جمعے کو ایونٹ کا فائنل جیتنے کے باوجود مداحوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ آیا اگلے ہفتے شروع ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے کپتان بابر اعظم کی قیادت میں یہ ٹیم موزوں ہے۔
سیریز کے فائنل میں محمد نواز کی بیٹنگ نے جہاں کئی خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے وہیں ٹاپ آرڈر کی پرفارمنس کی بھی قلعی کھل گئی ہے۔
پاکستانی ٹیم کو جہاں مڈل آرڈر میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں ٹاپ آرڈر کا سست انداز میں بیٹنگ کرنا ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔اس سیریز کے دوران مڈل آرڈر میں افتخار احمد نے 65، حیدر علی نے 55، شاداب خان نے 42 اور آصف علی نے 32 رنز اسکور کیے جب کہ نمبر تین کی اہم پوزیشن پر آنے والے شان مسعود کے مجموعی رنز کی تعداد 64 رہی۔
سہ ملکی سیریز میں تمام ٹیموں کے حصے میں چار چار میچز آئے۔ سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں کیویز وکٹ کیپر ڈیون کونوے سب سے آگے تھے۔ انہوں نے پانچ میچز میں 77 اعشاریہ چھ چھ کی اوسط سے 233 رنز بنائے۔
پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان 50 کی اوسط سے 201 رنز بناکر دوسرے نمبر پر رہے جب کہ 48 کی اوسط سے 192 رنز بناکر بابر اعظم کا تیسرا نمبر رہا۔
بالرز کی بات کی جائے تو کیوی بالر مائیکل بریسویل اور ٹم ساؤتھی کی کارکردگی سب سے بہتر رہی۔ دونوں نے پانچ پانچ میچز میں آٹھ آٹھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستانی بالر محمد وسیم جونیئر سات، حارث رؤف اور محمد نواز چھ چھ وکٹوں کے ساتھ بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہے۔
محمد نواز نے صرف بالنگ ہی نہیں، بیٹنگ میں بھی اپنا لوہا منوایا اور فائنل سمیت متعدد میچز میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔انہوں نے سیریز کے دوران تقریباً 160 کے اسٹرائیک ریٹ سے 53 اعشاریہ پانچ کی اوسط سے 107 رنز بنائے۔
سیریز کے دوران انہیں مختلف نمبروں پر کھلانا ان کے کام آیا۔ نائب کپتان شاداب خان سے پہلے بیٹنگ کے لیے آکر انہوں نے فائنل میں صرف 22 گیندوں پر 38 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
بابر اور رضوان رنز بنانے میں کامیاب، مگر اسٹرائیک ریٹ بدستورکم
پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان دونوں اس سیریز کے ٹاپ تین اسکوررز میں تو شامل تھےاور دونوں ہی بلے باز اس وقت آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پانچ بہترین بیٹرز میں شامل ہیں۔ لیکن شائقین کرکٹ ان کی ٹاپ آرڈر میں سست بلے بازی سے کافی پریشان ہیں۔
سہ ملکی سیریز میں بابر اعظم 14 گیندوں پر 15رنز بناسکے جب کہ محمد رضوان نے 29 گیندوں کا سامنا کرکے صرف 34 رنز کی اننگز کھیلی۔ اس سست بیٹنگ کے بعد ون ڈاؤن پوزیشن پر آنے والے شان مسعود بھی دباؤ کا شکار رہے۔ اس طرح 164 رنز کے تعاقب میں پاکستان ٹیم دس اوور کے اختتام پر صرف 64 رنز ہی بناسکی۔
اگر مڈل آرڈر میں محمد نواز، حیدر علی اور افتخار احمد جارح مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 150 سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے بلے بازی نہ کرتے تو شاید پاکستان کی جگہ نیوزی لینڈ کے ہاتھ میں ٹرافی ہوتی۔
Pakistan top 3 combined today:
— Saj Sadiq (@SajSadiqCricket) October 14, 2022
Balls faced 64
Runs scored 68#PAKvNZ #Cricket
سیریز کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے دونوں اوپنرز نے نیوزی لینڈ کے نسبتاً چھوٹے گراؤند میں مجموعی طور پر صرف دو چھکے مارے اور یہ دونوں محمد رضوان کے بلے سے لگے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ کے فن ایلن نے سیریز کے دوران نو اور دیون کونوے نے چھ چھکے مارے۔
کونوے کا اسٹرائیک ریٹ تو کم تھا لیکن ان کی اوسط 77 اعشاریہ چھ چھ تھی۔ فن ایلن کی اوسط صرف 27 رہی لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ 145 کے لگ بھگ تھا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ آسٹریلیا کی سرزمین پر 16 اکتوبر سے سجے گا اور پہلے مرحلے میں آٹھ ٹیمیں گروپ میچز کھیلیں گی جن میں سے چار فاتح ٹیم سپر 12 مرحلے کے لیے کوالی فائی کر جائیں گے۔
سپر 12 مرحلے کا پہلا میچ میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان 22 اکتوبر کو ہو گا۔
سپر 12 مرحلے سے قبل پاکستان ٹیم کو 17 اور 19 اکتوبر کو برسبین میں انگلینڈ اور افغانستان کے خلاف وارم اپ میچز کھیلنا ہیں جو ٹیم کے فائنل کمبی نیشن کے لیے ہم ہوں گے۔
سہ ملکی سیریز میں اچھی کارکردگی سے پاکستان ٹیم کے حوصلے تو بلند ہوں گے لیکن آسٹریلیا میں بڑے گراؤنڈز اور تیز وکٹوں کے لیے گرین شرٹس کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
پاکستان ٹیم مینجمنٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی محمد رضوان اور بابر اعظم کو بطور اوپننگ جوڑی کھلانے کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ ون ڈاؤن پوزیشن پر ٹیم کو ممکنہ طور پر فخر زمان کی خدمات بھی حاصل ہو جائے گی جو انجری کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہیں تھے۔
پاکستانی ٹیم کے پاس اس وقت تک فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی بھی دستیاب ہوں گے۔