعظم کے نک نیم سے منسوب ‘بوبی بال’ کا نام دے رہے ہیں جس کی مدد سے پاکستان نے گال ٹیسٹ چار وکٹ اور دوسرا ٹیسٹ کولمبو میں ایک اننگز اور 222 رنز سے اپنے نام کیا۔



قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سری لنکا نے سیریز کے دوران ساڑھے تین رنز فی اوورز کے حساب سے رنز بنائے جب کہ پاکستان نے تین میں سے ایک اننگز میں ایک بار ساڑھے تین رنز فی اوورز سے زیادہ،اور دو مرتبہ چار رنز فی اوورز سے زیادہ کے حساب سے رنز اسکور کیے۔

کپتان اور کوچ کے اعتماد کا نتیجہ، نوجوان بلے بازوں کی شان دار کارکردگی

دورہ سری لنکا کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انتخاب سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے دور میں ہوا جب کہ میچز مینجمنٹ کمیٹی کے نئے چیئرمین ذکا اشرف کے دور میں ہوئے۔

لیکن چیئرمین بدلنے کے باوجود نہ تو ٹیم میں کوئی تبدیلی کی گئی نہ ہی اسپورٹ اسٹاف میں اور اس کا کھلاڑیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم کی کوچنگ گرانٹ بریڈبرن نے کی جب کہ اینڈرو پٹیک بیٹنگ کوچ اور مورنے مورکل نے بالنگ کوچ کے فرائض انجام دیے۔

سیریز کے دونوں میچز میں پاکستانی بلے باز چھائے رہے اور اس کا اندازہ اس سیریز میں بننے والی چار سینچریوں سے لگایا جا سکتا ہے جس میں تین پاکستانی بلے بازوں نے اسکور کیں۔

اگر گال ٹیسٹ میں نوجوان کرکٹر سعود شکیل اپنے کریئر کی پہلی ڈبل سینچری نہ اسکور کرتے اور اگر کولمبو میں آغا سلمان 132 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز نہ کھیلتے تو سیریز کا نتیجہ مختلف ہوتا۔

یہاں اوپننگ بلے باز عبداللہ شفیق کا بھی ذکر ہونا چاہیے جنہوں نے سعود شکیل کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کریئر کی پہلی ڈبل سینچری اسکور کر کے پاکستان کو ایک ایسے وقت میں مشکل سے نکالا جب سری لنکن بالرز حاوی ہو رہے تھے۔

اس سیریز میں پاکستانی بلے باز سعود شکیل نے نہ صرف سب سے زیادہ 295 رنز اسکور کیے بلکہ ٹیسٹ کرکٹ کی 146 سالہ تاریخ میں اپنے پہلے سات میچز کی کم از کم ایک اننگز میں 50 رنز کا ہندسہ عبور کرنے والے پہلے کھلاڑی بھی بن گئے۔

اس سے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی بھی کھلاڑی اپنے پہلے سات میچز کی کم از کم ایک اننگز میں نصف سینچری نہیں بنا سکا تھا۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اس سیریز میں زیادہ نہیں چل سکے اور دو میچوں میں صرف 76 رنز ہی اسکور کرسکے۔ لیکن ان کی جارح مزاج کپتانی کی وجہ سے پاکستان نے یہ دونوں میچز اپنے نام کیے۔

نعمان علی اور ابرار احمد سیریز کے کامیاب ترین بالر رہے، شاہین شاہ بھی کم بیک پر کامیاب رہے۔

سیریز کے پہلے میچ میں مجموعی طور پر ابرار احمد کی چھ وکٹیں ہوں یا دوسرے میچ میں نعمان علی کے ایک ہی اننگز میں سات شکار، پاکستان اسپنرز نے میزبان ٹیم کے بلے بازوں کو دونوں میچوں میں پریشان کیا۔

دوسرے میچ کے آخری دن نسیم شاہ کی تیز رفتار بالنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے کوچ کی آمد سے انہوں نے فائدہ اٹھایا، جب کہ ایک سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں کم بیک کرنے والے شاہین شاہ آفریدی نے بھی سیریز میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔

مجموعی طور پر سیریز کے سب سے کامیاب بالر پاکستان کے اسپنر نعمان علی اور ابرار احمد رہے جنہوں نے دس دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جس میں نعمان علی کی ایک اننگز میں 70 رنز کے عوض سات وکٹیں سیریز کی بہترین بالنگ تھی۔

پاکستانی پیسر نسیم شاہ اور سری لنکا کے پراباتھ جے سوریا نے نو نو وکٹیں حاصل کیں جب کہ شاہین شاہ آفریدی اور رمیش مینڈس کے حصے میں چھ چھ شکار آئے۔

سیریز میں ‘کیچز ون میچز’ کے محاورے کو پاکستان کے نوجوان فیلڈرز نے عملی جامہ اس دورے میں پہنچایا۔

نئے فیلڈنگ کوچ آفتاب خان کی زیر نگرانی تمام فیلڈرز بالخصوص امام الحق اور عبداللہ شفیق نے ایسے کیچز تھامے جس نے سری لنکا کی میچ میں واپس آنے کی کوششوں کو بریک لگا دیا۔

سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز جیتنا اس لیے بھی پاکستان کے لیے اہم تھا کیوں کہ انہی گراؤنڈز میں اگلے ماہ کے آخر میں ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے میچز کھیلے جائیں گے جن سے کھلاڑیوں کو اکتوبر، نومبر میں بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کی تیاریوں کا موقع ملے گا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor