اسپورٹس میری رائے

ایشیا کپ: پاک بھارت ٹاکرے کے لیے کون کتنا تیار ہے؟

Written by ceditor

کراچی — ایشیا کپ کا آغاز تو ہوچکا ہے لیکن جس میچ کا سب کو انتظار ہے وہ دو ستمبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سری لنکا کے پالے کیلے اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

دونوں ٹیموں کے لیے یہ میچ اس لیے بھی اہم ہوگا کیوں کہ جیت کی صورت میں پاکستان ٹیم سپر فور میں پہنچ جائے گی، جب کہ بھارتی ٹیم اس سے ایونٹ کا فاتحانہ آغاز کرسکے گی۔

اگر بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم کے پاس دنیا کا بہترین بالنگ اٹیک ہےتو بھارتی کپتان روہت شرما کے پاس مستند بلے بازوں سے بھرا بیٹنگ لائن اپ ہے۔

سری لنکا کے شہر کینڈی میں ہفتے کو بارش کی پیش گوئی ہے۔ اگر میچ کو موسم نے متاثر نہ کیا، تو شائقین کرکٹ کو بہترین بالنگ اٹیک اور بہترین بیٹنگ لائن اپ کا ٹکراؤ دیکھنے کو ملے گا۔

اگر دونوں ٹیمیں ایونٹ کے سپر فور مرحلے میں پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو وہاں بھی دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 1984 میں شروع ہونے والے ایشیا کپ میں آج تک فائنل میں پاکستا ن اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے نہیں آئیں۔ رواں برس ہونے والے ایونٹ کا فارمیٹ اس لیے بھی دلچسپ ہے کیوں کہ دونوں ٹیموں کو فائنل میں پہنچنے کا پورا چانس ملے گا۔

اس سے پہلے کہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں پر بات کی جائے، پاکستان اور بھارت کی رواں سال ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ پرفارمنس پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔

جنوری سے لے کر اگست تک پاکستان اور بھارت دونوں نے 12، 12 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں جس میں سے انہیں نو ،نو میچز میں کامیابی حاصل ہوئی۔

اس وقت آئی سی سی ٹیم رینکنگ میں پاکستان نمبر ون پوزیشن پر ہے جب کہ بھارت کی تیسری پوزیشن ہے، جس سے یقینا پاکستانی کھلاڑیوں کا مورال بلند ہوگا۔

ٹاپ آرڈر

ون ڈے کرکٹ کی اگر بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت دونوں کا ٹاپ آرڈر کسی سے کم نہیں۔ دونوں نے اس سال جتنے بھی ون ڈے میچز کھیلے ہیں اس میں زیادہ تر ایک ہی جوڑی پر انحصار کیا۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس سال کھیلے گئے میچز میں امام الحق اور فخر زمان نے زیادہ تر اننگز کا آغاز کیاتھا۔ امام الحق کے زخمی ہونے کی صورت میں شان مسعود نے تین میچز میں اننگز کا آغاز کیا لیکن اس کے علاوہ کسی اور کو موقع نہیں ملا۔

امام الحق اور فخر زمان کا ون ڈے میں انفرادی ریکارڈ بھی ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ون ڈے میں فخر زمان کی اوسط 46 اعشاریہ چھ آٹھ ہے اور وہ اب تک 74 ون ڈے میچز میں دس سینچریوں کی مدد سے 3221 رنز بناچکے ہیں۔امام الحق نے 63 میچز میں 50 اعشاریہ چھ آٹھ کی اوسط سے نو سینچریوں کی مدد سے 2889 رنز اسکور کیے ہیں۔

کچھ اسی قسم کا ریکارڈ بھارتی اوپنرز کا بھی ہے۔ اس سال ون ڈے کرکٹ میں روہت شرما اور شبمن گل نے زیادہ تر میچز میں اننگز کا آغاز کیا اور اشن کشن کو تیسرے اوپنر کے طور پر استعمال کیا گیا۔

روہت اور شبمن کی جوڑی کا انفرادی ریکارڈ بھی کسی سے کم نہیں۔ بھارتی کپتان اپنے کریئر میں 30 ون ڈے سینچریوں کی مدد سے 48 اعشاریہ چھ نو کی اوسط سے 6837 رنز اسکور کرچکے ہیں ۔

دوسری جانب شبمن گل کی بھی اوسط 27 میچز کے بعد 62 اعشاریہ چار سات ہے، اور انہوں نے مجموعی طور پر 1437 رنز بنائے ہیں جس میں چار سینچریاں شامل ہیں۔

نمبر تین پوزیشن پر دونوں ٹیموں کے پاس اسٹار کھلاڑی موجود

اوپنرز کے بعد سب سے اہم نمبر تین پوزیشن پر دونوں ٹیموں کے اسٹار کھلاڑی موجود ہیں، پاکستان کے پاس اگر بابر اعظم ہیں تو بھارت کے پاس وراٹ کوہلی اور دونوں کا ریکارڈ ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

چونتیس سالہ وراٹ کوہلی نے بھارت کی جانب سے اب تک 275 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے ہیں جس میں انہوں نے 46 سینچریوں کی مدد سے 57 اعشاریہ تین دو کی اوسط سے 12898 رنز بنائے ہیں۔

ادھر 28 سالہ بابر اعظم نے صرف 104 میچوں میں 19 سینچریوں کی مدد سے 5353 رنز بناکر اپنا لوہا منوایا ہے۔نہ صرف ایشیا کپ کے پہلے میچ میں انہوں نے نیپال کے خلاف 151 رنز کی اننگز کھیل کر مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی بلکہ فارم میں ہونے کا بھی ثبوت دیا۔

ان کی 59 اعشاریہ چار سات کی اوسط اس وقت دنیائے کرکٹ میں سو سے زیادہ میچز کھیلنے والے بلے بازوں سے بہتر ہے ۔ سری لنکن پریمئر لیگ میں شرکت کرکے وہ دوسرے کھلاڑیوں سے زیادہ مقامی وکٹوں سے آشنا بھی ہیں۔

اگر آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ کی بات کی جائے تو اس وقت 877 پوائنٹس کے ساتھ بابر اعظم ہی بدستور پہلے نمبر پر موجود بلے باز ہیں جب کہ 748 پوائنٹس کے ساتھ امام الحق کا تیسرا اور 732 پوائنٹس کے ساتھ فخر زمان کا پانچواں نمبر ہے۔

عالمی رینکنگ میں743 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر موجود شبمن گل بھارت کے ٹاپ بلے باز ہیں جب کہ 705 پوائنٹس کے ساتھ وراٹ کوہلی نویں اور 693 پوائنٹس کے ساتھ روہت شرما گیارہویں پوزیشن پر اس فہرست کا حصہ ہیں۔

مڈل آرڈر دونوں کپتانوں کے لیے دردِ سر

ایشیا کپ کے اہم میچ سے قبل پاکستان نے نیپال کو شکست دے کر ایونٹ کا آغاز تو کامیابی سے کیا لیکن اس سے پاکستان کے مڈل آرڈر کے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ محمد رضوان کا بدستور نمبر چار پر بیٹنگ کرنا، آغا سلمان علی کو نمبر پانچ پر بھیجنا اور سعود شکیل کو فائنل الیون کا حصہ نہ بنانا پاکستان کو آگے جاکر مہنگا پڑسکتا ہے۔

امکان ہے کہ بھارت کے خلاف میچ میں اسپنرز کے سامنے ناکام ہونے والے آغا سلمان کی جگہ اسپن بالنگ کو بہتر کھیلنے والے سعود شکیل ٹیم کا حصہ ہوں گے ۔

بھارتی ٹیم کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اسکواڈ میں کم بیک کرنے والے کے ایل راہل فٹنس مسائل سے دوچار ہوئے، ان کی غیر موجودگی میں اشن کشن مڈل آرڈر کا حصہ ہوں گے جب کہ ان کا ساتھ ایک اور کم بیک کرنے والے بلے باز شریاس ائیر دیں گے۔

بھارتی ٹیم مینجمنٹ کو مڈل آرڈر بلے باز سوریا کمار یادیو سے اچھی کارکردگی کی توقع ہوگی لیکن وہ ون ڈے کرکٹ میں اس فارم کا مظاہرہ نہیں کرسکے جس کی وجہ سے وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں جانے جاتےہیں۔اب تک 26 ون ڈے میچز میں وہ صرف دو نصف سینچریاں ہی اسکور کرسکے ہیں جب کہ ان کی اوسط بھی 24 اعشاریہ تین تین ہے۔

کے ایل راہل کی غیر موجودگی میں بھارت نہ صرف ایک تجربہ کار بلے باز سے محروم ہوگا بلکہ اپنے فرسٹ چوائس وکٹ کیپر سے بھی، جس سےٹیم کمبی نیشن پر فرق پڑسکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے محمد رضوان وکٹوں کے عقب میں ایکشن میں نظر آئیں گے اور ان کے متبادل کے طور پر محمد حارث اسکواڈ میں موجود ہیں جو بیٹنگ اور کیپنگ دونوں میں بیک وقت اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

آل راؤنڈرز اور اسپن ڈپارٹمنٹ

ایک شعبہ جس میں بھارت پاکستان سے بہتر رہا ہے وہ آل راؤنڈرز ڈیپارٹمنٹ ہے۔ پاکستان کے اسکواڈ میں سوائے شاداب خان اور فہیم اشرف کے کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جو اپنی بیٹنگ، بالنگ اور فیلڈنگ سے میچ کا نقشہ بدل دے۔ البتہ بھارت کے پاس ایسے کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے۔

بائیں ہاتھ سے اسپن کرنے والے رویندرا جڈیجا بائیں ہاتھ سے ہی نچلے نمبروں پر آکر رنز بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ بھارتی ٹی ٹوئنٹی کے قائد ہاردیک پانڈیا کا شمار بھی اس وقت دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں چار نصف سینچریاں بنانے والے شرادل ٹھاکر بھی آخری اوورز میں رنز بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں، جب کہ اپنی میڈیم پیس گیندوں سے وہ مخالف بلے باز وں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آئی سی سی کی آل راؤنڈرز کی رینکنگ میں ٹاپ ٹین میں نہ تو کوئی پاکستانی موجود ہے، نہ بھارتی کھلاڑی۔ شاداب خان 211 پوائنٹس کی وجہ سے گیارہویں اور ہاردیک پانڈیا 210 پوائنٹس کے ساتھ بارہویں پوزیشن پر ہیں اور اس ایونٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر ٹاپ ٹین میں جگہ بناسکتے ہیں۔

اگر اسپنرز کی بات کی جائے تو پاکستان کا پلڑا یہاں بھاری ہے۔ پاکستان کے پاس اگر فائنل الیون میں شاداب خان اور محمد نواز ہیں تو افتخار احمد اور آغا سلمان آف اسپن اور سعود شکیل لیفٹ آرم اسپن کرکے انہیں سپورٹ کرسکتے ہیں۔

ادھر بھارت کی ٹیم کو آف اسپن آر ایشون کی کمی ضرور محسوس ہوگی جن کا ریکارڈ ایشین وکٹوں پر دوسروں سے کافی بہتر ہے۔ اسکواڈ کا اعلان کرتے ہوئے بھی بھارتی سلیکٹرز کو اسپنرز کے معاملے میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

فاسٹ بالنگ اٹیک میں پاکستان کو بھارت پر سبقت

تیز گیند بازی کے شعبے میں پاکستان ہمیشہ ہی بھارت سے آگے رہا ہے۔ مکمل فٹ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کے ساتھ گرین شرٹس میدان میں اتریں گے، جب کہ انہیں سپورٹ کرنے کے لیے حارث روؤف بھی فائنل الیون کا حصہ ہوں گے۔

افغانستان کے خلاف گزشتہ ہفتے ختم ہونے والی ون ڈے سیریز میں ان بالرز نے شاندار کارکردگی دکھا کر فارم میں ہونے کا ثبوت دیا تھا، ایسے میں اگر بھارتی پیسرز پر نظر ڈالی جائے تو اس میں نام تو بڑے ہیں، لیکن وہ حال ہی میں انجری مسائل سے گزر کر ٹیم میں واپس آئے ہیں۔

جسپرت بمراہ نے اس سال صرف ایک سیریز میں اپنے ملک کی نمائندگی کی ہے جب کہ محمد شامی اور محمد سراج نے مارچ میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد سے کوئی ون ڈے میچ نہیں کھیلا۔

سلیکٹرز نے ان تینوں بالرز کے سری لنکن وکٹوں پر تجربے کو مدنظر رکھ کر ہی سلیکٹ کیا ہوگا ، تاہم ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے سال میں ان تجربات پر سلیکشن کمیٹی پر تنقید بھی ہوئی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں پاکستان اور بھارت کا ایک ایک فاسٹ بالر ہی ہے۔ بھارت کے محمد سراج 670 پوائنٹس کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر ہیں جب کہ پاکستان کے شاہین شاہ آفریدی کا 630 پوائنٹس کی وجہ سے نواں نمبر ہے۔

عمیر علوی وائس آف امریکا

About the author

ceditor