اسپورٹس

لاہور قلندرز کی ایک اور شکست، مایوس کن کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟

Written by ceditor

کراچی کی مسلسل  دوسری فتح تھی، اسی طرح لاہور قلندرز کی مسلسل چوتھی شکست۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نویں ایڈیشن میں ہفتے کو کراچی کنگز نے دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کو دو وکٹوں سے شکست دے کر ایک اہم کامیابی حاصل کرلی۔ لاہور میں کھیلے گئے مقابلے میں کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کے 176 رنز کے ہدف کو آٹھ وکٹوں کے نقصان پر حاصل تو کر لیا لیکن میچ کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا۔

اس سنسنی خیز مقابلے میں کبھی لاہور قلندرز کا پلڑا بھاری دکھائی دیا اور کبھی کراچی کنگز کا لیکن میر حمزہ کی احسن حفیظ کی گیند پر وکٹوں کے عقب میں باؤنڈری نے کراچی کنگز کو مسلسل دوسرا میچ جتوا دیا۔

جس طرح یہ کراچی کی مسلسل دوسری فتح تھی، اسی طرح لاہور قلندرز کی مسلسل چوتھی شکست۔ اس سال کے پی ایس ایل میں لاہور قلندرز نے اب تک ایک میچ بھی نہیں جیتا جو اس لیے بھی حیران کن ہے کیوں کہ وہ گزشتہ دو پی ایس ایل ایڈیشنز جیت چکے ہیں۔

ماہرین کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا صارفین نے بھی دفاعی چیمپئن ٹیم کی مسلسل چوتھی شکست پر تعجب کا اظہا کیا ہے۔ کسی کے خیال میں انہیں ایک معیاری اسپنر کی کمی دکھائی دے رہی ہے تو کسی کے خیال میں ان کی شکست کی سب سے بڑی وجہ خود اعتمادی کی کمی ہے۔

فی الحال تو چار میچز کے بعد لاہور قلندرز واحد ٹیم ہے جس کے حصے میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں آئی ہے۔ مسلسل تین فائنل کھیلنے والی محمد رضوان کی ملتان سلطانز اور رائلی روسو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس وقت چھ چھ پوائنٹس کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔

شان مسعود کی قیادت میں اس بار پی ایس ایل کھیلنے والی کراچی کنگز کے تین میچوں کے بعد چار جب کہ شاداب خان کی اسلام آباد یونائیٹڈ اور بابر اعظم کی پشاور زلمی کے دو دو پوائنٹس ہیں۔

لاہور قلندرز کی مایوس کن کارکردگی کی کیا وجوہات ہیں؟

اس وقت لاہور قلندرز کے مداحوں کے دماغ میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کی ٹیم کی کارکردگی اچانک کیسے خراب ہوگئی۔ ایک ایسی ٹیم جس کو شکست دینے کی پلاننگ مخالف ٹیمیں کرتی تھیں، وہ تقریباً جیتے ہوئے میچز کیسے ہار رہی ہے؟

یہ بات درست ہے کہ اس بار لاہور قلندرز کو افغانستان کے کھلاڑی راشد خان کی خدمات حاصل نہیں جو انجری کی وجہ سے ایونٹ سے باہر ہو گئے۔ لیکن اسپنر جارج لنڈے اور آل راؤنڈر ڈیوڈ ویزا کے دورانِ ایونٹ زخمی ہو جانے کی وجہ سے بھی ٹیم کی کارکردگی پر فرق پڑا۔

اس کے باوجود ان کے پاس اب بھی زمان خان، حارث رؤف اور کپتان شاہین شاہ آفریدی کی صورت میں ایک اچھا بالنگ اٹیک موجود ہے جب کہ اس بار کی حنیف محمد کیپ بھی انہی کے صاحبزادہ فرحان کے پاس ہے۔

نوجوان بلے باز خواجہ نافع کی 31 گیندوں پر 60 رنز کی ناقابل شکست اننگز ہو، افتخار احمد کے ایک ہی اوور میں 24 رنز یا لاہور قلندرز کی مایوس کن پرفارمنس پر ماہرین کی رائے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

اسپورٹس صحافی رضوان علی سمجھتے ہیں کہ حال ہی میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی سکندر رضا سے میچ میں ایک بھی اوور نہ کرانا لاہور قلندرز کی کراچی کے خلاف شکست کی وجہ بنا۔

ان کے خیال میں ایک ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کو پہلے ساتویں نمبر پر بھیجنا اور پھر 19 ٹی ٹوئنٹی مین آف دی میچ ایوارڈ جیتنے والے کھلاڑی سے ایک بھی اوور نہ کرانا سمجھ سے باہر تھا۔

ٹی وی پروگرام دی پویلین میں بھی سابق کپتان مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی نے سکندر رضا کو استعمال نہ کرنے پر حیرانی کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں شاہین آفریدی اگر سکندر رضا کو آخری اوور دیتے تو میچ کا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔

اسی پروگرام کی وائرل ہونے والی ایک کلپ میں اظہر علی نے کہا کہ جس طرح گزشتہ سیزن میں کامران غلام کو سائیڈ لائن کیا گیا تھا، اسی طرح اس بار عبداللہ شفیق کو ٹیم سے باہر رکھا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

کچھ اسی قسم کی بات سوشل میڈیا صارف ہیز ہارون نے بھی کی جن کے خیال میں لاہور قلندرز کی شکستوں کے پیچھے ان کے اپنے فیصلے ہیں جس میں عبداللہ شفیق کو مڈل آرڈر میں بھیجنا سر فہرست ہے۔

انہوں نےکہا کہ جس کھلاڑی نے ٹیم کو دو ٹائٹل جتوانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے ساتھ اس قسم کا سلوک حیران کن ہے۔

احمر نجیب ستی نے تو پہلے پانچ پی ایس ایل ایونٹس میں لاہور قلندرز کی پرفارمنس کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ لگ رہا ہے کہ لاہور کی ٹیم اپنی نارمل پوزیشن پر واپس آگئی ہے۔

جب کہ باسط سبحانی کی رائے میں شاہین آفریدی کی بطور قائد ناتجربہ کاری ٹیم کی شکست کی وجہ ہے۔

لاہور قلندرز کی مسلسل شکستوں پرایک صارف نے میم کے ذریعے بتایا کہ چونکہ پی ایس ایل سے کے ایف سی بطور اسپانسر جڑا ہوا ہے، اس لیے دفاعی چیمپئن ٹیم پلان کے مطابق میچز نہیں جیت رہی۔

زین ارشد نامی صارف نے لاہور قلندرز کے مالک رانا فواد کی ایک پرانی تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ٹیم کی شکست پر افسردہ تھے۔

لاہور قلندرز کی ٹیم اس وقت ایونٹ سے مکمل آؤٹ تو نہیں ہوئی ہے کیوں کہ ان کے ابھی چھ میچز باقی ہیں۔ پلے آف مرحلے میں پہنچنے کے لیے اب ان کے پاس غلطی کی گنجائش بہت کم ہے۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor