ڈرامے کے جائزے

تین ہدایت کار، تین کہانیاں؛ پاکستان میں ایک بار پھر اینتھولوجی فلم کا تجربہ کیسا رہا؟

Written by ceditor

کراچی — ایک فلم اور متعدد کہانیاں یہ تجربہ پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے نیا ضرور ہوگا لیکن دنیا بھر کی بڑی فلم انڈسٹرییز میں اس قسم کی فلموں کو ‘اینتھولوجی فلم’ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ تجربہ صرف دو بار ہی ہوا ہے۔

سن 1970 میں پہلی بار دو مختلف کہانیوں پر مشتمل فلم ‘چاند سورج’ بنائی گئی تھی جس میں وحید مراد اور ندیم نے پہلی مرتبہ ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن دونوں اداکاروں نے اسکرین شیئر نہیں کی تھی اور دوسری مرتبہ اس عید الاضحیٰ پر ‘تیری میری کہانیاں’ کے ذریعے ایسا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

‘تیری میری کہانیاں’ میں نہ صرف پاکستان کے تین نامور ہدایت کاروں ندیم بیگ ، مرینہ خان اور نبیل قریشی کی ایک ایک شارٹ فلم کو شامل کیا گیا ہے بلکہ اس کی کاسٹ میں تمام بڑے اداکار بھی شامل ہیں۔

نبیل قریشی کی ہارر کامیڈی ‘جن محل’ میں اداکارہ حرا مانی ، ان کے شوہر مانی ، عرفان موتی والا اور گلِ رعنا نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں جب کہ ندیم بیگ کی ‘ایک سو تئیسواں’ کی کاسٹ میں وہاج علی، مہوش حیات، آمنہ الیاس اور زاہد احمد شامل ہیں۔

اس کے علاوہ نوجوانوں میں مقبول اداکار شہریار منور اور رمشا خان مرینہ خان کی ‘پسوڑی’ کی کاسٹ کا حصہ تھے جس میں بابر علی، سلیم شیخ اور لیلیٰ واسطی موجود ہیں۔

ویسے تو ‘تیری میری کہانیاں’ میں پیش کی جانے والی تینوں کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن شارٹ فلم ہونے کی وجہ سے ان کی پروڈکشن کی لاگت بھی کم ہو گی اور ان کا بجٹ بھی دوسروں کے مقابلے میں کم ہوگا جس کی وجہ سے اس کے باکس آفس پر کامیاب ہونے کے چانسز نسبتاً زیادہ ہیں۔

برصغیر کے سنیما کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی، اس میں معروف بھارتی ہدایت کار رشیکیش مکھرجی کی فلم ‘مسافر’ کا نام ضرور شامل ہوگا۔ سن 1957 میں بننے والی اس فلم کو اس خطے کی پہلی ‘اینتھولوجی فلم’ کہا جاسکتا ہے جس میں ایک گھر کی تین کہانیاں پیش کی گئی تھیں لیکن کسی بھی کہانی کا کوئی بھی کردار کسی دوسری کہانی میں مخل نہیں ہوتا۔

اس کے بعد بالی وڈ میں کئی اینتھولوجی فلمیں بنیں جن میں ڈرنا منع ہے، بومبے ٹاکیز اور گوسٹ اسٹوریز قابلِ ذکر ہیں۔ نیٹ فلکس پروڈکشن ‘لسٹ اسٹوریز’ کو بھی اسی کیٹگری میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کا دوسرا سیزن 29 جون کو ریلیز ہوا ہے۔

‘تیری میری کہانیاں’ کی پہلی کہانی ‘جن محل’ ہے جو تینوں کہانیوں میں سب سے طویل ہے لیکن اس میں جس خوب صورتی سے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی گئی وہ قابل تعریف ہے۔ اس کہانی میں اداکار مانی نے ایک ایسے فرد کا کردار ادا کیا جو نوکری نہ ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے۔

ایسے میں جب وہ ایک ایسے گھر میں پہنچتا ہے جس پر محلے والوں کے خیال میں بھوت کا بسر ہوتا ہے تو وہ وہاں اپنی بیوی، بچوں اور ماں کے ساتھ قیام پذیر ہوجاتا ہے اور پھر بھوت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

‘پسوڑی’ اداکارہ رمشا خان اور شہریار منور کے کرداروں کی شادی کے دن کی کہانی ہے جس میں ایک ضروری کام کی وجہ سے دلہن شادی سے پہلے گھر سے بھاگ جاتی ہے اور دلہا کو ٹاسک دیا جاتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر تقریب کو تاخیر سے شروع کرے۔

تیسری کہانی ‘ایک سو تئیسواں’ ایسے نوجوان جوڑوں کے گرد گھومتی ہے جو اپنی اپنی شادیوں سے تنگ ہیں اور ایک ساتھ ٹرین پر سفر کر رہے ہیں۔ اس کہانی میں وہاج علی اور مہوش حیات ٹرین کے مسافر بنے ہیں جب کہ خاتون مسافر کے شوہر کا کردار نبھانے والے زاہد احمد کو آمنہ الیاس کے کردار سے محبت کرتے دکھایا گیا ہے۔

تیری میری کہانیاں؛ کہانی میں جہاں مثبت پہلو تھے وہیں منفی بھی

ایک ہی ٹکٹ میں تین مختلف فلموں کے فلیور اس فلم کا مثبت پہلو بن کر سامنے آ سکتا ہے جس میں شائقین کو ہارر کامیڈی، رومانس اور روم کوم تینوں کا تڑکا ملے گا۔

اس کے علاوہ ‘تیری میری کہانیاں’ کے کئی کچھ ایسے مثبت پہلو ہیں جن کی وجہ سے اس بار اسے عید پر لگنے والی دیگر فلموں پر سبقت حاصل ہوسکتی ہے۔ ‘ایک سو تئیسواں’ میں خلیل الرحمان قمر کے جان دار مکالمے ہوں یا ندیم بیگ کی جادوئی ہدایات، مہوش حیات کی شاندار اداکاری ہو یا شجاع حیدر کی موسیقی، کم دورانیے کی فلم ہونے کے باوجود ندیم بیگ کی شارٹ فلم ہر لحاظ سے تینوں فلموں میں سب سے بہتر بن کر سامنے آئی ہے۔

اس کہانی میں وہ سب کچھ ہے جو ندیم بیگ اور خلیل الرحمان قمر کی پچھلی سپر ہٹ کاوشوں ‘پنجاب نہیں جاؤں گی’ اور ‘لندن نہیں جاؤں گا’ میں تھا۔ یہاں مکالمے بھی شائقین کو داد دینے پر مجبور کریں گے اور ان کی ادائیگی بھی جب کہ موسیقی بھی دل میں اتر جانے والی ہے۔

نبیل قریشی کی شارٹ فلم ‘جن محل’ کا دورانیہ تینوں فلموں میں سب سے زیادہ تھا اور پورا پہلا ہاف اسی کہانی کے گرد گھومتا ہے جس سے فلم کو اچھی فاؤنڈیشن مل جاتی ہے۔

اداکار مانی اور ان کی اہلیہ حرا مانی نے ایک غریب شادی شدہ جوڑے کا کردار ادا کیا ہے جن کے چہروں پر مفلسی اور بے بسی کے آثار نمایاں ہیں۔ کراچی کے عوام خاص طور پر اس فلم سے ریلیٹ کر سکیں گے کیوں کہ اس میں ملک کے سب سے بڑے شہر میں رہنے والوں کی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایسا نہیں کہ ان تینوں شارٹ فلموں میں کوئی منفی پہلو نہیں ہے۔ ندیم بیگ اور نبیل قریشی کے سامنے دونوں سے زیادہ تجربہ رکھنے والی مرینہ خان کی فلموں میں انٹری شائقین کو زیادہ متاثر نہ کرسکی۔

‘پسوڑی’ کے نام سے واسع چوہدری کی اسکرپٹ جلدی میں لکھی ہوئی نظر آئی اور اسے ٹیلی فلم کی طرح پیش کیا گیا۔

اس شارٹ فلم کے مرکزی خیال میں جھول ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں مرکزی اداکاروں کی پرفارمنس بھی زیادہ متاثر نہ کرسکی۔ شہریار منور اور رمشا خان دونوں نے ٹی وی اسٹائل کی اداکاری کو فلم میں ڈھالنے کی کوشش کی۔

یہ تجربہ پاکستان میں کتنا کامیاب ہوگا اس کے بارے میں ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس وقت جتنی بھی فلمیں سنیما میں لگی ہوئی ہیں ‘تیری میری کہانیاں’ ان سب کو پیچھے چھوڑنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor