اسپورٹس

وہ کرکٹرز جنہوں نے ریٹائرمنٹ سے ‘یوٹرن’ لیا

Written by ceditor

کراچی — 

بنگلادیشی کرکٹر تمیم اقبال کا شمار اپنے ملک کے نامور کھلاڑیوں میں ہوتا ہے اور ورلڈ کپ سے قبل ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے نہ صرف ان کے مداح مایوس ہوئے تھے بلکہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

جمعرات کو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے تمیم اقبال نے ایک ہی دن بعد بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے ملاقات کے بعد اپنا فیصلہ واپس لیا اور اب وہ رواں سال ہونے والے ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں ٹیم کی نمائندگی کریں گے۔

تمیم اقبال جو اب تک اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیشی ٹیم کی قیادت کررہے تھے، اب چھ ہفتوں کے لیے آرام کریں گے جس کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں میگا ایونٹس میں ٹیم کی قیادت انہی کو سونپی جائے گی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی کھلاڑی نے جذبات میں آکر ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہو اور بعد میں اس فیصلے کو واپس لے لیا ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی اس سے قبل کھیل کو خیرباد کہنے کے باوجود دوبارہ یوٹرن لے کر ٹیم میں واپس آئے۔

ایسے ہی چند کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں، جن میں پاکستان کے متعدد کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، بھارت، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے کئی نامور کھلاڑی شامل ہیں۔

1۔ عمران خان ( پاکستان)

کرکٹ کا چوتھا ورلڈ کپ 1987 پہلی مرتبہ انگلینڈ سے باہر کسی ملک میں کھیلا گیا تھا۔ اس ایونٹ کی میزبانی پاکستان اور بھارت نے کی جس کے سیمی فائنل میں دونوں ہی ٹیموں کو شکست ہوئی لیکن ہوم کراؤڈ کے سامنے اہم میچ میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد کپتان عمران خان نے دلبرداشتہ ہوکر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ۔

تاہم اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کے اصرار پر انہوں نے اگلے سال ویسٹ انڈیز کے دورے پر جانے کی حامی بھری اور دورے پر تین ٹیسٹ میچوں میں 23 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔یہی نہیں، عمران خان کا یہ فیصلہ پاکستان کرکٹ کا سب سے اہم’ یوٹرن’ اس وقت ثابت ہوا جب چار سال بعد وہ پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جتوانے میں کامیاب ہوئے۔

2۔جاوید میانداد ( پاکستان)

سن 1994 میں جب جاوید میانداد کو ناقص فارم کی وجہ سے پاکستان ٹیم سے ڈراپ کیا گیا تو ملک بھر میں کرکٹ بورڈ کے خلاف مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ پاکستان کو لاتعداد میچز میں کامیابی دلوانے والے اسٹار کے مداح تو ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ناراض تھے ہی، ملک کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی ان کی حمایت میں سامنے آگئیں۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے صرف 10 دن بعد ہی 36 سالہ کھلاڑی نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے بعد ٹیم میں واپسی کی اور 1996 میں ورلڈ کپ کھیل کر چھ ورلڈ کپ کھیلنے والے پہلے کھلاڑی بننے کی خواہش کا اظہار کیا جسے کرکٹ حکام نے پورا کیا۔

اپنے آخری ورلڈ کپ میں وہ تین اننگز میں صرف 56 رنز اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے اور بھارت کے خلاف کوارٹر فائنل ان کے کریئر کا آخری میچ ثابت ہوا۔

3۔معین علی ( انگلینڈ)

ایشز سیریز کے تیسرے میچ میں اپنی 200 وکٹیں مکمل کرنے والے معین علی نے کپتان بین اسٹوکس کے بھرپور اصرار پر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے بعد ٹیم میں واپسی کی۔

معین علی نے دو سال قبل دورۂ بھارت کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا جس کے بعد وہ انگلینڈ کی و ن ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی نمائندگی کررہے تھے۔

ایشز سیریز میں انگلش اسکواڈ میں مستند آف اسپنر کی غیرموجودگی کی وجہ سے کپتان بین اسٹوکس نے معین علی کو ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا ۔

4۔ کارل ہوپر (ویسٹ انڈیز)

ریٹائرمنٹ لے کر ٹیم میں واپس آنے والے کرکٹرز میں ویسٹ انڈیز کے کارل ہوپر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ سے صرف تین ہفتے قبل کرکٹ کو خیرباد کہہ کہ اپنے مداحوں کو حیران کردیا تھا۔

بحیثیت ریٹائر ڈ کھلاڑی وہ دو سال تک کرکٹ سے دور رہے۔لیکن 2001 میں وہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں واپس آئے اور بطور کپتان 2003 کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی۔ نہ صرف انہوں نے اپنے کم بیک پر اپنا سوواں ٹیسٹ اور دو سوواں ون ڈے انٹرنیشنل کھیلا بلکہ ان نوجوان کھلاڑیوں کی بھی رہنمائی کی جو ان کی غیر موجودگی میں ٹیم کا حصہ بنے تھے۔

میگا ایونٹ میں ٹیم کی خراب پرفارمنس کے بعد انہوں نے کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا تھا۔

5۔جواگل سری ناتھ ( بھارت)

اس وقت کرکٹ کی دنیا میں جواگل سری ناتھ کو شائقین بطور ایک بااصول میچ ریفری جانتے ہیں لیکن 1992 سے لے کر 1999 کے ورلڈکپ تک وہ بھارت کے مین اسٹرائیک بالر تھے۔

انہوں نے 2002 میں بحیثیت کھلاڑی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا لیکن ان کے سابق کپتان سارو گنگولی انہیں 2003 کے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

نہ صرف انہوں نے اپنے چوتھے اور آخری ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی دکھا کر 11 میچز میں 16 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ، بلکہ بھارت کو فائنل تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا جہاں آسٹریلیا نے یکطرفہ فائنل کے بعد ٹرافی اپنے نام کی۔

6۔شاہد آفریدی (پاکستان)

کرکٹ کی تاریخ میں جب بھی ریٹائرمنٹ کی بات ہوگی تو شاہدآفریدی کا نام سب سے پہلے آئے گا جو ایک نہیں متعدد مرتبہ کھیل کو خیرباد کہہ کر ٹیم میں واپس آئے۔ 2006میں ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہنے والے کھلاڑی نے 2010 میں پاکستان ٹیم کی قیادت سنبھالنے کے لیے ریٹائرمنٹ واپس لی اور پھر ایک ہی میچ کے بعد پھر سے ریٹائر ہوگئے۔

شاہد آفریدی نے ایک سال بعد 2011 کے ورلڈ کپ میں ٹیم کی سیمی فائنل میں شکست کے بعد پھر ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہا لیکن چند ماہ بعد دوبارہ ٹیم میں واپس آگئے۔

سال 2015 میں کرکٹ ورلڈ کپ میں وہ پاکستان ٹیم کا حصہ تھے لیکن وہاں بھی جب ٹیم کو شکست ہوئی تو انہوں نے ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ کر ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل تک خود کو محدود رکھا، جس سے انہوں نے ورلڈ کپ 2016 کے بعد کنارہ کشی اختیار کی۔تاہم جب 2018 میں لارڈز کے مقام پر ویسٹ انذیر اور آئی سی سی ورلڈ الیون کا میچ کھیلا گیا تو انہوں نے اس میں آئی سی سی ورلڈ الیون کی نمائندگی کی۔

7۔محمد یوسف ( پاکستان)

مایہ ناز بلے باز محمد یوسف نے بھی کئی بار انٹرنیشنل کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کی۔ جب 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انہیں منتخب نہیں کیا گیا تو انہوں نے بھارت میں ہونے والی انٹرنیشنل کرکٹ لیگ میں شرکت اختیار کرکے خود پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند کر دیے۔ کیوں کہ اس لیگ کو آئی سی سی نے پہلے ہی باغی لیگ قرار دیا تھا۔

محمد یوسف نے 2009 میں ٹیم میں کم بیک کیا اور 2010 میں قومی ٹیم کے کپتان بن کر آسٹریلیا گئے جہاں ان کی قیادت میں کوئی بھی میچ پاکستان ٹیم نہیں جیت سکی۔ دورے کے بعد جب ان سمیت متعدد کھلاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب تک انہیں منتخب نہیں کیا جاتا وہ ریٹائر رہیں گے۔

جب اسی سال انہیں دورۂ انگلینڈ میں پاکستانی بلے بازوں کی خراب کارکردگی کے بعد انگلینڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انگلینڈ روانہ ہوگئے، لیکن یہ ان کا آخری دورہ ثابت ہوا۔ اسی سال انہوں نے آخری مرتبہ ون ڈے کرکٹ میں بھی گرین شرٹس کی نمائندگی کی۔

8۔کیون پیٹرسن ( انگلینڈ)

کیون پیٹرسن نے سن 2012 میں ٹیسٹ کرکٹ پر توجہ دینے کے لیے وائٹ بال کرکٹ سے کنارہ کشی کا جو فیصلہ کیا اس کی تقلید ان کے بعد بھی کئی نامور کھلاڑیوں نے کی۔ وہ اپنے زمانے کے پہلے کرکٹر تھے جنہوں نے کرکٹ کی زیادتی کی وجہ سے ایک مخصوص فارمیٹ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا جسے کئی ماہرین نے خوش آئند قرار دیا تھا۔

لیکن ان کا اپنے فیصلے پر نہ قائم رہنا اور چند ہی دنوں بعد واپس وائٹ بال ٹیم کا حصہ بننے پر ساتھی کھلاڑیوں نے ان پر کافی تنقید کی تھی جب کہ ان کے مداح بھی ان کے اس یوٹرن سے حیران ہوئے تھے۔

9۔بوبی سمپسن ( آسٹریلیا)

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں آسٹریلیا کی چالیس سے زائد ٹیسٹ میچز میں نمائندگی کرنے والے بوبی سمپسن نے 31 سال کی عمر میں جب کھیل کو خیرباد کہا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں دس سال کے بعد ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔

جب 1977 میں کیری پیکر کے پیسے کے زور پر دنیا کے بہترین کھلاڑیوں نے ٹیسٹ کرکٹ پر ورلڈ سیریز کرکٹ کو فوقیت دی تو آسٹریلیا نے بوبی سمپسن کو 41 سال کی عمر میں کپتان نامزد کرکے ری کال کیا۔

نہ صرف بوبی سمپسن نے بھارت کے خلاف سیریز میں آسٹریلیا کو کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پرتھ کے مقام پر 176 رنز کی اہم اننگز بھی کھیلی۔ 42 سال کی عمر میں ویسٹ انڈیز کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر سینچری اسکور کرکے انہوں نے معمر ترین سینچورین کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor