شوبز

نوجوان اداکاروں سے بڑی عمر کے کردار کرانا سینئرز کی حق تلفی ہے: نعمان اعجاز

Written by Omair Alavi

نعمان اعجاز کے بقول، "ہر اداکار پیسے کے لیے کام کرتا ہے، فن کی خدمت کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔پرائیوٹ پروڈیوسرز کو چاہیے کہ فن کار کو اس کے ٹیلنٹ کے حساب سے وقت پر پیسے دیں ورنہ اداکار اچھا اور معیاری کام نہیں کرسکےگا۔”

کراچی — 

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری پر تین دہائیوں سے راج کرنے والے اداکار نعمان اعجاز سال 2021 میں ‘رقیب سے’، ‘دل نا امید تو نہیں’ ‘دوبارہ’ اور ‘پری زاد’ جیسے ہٹ ڈراموں میں نظر آئے ہیں اور ان تمام ڈراموں میں ان کے ہر کردار کو پسند بھی کیا گیا۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ نعمان اعجاز نے اداکاری کی دنیا میں قدم کیسے رکھا اور وہ اداکاری سے قبل کس شعبے میں طبع آزمائی کر رہے تھے؟

وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نعمان اعجاز نے بتایا کہ اداکاری سے قبل وہ وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کے بقول اگر ان کے مالی حالات اداکاری کے لیے مجبور نہ کرتے تو شاید وہ آج وکیل ہی ہوتے۔

نعمان اعجاز نے بتایا کہ ابتدا میں انہوں نے سوچا کہ وکالت پڑھی ہے تو اس شعبے میں مستقبل کو تلاش کرنا ہے لیکن مالی حالات کی وجہ سے پیسے کمانے کے لیے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی۔ لیکن وکالت میں پریکٹس کے دوران ایک دو ایسے مواقع ملے جس کے بعد صرف اداکاری کرنے کا ہی فیصلہ کیا۔”

نعمان سجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی کا راز ان کے اصول ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ پروفیشنل انداز میں کام کرتے ہیں۔

فلموں کے ذریعے اداکاری کی دنیا میں قدم

اسی کی دہائی میں ٹیلی وژن پر کام کرنے سے قبل نعمان اعجاز نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا اور ان کی تمام سات فلمیں باکس آفس پر ناکام رہیں۔

اداکار نے بتایا کہ اپنی پہلی ہی فلم کے بعد انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ فلم کے لیے نہیں بنے اور وہ فلمی دنیا کے لوگوں میں گھل مل نہیں سکتے۔

نعمان اعجاز کے مطابق جب انہیں شوٹ پر جانا ہوتا تھا تو ان پر عجیب سی پریشانی طاری ہوجاتی تھی اور وہ اس وقت یہی دعا کرتے تھے کے ان کی فلمیں نہ چلیں۔

وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی ساتوں فلمیں فلاپ ہوگئیں جس کے بعد وہ ٹیلی وژن پر آئے۔

اداکار کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا کام بہت ایمان داری اور روحانیت والاہے اور وہ با وضو کام پر جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کام روحانیت والا اس لیے ہے کیوں کہ آپ کو اپنی ذات بھلا کر کسی دوسری ذات کو اپنا کر اس سے کردار بنانا پڑتا ہے۔

سن 1991 میں نعمان اعجاز نے پہلے پرائیوٹ ٹی وی چینل ‘شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک’ (ایس ٹی این) کی پہلی پرائیوٹ پروڈکشن ‘دوریاں’ میں کام کیا تھا جسے اداکار عابد علی نے پروڈیوس کیا تھا۔

یہ وہی ڈرامہ تھا جس کے بعد پاکستان میں پرائیوٹ پروڈکشن کا سلسلہ شروع ہوا۔نعمان اعجاز کے مطابق پرائیوٹ سیکٹر نے سرکاری ٹی وی چینل کوتو پیچھے چھوڑ دیا لیکن بدقسمتی سے یہ چینلز خود بھی آگے نہ جاسکے۔

ان کے مطابق جب انہوں نے ‘دوریاں’ میں کام کیا تھا تو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ پی ٹی وی کو پیچھے چھوڑ دے گا لیکن حکام نے جس انداز سے پی ٹی وی کو استعمال کیا اس نے پرائیوٹ سیکٹر کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔

نعمان اعجاز کو ایک شکایت ہے کہ پاکستان میں نہ جانے اداکاری کو آسان کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے بقول یہ ایک سوچ بچار والاکٹھن کام ہےجس میں اداکار کو ایک کردار بننا پڑتا ہے اور اسے خود کو وہاں لے جانا ہوتا ہے جہاں شاید وہ خود بھی نہ گیا ہو۔

نعمان اعجاز کے بقول، "ہر اداکار پیسے کے لیے کام کرتا ہے، فن کی خدمت کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔پرائیوٹ پروڈیوسرز کو چاہیے کہ فن کار کو اس کے ٹیلنٹ کے حساب سے وقت پر پیسے دیں ورنہ اداکار اچھا اور معیاری کام نہیں کرسکےگا۔”

‘مشکل کام کا دور چلا گیا، اب تو سب آسان ہو گیا ہے’

‘رام چند پاکستانی’، ‘ورثہ’ اور ‘جیکسن ہائٹس ‘ جیسے انٹرنیشنل پراجیکٹس میں کام کرنے والے نعمان اعجاز کا کہنا ہےکہ پاکستان کو اگر عالمی سطح پر آگے بڑھنا ہے تو ہنگامی بنیاد پر اقدامات کرنا پڑیں گے۔

ان کے مطابق عالمی سطح پر پہنچنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی نیت صاف کرنا پڑے گی اور جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اسے بھلا کر نئے سرے سے دوبارہ سیکھنا ہوگا۔

نعمان اعجاز کا کہنا ہے کہ اب وہ دور چلا گیا جب مشکل کام کرکے انسان خود کو منواتا تھا کیوں کہ اب سب کچھ آسان ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے پاس ویب کے لیے کام کرنے والے لوگ نہیں اور اسی لیے پاکستان ویب کی دوڑ میں پیچھے ہے۔

منفی کردار میں ہی کیوں نظر آتے ہیں؟

نعمان اعجاز اپنے حالیہ ڈراموں میں یا تو سپورٹنگ رول یا پھر ولن کے کردار میں نظر آئے۔

‘ڈر سی جاتی ہے صلہ’ میں جوئی ماما کا کردار ہو، یا ‘ڈنک’ میں پروفیسر ہمایوں کا۔ ‘دوبارہ ‘ میں بڑی عمر کے شوہر کی بات کی جائے یا ‘پری زاد’ کے محسن بہروز کریم کی۔ ان کے ہر کردار میں مثبت کے مقابلے میں منفی پہلو زیادہ نمایاں رہا۔

اس بارے میں نعمان اعجاز کہتے ہیں انہوں نے ہیرو کے کردار بہت کرلیے۔ اب وہ اپنی جان دار اداکاری سے کردار کو ہی ہیرو بنا دیتے ہیں۔ان کے نزدیک ہیرو وہی ہوتا ہے جس کی کوئی بات دل پر اثر کرجائے، ایسے ہیرو کا کیا فائدہ جو 25 قسطوں تک صرف کھڑا رہے اور کچھ بھی نہ کرسکے۔

‘نوجوان اداکاروں سے بڑی عمر کے کردار کرانا زیادتی ہے’

نعمان اعجاز نے ان پروڈیوسرز پر تنقید کی جو نوجوان اداکاروں سے بڑی عمر کے کردار کرواتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ سینئر اداکاروں کی حق تلفی ہے جو ان کردار کے اہل ہوتے ہیں۔

ان کے بقول، "ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ جس عمر کا کردار ہو اس کے لیے اس عمر کے اداکار کو لینے کے بجائے ایک نوجوان اداکار کو لے کر اس کے بال سفید کردیے جائیں۔ یہ نہ صرف اس نوجوان کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ یہ پختہ، سمجھدار اور منجھے ہوئے اداکاروں کی بھی حق تلفی ہے۔”

ڈرامہ انڈسٹری میں سوشل میڈیا کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

نعمان کے مطابق ایک اداکار کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی ‘آبزرویشن’ ہے۔ اگر وہ سارا وقت فون کو ہی دیکھتا رہے اور ایک کردار کو تخلیق کرنے کے لیے لوگوں کی عادات کو اپنے اندر جذب نہ کرے تو ایسے سوشل میڈیا کا کوئی فائدہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کامیابی انسٹاگرام میں نہیں بلکہ کامیابی اس ایک لازوال کردار میں ہے جو لوگوں کو یاد رہ جائے۔

نعمان کے خیال میں کام کے بجائے شہرت پر توجہ دینا درست نہیں۔ مشہور ہونے کے اور بھی بہت سارے راستے ہیں، اگر وہ خودبھی فالوورز کے پیچھے چلے گئے تو یہ ان کے کام سے بے ایمانی ہو گی۔

‘میرا کچھ نہیں، سب کچھ دوسروں کا دیا ہوا ہے’

نعمان اعجاز نے پاکستان کے نامور اور سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کیا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔معروف اداکار کا ماننا ہے کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اس میں ان کے سینئرز کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیوں کہ ان کے بقول، "میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سینئرز کا دیا ہوا یا ان سے لیا گیا ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ اگر آج وہ ایک روپیہ ہیں تو اس میں دس دس پیسے قوی خان، شفیع محمد، فردوس جمال، خیام سرحدی ، فاروق ضمیر ، طلعت حسین ، مسعود اختر اور عابد علی کے ہیں۔ یہ سب ان کے لیے یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سن 2021 میں نعمان اعجاز کے بیٹے زاویار نعمان نے بھی شوبز انڈسٹری میں قدم رکھا ہے جو باپ کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں۔ لیکن والد نعمان اعجاز سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے بیٹے نے اچھا کام کیا تو اسی صورت وہ انڈسٹری میں رہ سکتا ہے۔

نعمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بچوں کو فلم یا ڈرامہ انڈسٹری کی طرف آنے کا نہیں کہا اگر پھر بھی کوئی میرے بیٹے کی شوبز میں آمد کو اقربا پروری کہتا ہے تو کہے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔