خبریں

خود کشی سے قبل گرو دت نے آخری کال کسے کی تھی؟

Written by ceditor

کراچی — معروف اداکار و فلم ساز گرو دت کا شمار بھارت کے ان ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جن کی فلموں کو وقت سے آگے کی فلمیں قرار دیا جاتا تھا۔ اس وقت کے ناظرین کو تو ان کی کاوشیں سمجھ نہیں آتی تھیں لیکن بعد میں انہیں کلاسک کا درجہ دیا گیا۔

ان فلموں میں جہاں بطور ہدایت کار و اداکار ‘مسٹر اینڈ مسز 55’، ‘پیاسا ‘ اور ‘کاغذ کے پھول ‘شامل ہیں وہیں بطور اداکار ‘چودہویں کا چاند ‘اور ‘صاحب، بی بی اور غلام ‘ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

نو جولائی 1925 کو چنائی (مدراس) میں پیدا ہونے والے وسنتھ کمار پاڈوکون کو گرو دت کے نام سے شہرت ملے گی لیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صرف 39 سال کی عمر میں وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کردیں گے۔

دس اکتوبر 1964 کو گرو دت بمبئی میں اس کرائے کے گھر میں مردہ پائے گئے جہاں وہ آخری دنوں میں اکیلے مقیم تھے۔

بگڑتی ہوئی ازدواجی زندگی کی وجہ سے یہ ان کی خود کشی کی تیسری کوشش تھی جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق خواب آور گولیوں کو شراب کے ساتھ پینے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی تھی۔

اپنے 20 سالہ فلمی کریئر کا آغاز انہوں نے 1946 میں بطور کوریوگرافر و معاون ہدایت کار کیا تھا لیکن بعد میں فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔ ان کی ہدایات بھی دیں اور کئی فلموں میں بطور اداکار بھی کام کیا۔

ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے زمانے کے فلم سازوں کی طرح فلمیں بنانے کے بجائے مستقبل کو سامنے رکھ کر فلمیں بناتے تھے اور شاید اسی لیے 1950 اور 60 کی دہائی میں بننے والی ان کی فلمیں شائقین کو آج بھی تازہ ہی لگتی ہیں۔

ان کی خودکشی سے نہ صرف بالی وڈ ایک بڑے ہدایت کار سے محروم ہوگیا بلکہ ایک ایسے اداکار کی بھی زندگی ختم ہوگئی جس نے کم کام کیا، لیکن ایسا کیا کہ آج نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کو یاد ہے۔

گرودت کی وحیدہ رحمٰن اور جانی واکر سے پہلی ملاقات

گرودت کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے نئے اداکار متعارف کرائے جنہوں نے آگے جاکر فلم انڈسٹری میں خوب نام کمایا۔ ایسی ہی ایک اداکارہ تھیں وحیدہ رحمان جن سے آگے جاکر ان کا افئیربھی بنایا گیا اور جن کی ان سے قطع تعلقی کو چند افراد گرودت کی خودکشی کی وجہ بھی قرار دیتے ہیں۔

معروف بھارتی صحافی اور ‘گرودت، این انفنشڈ اسٹوری’ کے مصنف یاسر عثمان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ وحیدہ رحمان سے گرودت کی پہلی ملاقات بھارتی شہر حیدرآباد دکن میں ہوئی جہاں اداکارہ اپنی تیلگو فلم ‘روجولو مرائی ‘کی کامیابی کے سلسلے میں موجود تھیں۔ گرودت ایک اور تیلگو فلم ‘مسی اما’ دیکھنے آئے تھے۔ لیکن راستے میں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آجانے کی وجہ سے ان کا دورہ ایک کے بجائے تین دن پر منتقل ہو گیا۔

جو فلم گرودت دیکھنے آئے تھے وہ تو انہیں پسند نہیں آئی البتہ جب انہوں نے ایک ڈسٹری بیوٹر سے میٹنگ کے دوران باہر ہجوم دیکھ کر اس کی وجہ معلوم کی تو انہیں بتایا گیا کہ نوجوان لڑکے جس گاڑی کے گرد جمع ہیں وہ وحیدہ رحمان کی ہے۔

اس کے بعد انہوں نے نہ صرف وحیدہ رحمان کا وہ گانا دیکھا جس میں ڈانس کرکے انہوں نے شہرت پائی تھی بلکہ بعد میں انہیں اپنی بطور فلمساز فلم ‘سی آئی ڈی’ میں بھی ایک معاون کردار کے ذریعے متعارف کر ادیا۔

یہ وحیدہ رحمان ہی تھیں جنہوں نے آگے جاکر گرودت کی دو سب سے نمایاں فلموں پیاسا’ اور ‘کاغذ کے پھول’ میں مرکزی کردار ادا کیا جب کہ ‘صاحب بی بی اور غلام’ میں بھی ان کی گرودت کے مدمقابل اداکاری کو سب نے پسند کیا۔

لیکن کامیڈی اداکار جانی واکر سے ملاقات کا قصہ اس سے مختلف ہے۔ جانی واکر کا اصل نام بدرالدین جمال الدین قاضی تھا جو اپنے خاندان کو سپورٹ کرنے کے لیے مقامی بس سروس میں بطور کنڈکٹر کام کرتے تھے۔ ان کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ سفر کے دوران مسافروں کا دل بہلانے کے لیے انہیں لطیفے سناتے تھے اور اسٹیشنوں کا اعلان بھی مزاحیہ انداز میں کیا کرتے تھے۔

ایک دن اسی بس میں اداکار بلراج ساہنی سوار تھے اور چونکہ وہ اس وقت گرودت کی فلم بازی لکھ رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے بدرالدین کو اگلے دن پروڈیوسر گرودت اور ہیرو دیوآنند کے سامنے ایک شرابی کی اداکاری کرنے کا ٹاسک دیا ۔

بدرالدین نے اگلے ہی دن جاکر سیٹ پر شرابی کی ایسی لاجواب اداکاری کی کہ دیوآنند اور گرودت دونوں بے ساختہ ہنس پڑے اور انہوں نے تقریباً مکمل ہو جانے والی فلم میں بدرالدین کے لیے ایک نیا کردار ڈال دیا۔

یہ گرودت ہی تھے جنہوں نے بدرالدین کا نام جانی واکر تجویز کیا کیوں کہ ایک تو یہ ان کی پسندیدہ وسکی کا نام تھا۔ دوسرا وہ بدرالدین کی شرابی اداکاری سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔

گرودت نے اپنا گھر کس کے کہنے پر زمین بوس کروا دیا تھا؟

‘گرودت، این انفنشڈ اسٹوری’ میں جہاں کئی باتوں کا انکشاف ہوا وہیں مصنف نے یہ بھی بتایا کہ گرودت نے ممبئی کے پوش علاقے پالی ہل میں بڑی محبت سے جو گھر تیار کروایا تھا، اسے اپنی اہلیہ اور معروف گلوکارہ گیتا دت کے کہنے پر بالکل اسی طرح گرا دیا تھا جیسا کہ وہ ان کی فلم کا کوئی سیٹ ہو۔

مصنف نے کتاب میں فلم ‘صاحب، بی بی اور غلام’ کے اسکرپٹ رائٹر بمل مترا کے ایک انٹرویو کا بھی تذکرہ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ جب ممبئی آنے پر انہیں پتا چلا کہ گرودت اپنے گھر کے بجائے کسی کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں تو انہوں نے ان سے 48 پالی ہل جانے کی ضد کی۔

جب وہ دونوں اس خالی پلاٹ پر پہنچے جہاں کبھی ایک خوبصورت گھر ہوا کرتا تھا تو بمل مترا کے سوال پر گرودت نے سارا الزام اپنی اہلیہ پر ڈال دیا جن کو گھر کے ڈرائنگ روم میں رکھے گوتم بدھ کے مجسمے سے مسئلہ تو تھا ہی صحن میں کھڑےدرخت پر ان کے خیال میں آسیب تھے۔

اس موقع پر گرودت نے کہا کہ ‘گھر نہ ہونے کی تکلیف سے گھر ہونے کی تکلیف اور بھیانک ہوتی ہے’ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنی نجی زندگی میں بالکل خوش نہیں تھے۔

گرود ت نے خودکشی سے چند گھنٹوں پہلے کس کو آخری فون کیا تھا اور کیوں؟

یاسر عثمان نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ یہ 10 اکتوبر 1964 کو انتقال کرجانے والے گرودت نے اپنی زندگی کا آخری فون ساتھی ہدایت کار و اداکار راج کپور کو کیا تھا۔ مصنف کے بقول اس فون کال کا مقصد راج کپور کو مدعو کرکے ایک تو اسکرین ایکٹرز گلڈ پر بات کرنا تھی۔ دوسرا گرودت راج کپور کو اپنی فلم ‘کاغذ کے پھول’ دکھا کر ان کی رائے جاننا چاہتے تھے کیوں کہ فلم کے فلاپ ہونے کا دکھ آخر وقت تک ان کے ساتھ تھا۔

چونکہ یہ کال گرودت نے پڑوس کے گھر سے رات ساڑھے بارہ بجے کی تھی ، اس لیے راج کپور نے اس وقت آنے کے بجائے اگلے دن آنے کا وعدہ کیا تھا اور یوں یہ کال ان کی زندگی کی آخری کال ثابت ہوئی۔

اسی کتاب میں درج ہے کہ جب اس فون کال کے بعد گرو دت اپنے کمرے میں سونے کے لیے گئے تو اس وقت ان کی فلم ‘بہاریں پھربھی آئیں گی’ کے اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی ایک ایسے سین پر کام کررہے تھے جس میں فلم کی ہیروئن مالا سنہا تنہائی کی وجہ سے خود کو کمرے میں بند کرلیتی ہے اور پھر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

مصنف کے بقول گرودت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور جب وہ کمرے میں گئے تو اس کے بعد وہاں سے زندہ واپس نہیں آئے۔ ان کی اس فلم کو ان کی موت کے بعد ہدایت کار شہید لطیف نے مکمل کیا جو خود فلم کی ریلیز کے ایک سال بعد انتقال کرگئے تھے۔ فلم میں اداکار دھرمیندر نے وہی مرکزی کردار نبھایا جو گرودت نے اپنے لیے لکھوایا تھا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor