کراچی
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں نجم سیٹھی کی ایک مرتبہ پھر بطور چیئرمین تقرری سے ‘رجیم چینج’ کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ ان کے آتےہی رمیز راجہ کی تقریباً سوا سال پر محیط چیئرمین شپ ختم ہوگئی ہے اور ان کے کمنٹری میں واپس جانےکے امکانات ہیں۔
ستمبر 2021 میں اس وقت پاکستان کےوزیر اعظم اور کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف عمران خان نے احسان مانی کے مستعفی ہونے کے بعد رمیز راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا 36ویں کے لیے چیئرمین نامزد کیا تھا۔
ستاون ٹیسٹ اور 198 ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے رمیز راجہ پاکستان کی اس ٹیم کا بھی حصہ تھے جس نے 1992 میں عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ رمیز راجہ عبدالحفیظ کاردار، جاوید برکی اور اعجاز بٹ کے بعد پی سی بی کے چیئرمین بننے والے چوتھے کرکٹر تھے۔
جب رمیز راجہ نے اس عہدے کا چارج سنبھالا تھا تو کھلاڑیوں، آفیشلز اورمداحوں کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ بطور کرکٹر اور بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹیو افسر ہونے کی وجہ سے ان کے لیے بہتر ثابت ہوں گے لیکن ان کادور ملا جلا سا رہا۔
اپنےدورہ چیئرمین شپ میں انہوں نے جہاں کئی کامیابیاں سمیٹیں وہیں وہ کئی تنازعات میں بھی الجھے رہے جس میں حال ہی میں پشاور کے خلاف بیان دینا، پاکستان میں اوسط درجے کی وکٹیں بنانا اور قومی ٹیم کا پہلی مرتبہ ملک میں مسلسل چار ٹیسٹ میچ ہارنا شامل ہے۔
رمیز راجہ کے دور کی دیگر ناکامیوں میں ان کا ملکی اور غیرملکی صحافیوں کے ساتھ نامناسب رویہ اور ایک ایسے کرکٹ ماڈل کی حمایت شامل ہے جس سے کئی کھلاڑی بے روزگار ہوئے۔
نجم سیٹھی کی واپسی ایک اچھا قدم ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ کرنا فی الحال قبلِ از وقت ہے۔ البتہ انہیں پاکستان سپر لیگ کا آغاز کرنے اور پاکستان میں انٹرنیشنل ٹیموں کی واپسی کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔
فی الحال وہ اس 14 رکنی کمیٹی کی صدارت کریں گے جو اگلے 120 دن تک کرکٹ کے معاملات دیکھے گی اور 2019 کے آئین کی جگہ 2014کے آئین کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی جس کے بعد چیئرمین کے لیےالیکشن ہوگا۔
برسوں بعد آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں کی پاکستان آمد
رمیز راجہ کے پی سی بی کے چیئرمین کا چارج سنبھالتے ہی نیوزی لینڈ کی پاکستان آئی ہوئی ٹیم اپنا دورہ منسوخ کر کے واپس چلی گئی تھی جس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم نے بھی دورہ پاکستان سے انکار کردیا تھا۔
دونوں ٹیموں نے اس منسوخی کی وجہ سیکیورٹی خدشات کو قرار دیا تھا لیکن رمیز راجہ نے دونوں ٹیموں اور ان کے کرکٹ بورڈز کو آڑھے ہاتھوں لیا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے آگے بھی اپنا کیس پیش کیا۔
بعدازاں رواں برس 24 سال بعد پہلے آسٹریلیا اور پھر انگلینڈ نے 17 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ جب کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے جانے والی ٹیم نیوزی لینڈ بھی 19 سال بعد پاکستان آئی ہے۔ نیوزی لینڈ 26 دسمبر سے پاکستان کےخلاف کراچی میں پہلا ٹیسٹ کھیلے گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے رواں برس ایشیا کپ کا فائنل کھیلا جب کہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اور 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی جگہ بنائی۔ ٹیم کی اس کارکردگی کے پیچھے سابق آسٹریلوی بلے باز میتھیو ہیڈن اور سابق جنوبی افریقی بالر ورنن فلینڈز کی بطور کنسلٹنٹ تقرری کا بڑا ہاتھ تھا۔
رواں سال بھی سابق آسٹریلوی پیسر شان ٹیٹ کی بطور بالنگ کوچ تقرری کی وجہ سے ہی قومی فاسٹ بالرز پورا سال نمایاں رہے۔ جس کی وجہ رمیز راجہ ہیں جنہوں نے ان غیر ملکی کھلاڑیوں کو قائل کیا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ کام کریں۔
رمیز راجہ کے دور ہی میں پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم نے ایشیا کپ میں بھارت کو 13 رنز سے شکست دی جب کہ ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور آئرلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کا دوہ بھی کیا۔
اسی سال پاکستان سپر لیگ کا مکمل، بلاتعطل اور کامیاب انعقاد پاکستان میں ہی ہوا اور پہلی بار دنیا کے بہترین کھلاڑیوں نے بلا خوف وخطر ایونٹ میں شرکت کی۔
ایونٹ کی سلیکشن کے نئے قوانین میں تبدیلی کا آئیڈیا بھی رمیز راجہ ہی نے تجویز کیا تھا جس کی وجہ سے ٹیموں نے کھلاڑیوں میں ردوبدل کیا، جس کے بعد شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں لاہور قلندرز کی ٹیم پہلی بار چیمپئن بن کر سامنے آئی۔
پاکستان میں رواں سال منعقد ہونے والی پاکستان جونئیر لیگ کو بھی نہ صرف شائقین نے سراہا بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز نے بھی اسے مستقبل کے کھلاڑیوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا۔ اس لیگ کو حقیقت بنانے میں رمیز راجہ کا کردار اہم ہے۔
رمیز راجہ کے وہ فیصلے جو پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنے
سوا سال کے عرصے میں رمیز راجہ نے جہاں کئی اہم فیصلے کیے وہیں ان کے چند بیانات اور فیصلوں نے سب کو مایوس کیا۔ ان فیصلوں میں سے ایک فرسٹ کلاس اسٹرکچر کی حمایت تھی جس سے نہ صرف کرکٹرز بے روزگار ہوئے بلکہ اس نے گراس روٹس لیول پر کرکٹ کو کمزور کیا۔
اسی طرح چارج سنبھالتے ہی انہوں نے 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان ٹیم بھارت کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اسے ایک بلینک چیک پیش کریں گے۔لیکن بھارت کو دس وکٹوں سےشکست دینے کے بعد ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان جیسے ملک میں ڈراپ ان پچز کے استعمال کی مہنگی تجویز ہو یا پھر پی ایس ایل کا ویمنز ورژن کرانے کا اعلان، رمیز راجہ کے متعدد منصوبے صرف اعلان تک ہی محدود رہے۔
ان کی نگرانی میں بننے والی 2021 کے پاکستان سپر لیگ کی ویڈیو کو بھی زیادہ پذیرائی نہ مل سکی جس میں سابق کپتان اور اُس وقت ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے ایونٹ کا آغاز کیا تھا۔ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر کسی نے ملکہ برطانیہ اور جیمز بانڈ کی ویڈیو کی کاپی قرار دیا تو چند نے اسے مضحکہ خیز کہا۔
رمیزراجہ سے پہلے شاید ہی بورڈ کے کسی چیئرمین نے میچ سے قبل پچ کی تیاری میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لی ہو ۔ ان کے دور میں پاکستان میں جتنے بھی ٹیسٹ میچز کھیلے گئے اس میں کیوریٹرز نے زیادہ تر بلے بازوں کو سپورٹ کرنے کی وکٹیں بنائیں جس پر خاصی تنقید ہوئی۔
دو مرتبہ تو راولپنڈی اسٹیڈیم کی وکٹ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اوسط درجے سے بھی بری قرار دے کر اسے دو ڈی میرٹ پوائنٹس دیے تھے۔مجموعی طور پر اس سوا سال کے عرصے میں پاکستان نے چھ ٹیسٹ میچ کھیلے جس میں آسٹریلیا نے پاکستان کو ایک اور انگلینڈ نے تین میں شکست دی تھی۔
چوبیس سال بعد پاکستان آنے والی آسٹریلوی ٹیم نے دو ڈرا میچز کھیلنے کے بعد سیریز کے آخری میچ میں بابر اعظم الیون کو ہرایا تھا جب کہ انگلینڈ نے پاکستان کو اس کی سرزمین پر تین میچ کی سیریز میں تین صفر سے ہرایا۔
رمیز راجہ کی چیئرمین شپ میں پاکستان نے مسلسل چار ٹیسٹ ہارے جب کہ اسے ہوم گراؤنڈ پر پہلا وائٹ واش بھی ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف غیر معیاری وکٹیں بناکر اس کا دفاع کرنا اور کمنٹری کے لیے آنے والے براڈکاسٹرز کواس کے خلاف بات نہ کرنے پر منع کرنا بھی رمیز راجہ کا ہی آئیڈیا تھا۔ سابق آسٹریلوی پیسر مائیکل کیسپرووچ نے تو ایک میچ کے دوران وکٹ کی برائی کی لیکن پھر فوراً ہی اس کا دفاع بھی کیا۔
انگلینڈ کی سیریز کے دوران آنے والے براڈ کاسٹرز کو نہ تو کوئی ایسی ہدایت ملی تھی اور نہ ہی انہوں نے وکٹوں کی تیاری پر پی سی بی کو بخشا جس کے نتیجے میں رمیز راجہ نے الٹا کیورٹر کو ذمے دار قرار دے کر اس پر تنقید کی۔
میز راجہ کے چیئرمین بننے کے بعد ان کی پریس کانفرنسوں میں تضحیک آمیزلہجے کو سب ہی نے ٹی وی پر دیکھا۔ لیکن جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست کے بعد انہوں نے اسی انداز میں بھارتی صحافی سے بات کی تو یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا نے چلائی جو پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنی۔
مسلسل شکستوں کے بعد رمیز راجہ نے بابر اعظم کو برا کپتان ماننے سے انکار کیا اور ان کے سوا قیادت کے لیے کسی اور کے بارے میں نہ سوچا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پشاور کے خلاف ان کا حالیہ بیان ان کے سخت خلاف گیا۔
سابق انگلش کھلاڑی مائیکل ایتھرٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں سیکیورٹی کی وجہ سے کوئی انٹرنیشنل کھلاڑی نہیں کھیلنا چاہتا جس پر پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی نے احتجاج کرتے ہوئے پی ایس ایل کے ڈرافٹ سیشن کا بائی کاٹ کیا۔
ان کے دور میں ہی متعد د فرانچائر نے رمیز راجہ کی جانب سے پی ایس ایل کے منافع کےدعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا۔ جب کہ دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو پاکستان آنے کے لیے قائل کرنے والے رمیز راجہ کا اپنے لیے حکومت سے بلٹ پروف گاڑی مانگنے کے فیصلے نے دنیائے کرکٹ کو مایوس کیا۔