ڈرامے کے جائزے

سال 2023 میں کون سے ڈرامے نمایاں رہے؟

Written by ceditor

کراچی — سال 2023 پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے تو زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا لیکن ان بارہ مہینوں میں ٹیلی ویژن انڈسٹری نے خوب کامیابیاں سمیٹیں۔

رواں برس شائقین نے جہاں ڈرامہ سیریل پسند کیے وہیں منی سیریز کا فارمیٹ بھی مقبول ہوا جس میں کم سے کم اقساط میں ایک ہی کہانی کو ڈرامائی انداز میں نشر کیا گیا، ان میں سرِ راہ، جرم اور رضیہ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

ڈراموں اور منی سیریز کے علاوہ اسپیشل رمضان ڈراموں کو بھی پسند کیا گیا جن میں ‘فیری ٹیل’ خاصا نمایاں رہا۔ اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے چینل انتظامیہ نے ایک ہی سال میں اس کا دوسرا سیزن بھی پیش کیا۔

تو چلیں رواں برس نشر ہونے والے ٹاپ ٹین ڈراموں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے اپنی مختلف کہانی کی وجہ سے داد سمیٹیں۔

کابلی پلاؤ – 1

رواں برس گرین انٹرٹینمنٹ کے ڈرامے کابلی پلاؤ کو خوب پسند کیا گیا اور ڈرامہ یوٹیوب پر بھی کئی ہفتوں تک ٹاپ ٹرینڈ میں رہا۔

ڈرامہ ظفر معراج نے تحریر کیا ہے جب کہ اس کی ہدایات کاشف نثار نے دی ہیں۔

‘کابلی پلاؤ’ کی کہانی حاجی مشتاق نامی شخص کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ دوستوں کے مشورے پر جب وہ ایک افغان بیوہ سے شادی کرتا ہے تو اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی دلہن ایک نوجوان لڑکی ہے۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ شادی کے بعد حاجی مشتاق اور اس کی بیوی کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کس طرح افغانستان سے پاکستان ہجرت کرکے آنے والی باربینا خود کو نئے کلچر میں ڈھالتی ہے۔

‘کابلی پلاؤ’ میں مرکزی کردار احتشام الدین اور سبینہ فاروق نے ادا کیا جو اس سے قبل زیادہ تر معاون کردروں میں نظر آئے تھے۔

اس سے قبل کئی ڈراموں میں ایک بڑی عمر کے شخص کی چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی تو دکھائی گئی ہے لیکن احتشام الدین اور سبینا فاروق نے جس عمدگی سے اپنے اپنے کردار نبھائے وہ قابلِ تعریف ہے۔

ڈرامہ رائٹنگ کے شعبے سے 25 سال سے وابستہ طفر معراج نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘کابلی پلاؤ’ کی کہانی کے لیے انہوں نے ایک ایسے واقعے کا انتخاب کیا تھا جو خود ان کے سامنے ان کی نوجوانی میں پیش آیا تھا۔

2 – تیرے بن

سال 2023 کے دوران نشر ہونے والے ڈرامے ‘تیرے بن’ کو بھی ناظرین نے کافی پسند کیا گو کہ اس کی کہانی میں کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن ہدایت کار سراج الحق کی ڈائریکشن اور وہاج علی اور یمنیٰ زیدی کی اداکاری نے اسے مقبول بنایا۔

نوران مخدوم کے تحریر کردہ اس ڈرامے میں میرب اور مرتسم پر مشتمل ایک ایسے جوڑے کی کہانی دکھائی گئی تھی جس کی شادی تو ان کے گھروالوں کی مرضی سے ہوجاتی ہے لیکن وہ خود اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

وہاج علی نے ایک خاندانی رئیس مرتسم اور یمنیٰ زیدی نے ایک پڑھی لکھی لڑکی میرب کا کردار بخوبی نبھایا۔ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ دونوں ہی اپنے اصولوں پر سودا نہیں کرنا جانتے۔

‘تیرے بن’ میں سبینا فاروق حیا کے کردار میں نظر آئیں تھیں جو مرتسم سے شادی کی خواہشمند تھیں اور میرب اس سے نفرت کرتی تھی۔

ڈرامے میں وہاج علی کا چادر اوڑھنے والا لُک خاصا مقبول ہوا البتہ ایک طبقے نے اس ڈرامے کو بھارتی چینل ‘اسٹار پلس’ پر نشر ہونے والے ڈراموں سے مماثلت پر خوب تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

ڈرامے کی کہانی سے ناظرین کہیں نہ کہیں 45 اقساط تک تو مطمئن نظر آرہے تھے لیکن جیسے ہی کہانی میں میرٹل ریپ کا ایک سین آیا تو اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ڈرامے کے پروڈیوسرز نے متنازع سین کے بعد آنے والی اقساط کے ذریعے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش تو کی لیکن اس سے ڈرامے کو فائدہ نہیں پہنچا اور اس کا اختتام اس طرح نہیں ہوا جیسے توقع کی جارہی تھی۔

3 –  کچھ ان کہی

ڈرامہ سیریل ‘کچھ ان کہی’ میں خواتین کو پیش آنے والے مسائل کی جانب ہلکے پھلکے انداز میں توجہ دلائی گئی ہے۔

ڈرامے کو مصنف محمد احمد نے لکھا جب کہ اس کی ہدایات ندیم بیگ نے دی۔

‘کچھ ان کہی’ میں مرکزی کردار سجل علی اور بلال عباس نے ادا کیا ہے جب کہ شہریار منور، ونیزہ احمد، ارسا غزل اور میرا سیٹھی کے ساتھ مصنف محمد احمد بھی اس کی کاسٹ کا حصہ تھے۔

ڈرامے میں جس طرح ایک مڈل کلاس گھرانے کی مشکلات کو پیش کیا گیا وہ قابلِ تعریف تھا۔

اس ڈرامے میں بڑی عمر کی لڑکی کی شادی سے لے کر جائیداد کی حصے داری اور گھر سے باہر نکل کر نوکری کرنے والی لڑکی کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

4 – ۔ سرِ راہ

چھ اقساط پر مبنی منی سیریز ‘سرِ راہ’ میں جس طرح کے موضوعات کی عکاسی کی گئی وہی اس کی مقبولیت کا باعث بنے۔

ڈرامے کی کہانی رانیہ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کا باپ ایک ٹیکسی چلاتا ہے لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے جب وہ گھر کی کفالت کے قابل نہیں رہتا تو یہ ذمے داری رانیہ نبھانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔

اس ڈرامے میں مصنف عدیل رزاق اور ہدایت کار احمد بھٹی نے کئی موضوعات کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔

عام طور پر جہاں ایک ہی مسئلے کی عکاسی کے لیے چھ چھ مہینے طویل ڈرامے بنائے جاتے ہیں وہیں اس ڈرامے میں صرف چھ اقساط کے ذریعے کئی مسائل کی نشاندہی کی گئی۔

ڈرامے میں رانیہ کا کردار صبا قمر نے ادا کیا ہے جو ایک ٹیکسی بھی چلاتی ہے اور اس میں سفر کرنے والوں کی کہانیاں بھی سنتی ہے۔ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے وہ کبھی کبھی ان افراد کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد بھی کرتی ہے۔

صبا قمر کی یہ رواں برس دوسری منی سیریز تھی۔ ‘سرِ راہ’ کے ساتھ ساتھ انہوں نے ‘گناہ’ نامی منی سیریز میں بھی اپنی اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا تھا۔

سرِ راہ میں صبا قمر کا کردار زیادہ مشکل تھا جسے اگر وہ روایتی انداز میں ادا کرتیں تو دیکھنے والوں کو مزہ نہیں آتا۔ لیکن نہ صرف انہوں نے اس کردار میں جان ڈالی بلکہ ایک نوجوان لڑکی کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کو معیوب سمجھنے والوں کو بھی بتایا کہ خاندان کی کفالت کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو کیا مسائل پیش آتے ہیں۔

ڈرامے کی مقبولت کے پیچھے صرف اداکاروں کی پرفارمنس ہی نہیں تھی بلکہ اس میں جس طرح ناظرین کی توجہ چائلڈ میرج سے لے کر انٹر سیکس کمیونٹی کو پیش آنے والے مسائل کی جانب دلوائی گئی وہ بھی اس کی کامیابی کی وجہ بنے۔

5 – جنت سے آگے

ٹی وی پر مارننگ شوز تو اکثر لوگ دیکھتے ہیں لیکن ان مارننگ شوز کے پیچھے کیا کہانیاں ہوتی ہیں؟ اسے مصنفہ عمیرہ احمد اور ہدایت کار حسیب حسن نے ڈرامہ سیریل ‘جنت سے آگے’ میں پیش کیا ہے۔

ڈرامے کہ کہانی دو خواتین کے گرد گھومتی ہے جس میں سے جنت علی خان ایک کامیاب مارننگ شو ہوسٹ ہوتی ہیں اور دوسری تبسم مغل جو ان کی ایک مداح ہوتی ہیں اور ان سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ ان جیسا بننے کا خواب دیکھتی ہے۔

اس ڈرامے کے ذریعے ناظرین کو بتایا گیا ہے کہ بظاہر خوش نظر آنے والے لوگوں کی زندگی کا پرفیکٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ جنت علی خان کی آن اسکرین اور آف اسکرین زندگی میں تضاد تھا جس کی وجہ سے انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جب یہ راز تبسم مغل کے سامنے کھل کر آیا تو انہوں نے جنت جیسا بننے کے بجائے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

جنت سے آگے میں کبریٰ خان نے مارننگ شو ہوسٹ جنت کا کردار بہت عمدگی سے نبھایا جب کہ رمشا خان تبسم کے کردار میں نظر آئیں۔ دونوں اداکاراؤں نے دو مختلف کلاسز کی نمائندگی کی اور اپنی اداکاری سے ڈرامے کو مقبول بنایا۔

ڈرامہ سال کے دوسرے ہاف میں نشر کیا گیا تھا لیکن جہاں اسے ناظرین نے پسند کیا وہیں مارننگ شو سے مقبولیت حاصل کرنے والی نادیہ خان اور شائستہ لودھی نے اس پر تنقید کی۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor