فلمی جائزے فلمیں

کیا کراچی میں لاقانونیت کی عکاسی کرنے والی فلم ‘مداری’ باکس آفس پر چل سکے گی؟

Written by ceditor

کراچی — پاکستان میں رواں برس متعدد انڈی پینڈنٹ فلم میکرز نے اپنی فلمیں سنیما گھروں میں پیش کیں جن میں ابوعلیحہ کی ایوارڈ جیتنے والی فلم ‘ککڑی ‘ اور ‘دادل’ کے ساتھ ساتھ شفیق الرحمان کی ‘دیوانہ’ شامل تھیں لیکن ان میں سے کسی بھی فلم کو باکس آفس پر وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی انہیں توقع تھی۔

اب عیدالاضحیٰ پر نوجوان ہدایت کار سراج السالکین کی فلم ‘مداری’ریلیز کی گئی ہے۔ اگر یہ فلم کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے دیگر آزاد فلم میکرز کو حوصلہ ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے موضوعات کو اسکرین پر لاسکیں لیکن باکس آفس پر ناکام ہونے کی صورت میں ان ہی فلم میکرز کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔

کراچی کے حالات پر بننے والی فلم ‘مداری’ میں نوے کی دہائی میں ہونے والے واقعات کی عکاسی بھرپور انداز میں کی گئی ہے۔

مداری کو اس وقت درپیش سب سے بڑا مسئلہ اسکرینز کی کمی ہوگا کیوں کہ اس کے ساتھ مزید پانچ فلمیں بھی ریلیز ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 30 جون کو ہالی وڈ کی انڈیانا جونز سیریز کی پانچویں اور آخری فلم ریلیز ہورہی ہے جب کہ 14 جولائی کو ٹام کروز ، مشن امپاسبل کی ساتویں فلم کے ساتھ ایکشن میں نظر آئیں گے۔

ان دونوں بڑے بجٹ کی فلموں کےسامنے عید پر ریلیز ہونے والی کسی بھی پاکستانی فلم کا باکس آفس پر چلنا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔

سراج السالکین کی کم بجٹ سے بننے والی اس فلم کی کہانی ایک نوجوان حارث (عباد عالم شیر) کے گرد گھومتی ہے جس کی پرورش اس کے والد کی موت کے بعد اس کے چچا (پارس مسرور) نے کی ہوتی ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اسے کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ اپنے ایک دوست آصف بلوچ (حماد صادق) کے ہمراہ محلے میں ڈکیتی کرنا شروع کردیتا ہے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد حارث اپنے چچا سے الگ ہو کر اپنے دوست آصف بلوچ کے ساتھ رہنے لگتا ہے اور اس کی پارٹی سرگرمیوں میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے لیکن جب اس کے باپ کا قاتل اس پارٹی میں شامل ہوجاتا ہے تو اس کے اندر بدلے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

فلم میں متوسط طبقے کی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ 90 کی دہائی میں رونما ہونے والی دہشت گردی کے اثرات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ہدایت کار نے کراچی کی تنگ گلیوں میں ہونے والے جرائم کو بہترین انداز میں فلم بند کیا ہے۔

فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ حالات کی ستم ظریفی اور میرٹ کی عدم موجودگی ہنر مند نوجوانوں کو کس طرح بددل کرکے انہیں غلط راستے پر لے جاتی ہے۔

‘مداری’ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے عباد عالم شیر نے ان نوجوانوں کی ترجمانی کی ہے جن کے پاس وسائل سے زیادہ مسائل ہیں۔ جب کہ اداکار حماد صدیق نے ان کے بلوچ دوست کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ معروف اداکار پارس مسرور چچا کے روپ میں خوب جچے لیکن ان کا کردار ڈیولپ نہیں ہوسکا۔

اس کے علاوہ اسکرپٹ میں مکالموں کی بہتات اس کا سب سے کمزور پہلو ہے جس کی وجہ سے وہ شائقین ضرور مایوس ہوں گے جن کے خیال میں فلم میں ایکشن زیادہ، ڈائیلاگ کم ہوں گے۔

مداری کی کہانی اداکار و شریک پروڈیوسر علی رضوی اور ہدایت کار سراج السالکین نے تحریر کی ہے جب کہ فلم میں گالم گلوچ زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید فیملی اسے دیکھنے کے لیے تھیٹرمیں کم ہی آئے۔

فلم میں کئی مقامات پر کیمرا آؤٹ آف فوکس ہونے کی وجہ سے شائقین کو دقت ہوگی ہے جب کہ گانوں کی کمی اور رومانس کی غیر موجودگی اسے غیر مقبول بناسکتی ہے ۔ اسی طرح ریلیز کا وقت بھی اس قسم کی فلموں کے لیے مناسب نہیں کیوں کہ عید پر شائقین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ رومانس اور کامیڈی سے بھرپور فلم دیکھیں۔

‘صرف عید پر فلمیں ریلیز کرنے سے سنیما اور میکرز دونوں کو خاص فائدہ نہیں ہوگا’

عید الاضحیٰ پر جہاں ہدایت کار عیسی خان کی نوجوانوں کو ٹارگٹ کرنے والی بے بی لشس اور اینتھالوجی فلم تیری میری کہانیاں ریلیز ہوئی ہیں وہیں مداری کے ساتھ ساتھ وی آئی پی، آر پار اور اینی میٹڈ فلم اللہ یار اینڈ دی ہنڈریڈ فلاورز آف گاڈ بھی سنیما گھروں کی زینت بنی۔جس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ ان چھ میں سے صرف دو فلمیں ہی اپنے پیسے پورے کرنے میں کامیاب ہوسکیں گی۔

ایک ایسے ملک میں جہاں 150سے بھی کم سنیما اسکرینز ہوں وہاں جتنی کم فلمیں بیک وقت ریلیز ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ جب جب فلم سازوں نے دو سے زائد فلمیں ریلیز کی ہیں اس میں سے ایک فلاپ ہی ہوئی ہے۔

​اداکار و ہدایت کار شمعون عباسی جن کی دو فلمیں دادل اور ہوئے تم اجنبی رواں سال عید الفطر پر ریلیز ہوئیں تھیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ ان کے خیال میں ہر پروڈیوسر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عید پر فلم لاکر زیادہ سے زیادہ بزنس کمائے لیکن جب تک عید سے آگے کا نہیں سوچا جائے گا حالات نہیں بدلیں گے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ سنیما میں فلمیں سارا سال چلیں صرف عید پر فلم ریلیز کرنے سے نہ تو سنیما کوکوئی خاص فائدہ ہوگا نہ ہی فلم بنانے والےکو۔

انہوں نے ماضی میں ریلیز ہونے والی تین فلموں وار، طیفا ان ٹربل اور دی لیجنڈ آف مولا جٹ کا ذکر بھی کیا جو عید پر ریلیز نہ ہونے کے باوجود باکس آفس پر اچھا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

شمعون عباسی نے فلموں کے نہ چلنے کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کے طوفان کو بھی قرار دیا۔ ان کے بقول جب تک سنیما مالکان اور ڈسٹری بیوٹرز ٹکٹ کم نہیں کریں گے لوگ سنیما سے دور ہوتے رہیں گے۔

دوسری جانب مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور فلم پروڈیوسر ندیم مانڈوی والا نے کہا کہ عید پر زیادہ فلمیں ریلیز ہونے کی وجہ سے باقی سال سنیما میں کم فلمیں لگتی ہیں جس کے بارے میں فلم میکرز کو سوچنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فلم بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اسکرپٹ ڈیولپ کرنے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں تاکہ جب ان کی فلم پروڈکشن مرحلے میں جائے تو انہیں سنیما کی ڈیموگرافکس کا بھی اندازہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ لوگ کس قسم کی فلم دیکھنا چاہتے ہیں۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor