جائزے

مدرز ڈے اسپیشل: ایسے کردار جن سے ماں کی یاد آئے!

Written by Omair Alavi

کراچی — 

یوں تو ماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہر دن کم ہوتا ہے لیکن ہر سال مدرز ڈے کی وجہ سے یہ دن خاص بن جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی مدرز ڈے زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ ایسے میں کچھ ایسی ماؤں کو بھی یاد کیا جانا چاہیے جو ویسے تو صرف ٹی وی پر ہیرو ہیروئن پر پیار نچھاور کرتی ہیں لیکن درحقیقت اپنی جان دار اداکاری سے شائقین کو اپنی ماں (یا ساس) کی یاد دلاتی ہیں۔

بشریٰ انصاری

بشری انصاری کا شمار تمام شعبوں میں کام کرنے والی پاکستانی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں کیریئر کا آغاز کیا۔ گلوکاری کا میدان ہو یا لکھنے کا، سنجیدہ اداکاری ہو یا کامیڈی، بشریٰ نے ہر میدان میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ خوب رنگ جمایا۔ ویسے تو انہوں نے عالم جوانی میں ‘آنگن ٹیڑھا’ میں ادھیڑ عمر جہاں آرا کا کردار ادا کرکے داد سمیٹی تھی، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے وہ ماں کے کردار بخوبی نبھا رہی ہیں۔

نوے کی دہائی میں لانگ پلے ‘نیلی دھوپ’ ہو، ہم ٹی وی کا مشہور ڈرامہ ‘بلقیس کور’ ہو، کچھ عرصہ پہلے مقبول ہونے والا سیریل ‘اڈاری’ ہو یا حال ہی میں ختم ہونے والا ‘دیوارِ شب’، بشری انصاری نے ہر زمانے میں اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔

انہوں نے کچھ فلموں میں بھی ماں کے کردار نبھائے مگر جان دار رول نہ ملنے پر اب انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اس میں بھی ٹی وی ہی کا فائدہ ہے!

اسماء عباس

یوں تو بشریٰ انصاری کی بہن اسماء نے اداکاری کا آغاز ففٹی ففٹی سے کیا تھا لیکن 80 کی دہائی میں ‘دانش’ اور دیگر ڈراموں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے شوبز سے بریک لے لیا۔

اداکاری کے میدان میں ان کی واپسی شاندار انداز میں ہوئی۔ ہم ٹی وی کا مشہور ڈرامہ ‘داستان’ ہو، یا ٹی وی-ون کا ‘گگھی’، اے آر وائی کا مقبول ڈرامہ ‘دل لگی’ ہو یا ہم ٹی وی کا ‘دلدل’، گزشتہ سال کا سب سے بڑا ہٹ ‘رانجھا رانجھا کر دی’ ہو یا پھر ‘خود پرست’، اسماء عباس کی جان دار اداکاری نے ان تمام ڈراموں کو یادگار بنا دیا۔

انہوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی لیکن ٹی وی پر ماں کا رول ہو یا ساس کا، اسماء عباس کی منفرد اداکاری ہر کردار کو یادگار بنا دیتی ہے۔

ان کی بیٹی زارا نور عباس کا شمار آج کل کی ابھرتی ہوئی اداکاراؤں میں ہوتا ہے اور ماں بیٹی کی جوڑی اگلے چند روز میں بشریٰ انصاری کے لکھے ڈرامے ‘زیبائش’ میں نظر آئے گی۔

صبا حمید

80 اور 90 کی دہائی میں اداکارہ صبا حمید نے کئی یادگار ڈراموں میں کام کیا تھا۔ لیکن ایس ٹی این کے ڈرامے ‘ننگے پاؤں’ میں عفت رحیم کی ماں کا کردار ادا کرکے انہوں نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اداکارائیں اپنے کیریئر کو طول دینے کے لیے میچور رولز سے بھاگ رہی تھیں۔ لیکن صبا حمید نے نہ صرف اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتے بلکہ دیگر اداکاراؤں کے لیے بھی ایک مثال قائم کی۔

ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے لکھے گئی ‘فیملی فرنٹ’ میں سنبل کے کردار سے انہوں نے باقاعدہ ماں والے رولز کا آغاز کیا۔ ‘بارات’ سیریز میں رابعہ احمد کے کردار نے انہیں ٹی وی ماؤں کی صفِ اول میں لاکھڑا کیا۔ نہ صرف وہ ‘پیارے افضل’ میں افضل کی ماں تھیں بلکہ ‘من مائل’ میں منو کی والدہ بھی تھیں۔ ‘دل لگی’ میں موحد کی ماں کا جاندار کردار صبا حمید کے سوا کوئی نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ ان کے سامنے حال کی سب سے بڑی ہیروئن مہوش حیات تھیں اور ان کا مقابلہ ماضی کی ہی کوئی منجھی ہوئی اداکارہ کر سکتی تھی۔

آج کل ان کے دو ڈرامے ‘کہیں دیپ جلے’ اور ‘غلطی’ کافی مقبول ہو رہے ہیں جب کہ ان دونوں ڈراموں میں ان کا کردار عوام پسند کر رہے ہیں۔

ثمینہ پیرزادہ

یوں تو ثمینہ پیرزادہ 1990 کی فلم ‘بلندی’ میں اداکار شان کی ماں کا کردار ادا کر چکی تھیں لیکن ٹی وی پر ماں کے رولز انہیں تھوڑی دیرسے ملے۔ دیر سے آنے کے باوجود بھی انہوں نے جس ڈرامے میں بھی ماں کا کردار نبھایا، خوب نبھایا۔

‘وفا کے موسم’ میں ندا پاشا کی ماں کا کردار زیادہ لوگوں کو یاد نہیں لیکن ‘میری ذات ذرہ بے نشاں’ آج بھی سب کے دل و دماغ میں تازہ ہے۔

ان کا ادا کیا ہوا ‘تائی اماں’ کا کردار آج بھی شائقین کا خون کھولا دیتا ہے۔ ‘پانی جیسا پیار’ میں ان کا مامتا سے بھرا رول کافی پسند کیا گیا۔

درِ شہوار ہو یا شہرِ ذات، زندگی گلزار ہو یا رسمِ دنیا، ثمینہ پیرزادہ کا ہر کردار دوسرے سے مختلف رہا اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ اور منفرد ماں کے کردار انہی کے حصے میں آئے۔

مرینہ خان

حسینہ معین کے ڈرامہ سیریل ‘تنہائیاں’ سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی مرینہ خان نے ‘دھوپ کنارے’ ، ‘احساس’ ، ‘کہر’ ، ‘نجات’ اور ‘پڑوسی’ میں اداکاری کرکے اپنا لوہا منوایا۔

‘وفا کے موسم’ میں ندا پاشا کی خالہ کے کردار سے ان کی میچور ایکٹنگ کے سفر کا آغاز ہوا۔ ڈرامہ سیریل ‘نور العین’ میں خرد کی ماں کا کردار تو سب کو یاد ہے۔ لیکن 80 اور 90 کی دہائی میں یہ بتایا جاتا کہ 20 سال بعد مرینہ خان ‘قید’ میں اشعر اور ‘منافق’ میں ارمان کی والدہ بن کر ہیروئن کی زندگی اجیرن کریں گی تو شاید کوئی یقین نہیں کرتا۔

ڈرامہ ‘بندش’ میں بھی ان کے کردار کو سب نے سراہا۔ جس میں وہ ایک ایسی ماں کا کردار ادا کرتی ہیں جو اپنا گھر بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ ہم ٹی وی کے ڈرامے ‘دلربا’ میں ہانیہ عامر کی سخت والدہ کے کردار میں نظر آ رہی ہیں۔

ثانیہ سعید

ڈرامہ سیریل ‘آہٹ’ 1999 میں پیش کیا گیا۔ جس میں ماں کا کردار ادا کرنے والی ثانیہ سعید کی عمر اس وقت 20 کے لگ بھگ تھی۔ لیکن اچھی اداکارہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف انہوں نے لوگوں کو اداکاری سے متاثر کیا بلکہ صفِ اول کی اداکارہ بننے کی طرف ایک قدم بڑھایا۔

ثانیہ سعید کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر کردار لکھا جاتا ہے۔ ‘ستارہ’ اور ‘مہر النسا’ میں انہوں نے ماں کا کردار تو ادا نہیں کیا تھا مگر ایک میچور عورت ضرور بنی تھیں۔

‘خاموشیاں’ میں بھی انہوں نے ایک نوجوان ماں کا کردار نبھایا تھا لیکن ان کی اصل مامتا سے بھری اداکاری کا آغاز ‘اسیر زادی’ سے ہوا۔ جہاں انہوں نے زینت بیگم کا کردار ادا کیا۔

پھر کیا ‘سنگِ مرمر’ میں شمیم کا رول، ‘سمّی’ میں سالار کی والدہ چاندنی اور ‘مہر پوش’ میں مہرو کی ماں کا کردار، ثانیہ سعید نے ہر رول بخوبی نبھایا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں شامل 10 اداکاراؤں میں نہ صرف وہ سب سے کم عمر ہیں بلکہ ابھی تو انہوں نے زندگی کی 50 بہاریں بھی نہیں دیکھیں۔

عتیقہ اوڈھو

90کی دہائی کی بلاشبہ سب سے خوبصورت اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے بہت جلد میچور کیریکٹرز کی جانب قدم بڑھایا۔ سب سے پہلے انہوں نے بڑی عمر کی عورت کا کردار راحت کاظمی کے مدِ مقابل ‘ذکر ہے کئی سال کا’ میں ادا کیا۔

اداکار شان کی فلم ‘مجھے چاند چاہیے’ میں انہوں نے ینگ ٹو اولڈ ماں کا رول بخوبی ادا کیا۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل 30 برس کے لگ بھگ تھی اور عمر میں وہ شان سے دو تین سال ہی بڑی تھیں۔

ٹی وی پر انہوں نے کئی یادگار ڈراموں میں مین رول کرنے کے بعد مستقل کیریکٹر رولز کرنا شروع کر دیے۔ ‘ہم تم’ میں آمنہ شیخ کی والدہ کے کردار نے ان کو کیریکٹر رولز کی جانب دھکیلا جس کے بعد انہوں نے فلم اور ٹی وی دونوں میں ماں کے کئی کردار ادا کیے۔

شاید یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ‘ہم سفر’ میں فریدہ کا کردار ان کے کیرئیر کو ایک نئے موڑ پر لے جائے گا۔ جہاں سے انہیں ایک ایسی اداکارہ کے طور پہ جانا جائے گا جو نہ صرف دکھنے میں اچھی ہو بلکہ اداکاری بھی بہترین کرتی ہو۔

اگر ‘ہم سفر’ میں اشعر کی ماں کا کردار کوئی اور اداکارہ نبھاتی تو شاید ڈرامے میں وہ بات نہ ہوتی۔ لیکن عتیقہ اوڈھو کی جان دار اداکاری نے سب کی ہمدریاں خرد کی جانب کر دیں۔ آج کل وہ ڈرامے ‘پیار کے صدقے’ میں بلال عباس کی والدہ معصومہ کا کردار نبھا رہی ہیں جس کو پسند کیا جا رہا ہے۔

حنا خواجہ بیات

اگر آپ گزشتہ 10، 12 سال کے کامیاب ڈراموں کی لسٹ بنائیں اور ان میں ماں کا کردار نبھانے والی اداکاراؤں کے نام لکھیں تو حنا خواجہ بیات کا نام فہرست کا حصہ ہوگا۔

اس صدی کے آغاز میں انہوں نے ٹاک شو ‘الجھن سلجھن’ کی میزبانی سے بہت شہرت کمائی۔ اداکاری کے میدان میں قدم رکھا تو ہر ڈرامے کو چار چاند لگا دیے۔ خوش شکل، خوش زبان اور خوش لباس ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ تر ڈراموں میں ہیروئن کی طاقتور ماں کا رول دیا گیا لیکن انہوں نے مڈل کلاس ماں کا کردار بھی نبھایا۔

‘اڑان’ میں آمنہ شیخ کی ماں کا کردار ہو، ‘ہم سفر’ میں نوین وقار کی یا ‘زندگی گلزار ہے’ میں فواد خان کی ماں کا رول، حنا خواجہ بیات نے ہر کردار کو اپنی اداکاری سے منفرد بنایا۔

‘عون زارا’ اور ‘بشر مومن’ میں بھی ان کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

گزشتہ سال نشر ہونے والی منی سیریل ‘بھوک’ میں انہوں نے ایک ایسی وکیل کا کردار ادا کیا جو ایک ماں کو پھانسی سے بچاتی ہے۔ جب کہ حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامے ‘داسی’ میں عدیل حسین کی ماں کا کردار انہوں نے بخوبی ادا کیا۔

عصمت زیدی

حسینہ معین کا 90 کی دہائی میں لکھا ہوا ڈرامہ ‘جانے انجانے’ جہاں بے حد مقبول ہوا تھا، وہیں اس نے عصمت زیدی کو بھی ٹی وی میں بطور ماں پیش کیا۔

گو کہ ان کی عمر اور تجربہ اس وقت زیادہ نہ تھا لیکن ہمایوں سعید، اسد، طلعت حسین، نادیہ جمیل اور ونیزہ احمد جیسے منجھے ہوئے اداکاروں کے سامنے ان کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ ڈرامے میں ان کا منفی کردار آج بھی سب کو یاد ہے۔

وہ اب تک وہ متعدد ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکی ہیں جن میں ‘میری ذات ذرہ بے نشان’، ‘کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی’، ‘دوراہا’، ‘قیدِ تنہائی’، ‘امِ کلثوم’ ، ‘کنکر’ ، ‘مول’ ، ‘باغی’ اور ‘عشق زہے نصیب’ شامل ہیں۔ ٹی وی کمرشلز میں بھی وہ ماں کے کردار میں نظر آتی ہیں۔

صبا فیصل

صبا فیصل نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 90 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر لاہور سے بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔

پی ٹی وی ایوارڈ بھی جیتا لیکن جب پرائیوٹ نیوز چینلز شروع ہوئے تو انہوں نے کیمرے کے آگے خبریں پڑھنے کے بجائے اداکاری کو ترجیح دی۔ ان کا شمار ان چند نیوز کاسٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے اداکاری میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔

ٹی وی پر کسی ہیروئن کی ماں کا رول ہو یا جوان بیٹے کی والدہ کا، صبا فیصل ہر قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے ہر دم تیار ہوتی ہیں۔

مشہور ڈرامہ سیریل ‘ہم سفر’ میں معصوم خرد کی ماں کا کردار ہو یا ‘پیارے افضل’ میں خود سر فرح کی ماں کا، ‘کرب’ میں ہانیہ کی رکھ رکھاؤ والی والدہ ہوں یا ‘سنگت’ میں عائشہ کی ماں کا، صبا فیصل کو آج بھی ہر رول کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔