اسپورٹس

کرکٹ ورلڈکپ: ٹائٹل کے حصول کے لیے ٹیمیں کتنی تیار ہیں؟

Written by ceditor

کراچی — تیرہویں کرکٹ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ جمعرات کو دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور گزشتہ ایڈیشن کی رنرزاپ ٹیم نیوزی لینڈ کے درمیان بھارت کے شہر احمد آباد میں کھیلا جائے گا۔

اس ایونٹ کا فارمیٹ 1992 میں ہونے والے پانچویں ورلڈ کپ سے کافی ملتا جلتا ہے ۔ اُس وقت ایونٹ میں شامل نو ٹیموں نے آپس میں ایک ایک میچ کھیلا تھا اور سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والی چار ٹیمیں ہی ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنا پائیں تھیں۔اس بار بھی ایونٹ میں شریک دس کی دس ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گی اور نو نو میچوں کے بعد سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیموں کا قرعہ پوائنٹس ٹیبل پر موجود ابتدائی چار ٹیموں کے نام ہی نکلے گا۔

دنیا بھر سے دس بہترین ٹیمیں 19 نومبر تک جاری رہنے والے ایونٹ کے لیے بھرپور تیار ہیں، کسی ٹیم کے پاس اسپن بالرز کا ذخیرہ ہے تو کوئی ٹیم اسٹار بلے بازوں سے بھری پڑی ہے۔

سابق کرکٹرز اور مبصرین کی رائے میں میزبان بھارت، پانچ مرتبہ کی چیمپئن آسٹریلیا، گزشتہ ایونٹ کی فائنلسٹ نیوزی لینڈ اور دفاعی چیمپئن انگلینڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔

ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لیے کس ٹیم کا پلڑا بھاری ہے اور کس کے پاس ایونٹ میں سرپرائز دینے کے ہتھیار موجود ہیں۔ یہاں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔انگلینڈ ( دفاعی چیمپئن)

جوس بٹلر کی قیادت میں انگلش ٹیم کو ایونٹ کی سب سے مضبوط ٹیم قرار دیا جا رہا ہے۔ ورلڈ کپ ٹائٹل کا دفاع کرنے والی انگلش ٹیم کے پاس لمبی اننگز کھیلنے والے بلے باز بھی ہیں اور تیز بالرز بھی اور اسے بھارت میں کھیلنے کا تجربہ بھی زیادہ ہے۔

آل راؤنڈر بین اسٹوکس کی واپسی سے انگلینڈ کی ٹیم کا پلڑا دوسروں سے بھاری اس لیے ہے کیوں کہ چار سال پہلے انہوں نے تن تنہا ہی انگلینڈ کو فائنل جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

نوجوان ہیری بروک کی اسکواڈ میں آخری موقع پر انٹری اور جونی بیئر سٹو کا فارم میں ہونا بھی ٹیم کے لیے خوش آئند ہے جسے جو روٹ اور ڈیوڈ ملان جیسے بلے بازوں کی بھی خدمات حاصل ہوں گی۔

لیگ اسپنر عادل رشید اور آل راؤنڈر معین علی اسپن کا شعبہ سنبھالیں گے جب کہ لیئم لیون اسٹون انہیں سپورٹ کریں گے۔

انگلینڈ کے پاس مارک وڈ جیسا تیز گیند باز بھی ہے اور میڈیم پیسرز کرس ووکس اور سیم کرن بھی جنہیں اگر پچ سے مدد مل گئی تو وہ مخالف ٹیم کو سرپرائز دے سکتے ہیں۔

2۔ نیوزی لینڈ ( 2019 کی رنرز اپ)

گزشتہ ورلڈ کپ کی رنرز اپ ٹیم نیوزی لینڈ ایونٹ کی وہ واحد ٹیم ہے جس نے چار سال میں کپتان نہیں بدلا۔ کین ولیمسن گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی بلیک کیپس کے قائد تھے اور اس ایڈیشن میں بھی۔

رواں سال انڈین پریمئیر لیگ کے دوران زخمی ہوجانے والے بلے باز کی غیر موجودگی میں ٹام لیتھم نے قیادت کے فرائض انجام دیے اور اگر کین ولیمسن کسی میچ میں نہیں کھیلے تو ان کی جگہ قیادت لیتھم ہی کریں گے۔

کیوی ٹیم کے پاس بیٹنگ اور بالنگ دونوں شعبوں میں عمدہ کھلاڑی موجود ہیں جو بھارتی پچز پر کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

ڈیون کونوے اور گلین فلپس جیسے بلے بازوں کا ساتھ دینے کے لیے مارک چیپمین اور ڈیرل مچل بھی اسکواڈ میں ہیں جب کہ رچن رویندرا کی پاکستان کے خلاف وارم اپ میچ میں شاندار کارکردگی انہیں بھی ٹاپ آرڈر کے لیے ایک آپشن بناتی ہے۔

بائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے رچن رویندرا بالنگ میں بھی ٹیم کے کام آسکتے ہیں جہاں پہلے ہی سے لیگ اسپنر ایش سودھی اور لیفٹ آرم اسپنر مچل سینٹنر موجود ہیں۔

ٹیم کا پیس اٹیک بھی کسی سے کم نہیں۔ اگر تجربہ کار ٹم ساؤتھی انجری سے مکمل صحت یاب نہ بھی ہوئے تو ٹرینٹ بولٹ اور میٹ ہنری دوسری ٹیموں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے کافی ہوں گے۔

3۔بھارت ( میزبان)

زیادہ تر ماہرین کی رائے میں بھارتی ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کے لیے سب سے زیادہ فیورٹ ہے۔ اس وقت بھارتی ٹیم آئی سی سی کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے اور اسے ایونٹ میں مقامی کنڈینشز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

بھارت نے 2011 میں ایم ایس دھونی کی قیادت میں دوسری بار ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔

بھارت کے پاس ماضی کے مقابلے میں اس بار اچھا بالنگ اٹیک بھی ہے، اور بیٹنگ لائن اپ بھی۔ وراٹ کوہلی اور روہت شرما کا تجربہ اگر یہاں کام آئے تو شبمن گل ، سوریاکمار یادیواور کے ایل راہل کی جارح مزاجی بھی کم نہیں ہوگی۔

یہی نہیں لیفٹ آرم اسپنر کلدیپ یادیوایشیا کپ میں بلے بازوں کو پریشان کرکے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی پہلے ہی بچا چکے ہیں۔ تجربہ کار آف اسپنر رویچندرن ایشون کی واپسی سے اسپن اٹیک مزید مضبوط ہوگا جس میں پہلے سے ہی رویندرا جڈیجا موجود ہیں۔

بھارت کی اس ایونٹ میں اچھی کارکردگی کا دارومدار اس کے پیس اٹیک پر بھی ہوگا۔ ایشیا کپ کے فائنل میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے محمد سراج کا ساتھ دیں گے مکمل فٹ جسپرت بمراہ، محمد شامی، آل راؤنڈرز ہاردیک پانڈیا اور شرادل ٹھاکر۔

4۔پاکستان

ایشیا کپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے وارم اپ میچوں میں بھی اچھی کاررکردگی نہیں دکھائی لیکن اس کے باوجود اس کے مداح بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم کو ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔

فاسٹ بالر نسیم شاہ کی انجری کی وجہ سے گرین شرٹس کا پیس اٹیک کمزور لگ رہا ہے جس کے خلاف وارم اپ میچوں میں نیوزی لینڈ نے 345 رنز بنائے اور آسٹریلیا نے 351۔

نہ تو ٹاپ آرڈر میں امام الحق کا بلا رنز اگل رہا ہے نہ ہی فخر زمان اسکور کرپارہے ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان اور کپتان بابر اعظم کے ساتھ ساتھ اگر کسی بلے باز نے جارح مزاجی کا ثبوت دیا تو وہ سعود شکیل ہیں لیکن وہ فائنل الیون میں کم ہی شامل کیے جاتے ہیں۔

افتخار احمد کا فارم میں ہونا ٹیم کے لیے اچھا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نمبر چار پر بیٹنگ کریں، نائب کپتان شاداب خان، فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کا آؤٹ آف فارم ہونا مینجمنٹ کے لیے درد سر سے کم نہیں۔

ایسے میں ایشیا کپ کے دوران ڈیبیو کرنے والے زمان خان کی جگہ اسکواڈ میں حسن علی کی واپسی پر بھی کئی سوالات اٹھے، لیکن اگر یہ کھلاڑی میچ کے دن چل گئے تو انہیں روکنا مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

5۔ آسٹریلیا

اس وقت آئی سی سی کی رینکنگ میں نمبر تین پر موجود آسٹریلیا کا برصغیر میں ہونے والے ورلڈ کپ ایونٹس میں ریکارڈ بہت اچھا ہے ۔ 1987 کا ورلڈ کپ انہوں نے اسی سرزمین پر جیتا تھا جب کہ 1996 کے میگا ایونٹ میں آسٹریلیا نے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔

گوکہ ایونٹ سے پہلے ہونے والی سیریز میں آسٹریلوی ٹیم کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی لیکن اگر ٹیم کے پاس اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر جیسے تجربہ کار کھلاڑی ہوں، مچل اسٹارک جیسا پیسر اور پیٹ کمنز جیسا جارح مزاج قائد، تو انہیں شکست دینا مشکل ہوجاتا ہے۔

پانچ بار عالمی چیمپئن بننے والی ٹیم کے پاس آل راؤنڈرز کی بھی بھرمار ہے جو اسکواڈ میں اسپنرز کی کمی کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ گلین میکسویل کے فارم میں ہونے سے آسٹریلوی ٹیم کو فائدہ ہوگا، اسی طرح مچل مارش کی حالیہ عمدہ کارکردگی سے بھی حریف ٹیمیں پریشانی میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔

6۔جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ کی ٹیم نے حال ہی میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز جیتی تھی جس کے بعد سےکھلاڑیوں کا مورال بلند ہے، لیکن سیریز کے دوران انجرڈ ہوجانے والے پیسرز نوکیا اور مگالا کی غیر موجودگی سے پیس اٹیک کمزور ہوگا۔

ان فارم ٹیمبا بووما کی قیادت میں ٹیم کے پاس کوئنٹن ڈی کوک جیسے جارح مزاج وکٹ کیپر بیٹر بھی ہیں۔ڈیوڈ ملر جیسے منجھے ہوئے بلے باز جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

آئی سی سی رینکنگ میں نمبر چار پر موجود ٹیم کے پاس ریزی وین ڈر ڈسن اور ایڈن مارکرم جیسے بلے باز بھی ہیں جو اپنی شاندار فارم کو جاری رکھنے کے لیے پرامید ہیں۔

ماضی کی طرح اس بار بھی جنوبی افریقہ کا اسپن اٹیک مضبوط ہے۔ بھارت کی اسپن فرینڈلی وکٹوں پر اگر کیشو مہاراج اور تبریز شمسی نے فائدہ اٹھا لیا تو پیسرز کگیسو رباڈا، لیزاڈ ولویمز اور پھیہلوکوایو کو سپورٹ مل سکتی ہے۔

7۔سری لنکا

ایشیا کپ کی فائنلسٹ اور بھارتی کنڈیشنز سے ہم آہنگ، آئی سی سی کی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر موجود سری لنکن ٹیم کو ورلڈ کپ میں اہم کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی جو انجری کی وجہ سے اسکواڈ میں جگہ نہ بناسکے۔

ان کھلاڑیوں میں ونیندو ہسارانگا کا نام سرفہرست ہے لیکن ان کے متبادل کھلاڑیوں نے ایشیا کپ کے گروپ میچز میں اچھا کھیل پیش کرکے مداحوں کو ٹیم سے امید لگانے پر مجبور کردیا۔

دسون سناکا کی قیادت میں ٹیم کے پاس کوشال مینڈس اور کوشال پریرا جیسے وکٹ کیپر بلے باز بھی ہیں جن کا بلا رنز اگلتا ہے۔دیموتھ کرونارتنے اور پاتھوم نسانکا جیسے ٹاپ آرڈر بلے باز ہیں جن کی جارح مزاجی سے سب ہی واقف ہیں۔

اگر لیفٹ آرم اسپنر دونیتھ ویلالاگے کے ساتھ ساتھ آف اسپنرز مہیش ٹھیک شانا اور چریتھ اسالانکا کی جوڑی کو بھارتی وکٹوں سے مدد ملی تو سری لنکا کے حریفوں کے لیے ان کے اسپن اٹیک کو کھیلنا مشکل ہوسکتا ہے۔

8۔بنگلہ دیش

اس ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں میں صرف بنگلہ دیش وہ واحد ٹیم ہے جس کے پاس دو ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو میگا ایونٹ میں مسلسل پانچویں بار شرکت کررہے ہیں۔

نمبر آٹھ پر موجود ٹیم کے کپتان شکیب الحسن اور سابق کپتان مشفق الرحیم نے 2007 میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کھیلا تھا اور تب سے لے کر ہر ایونٹ میں شریک ہوئے۔

ایشیا کپ میں تو بنگلہ دیشی ٹیم اچھی کارکردگی نہ دکھاسکی لیکن ورلڈ کپ میں آکر انہیں اپ سیٹ کرنے کی ایک عادت ہے جسے وہ جاری رکھنا چاہیں گے۔

سال 1999 میں پاکستان ، 2007 میں بھارت اور 2019 میں جنوبی افریقہ کو زیر کرنے والی ٹیم کے پاس اس وقت ایسے نوجوان کھلاڑی موجود ہیں جو اسے ایونٹ میں فتوحات دلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

ان کھلاڑیوں میں ٹاپ آرڈر بلے باز نجم الحسن شانٹو اور تنزید حسن کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپر لٹن داس ، فاسٹ بالرز مستفیض الرحمان اور تسکین احمد کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

9۔افغانستان

اس مرتبہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی افغان ٹیم کے پاس بھارت میں کھیلنے کا تجربہ بھی ہے اور تجربہ کار کھلاڑی بھی۔ اس لیے آئی سی سی رینکنگ میں نمبر نو پر موجود ٹیم کے ایک دو میچ سے زائد جیتنے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

حشمت اللہ کی قیادت میں سابق کپتان محمد نبی بھی اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے پرامید ہیں۔ بلے باز رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زدران بھی، جنہوں نے حالیہ عرصے میں ٹاپ آرڈر سنبھالے ہوا ہے۔

یہی نہیں، لیفٹ آرم اسپنر نور احمد، آف اسپنر مجیب الرحمان اور لیگ اسپنر راشد خان بھارت کی اسپین کو سپورٹ کرنے والی وکٹوں پر اچھی کارکردگی دکھا کر مخالف ٹیموں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔

راشد خان کا تجربہ اور بھارت میں ان کی مقبولیت بھی افغانستان ٹیم کے بہت کام آسکتی ہے۔

10۔نیدرلینڈرز

اور آخر میں بات سب سے کم تجربہ رکھنے والی نیدرلینڈز کی جس کی قیادت نوجوان اسکاٹ ایڈورڈذ کررہے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انگلینڈ جیسی ٹیم کو اپ سیٹ شکست دینے والی ڈچ ٹیم کے پاس کولن ایکرمین اور وین ڈر مروے جیسے تجربے کار کھلاڑی بھی ہیں اور وکرم جیت سنگھ اور شیراز احمد جیسے ابھرتے ہوئے پلئیر بھی۔

ٹاپ فور میں جگہ بنانا تو فی الحال آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں نمبر چودہ پر موجود اس ٹیم کے لیے مشکل لگ رہا ہے لیکن ایک دو بڑی ٹیموں کو اپ سیٹ شکست دے کر نیدرلینڈز کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر تہلکہ مچانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکا

About the author

ceditor