کراچی —
کرکٹ کے حلقوں میں پاکستان اور بھارت کے ٹاکروں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن جتنی خوف ناک تاریخ پاکستان اور انگلینڈ کی ہے اس کا کوئی مقابل نہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیلنے کے لیے انگلش سرزمین پر موجود ہے۔ دونوں ٹیمیں پانچ اگست کو اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں مدِ مقابل ہوں گی۔
اس سیریز کے شروع ہونے سے پہلے ایک نظر دونوں ٹیموں کے درمیان ماضی میں ہونے والے تنازعات پر ڈالنا ضروری ہے۔ جو اس سیریز کو اور زیادہ اہم بناتے ہیں۔
امپائر سے بدتمیزی ہو، امپائر کی وجہ سے میچ کا رُک جانا ہو یا امپائر کی وجہ سے میچ فارفیٹ ہوجانا۔ بال ٹیمپرنگ کے الزامات ہوں، پچ ٹیمپرنگ کی معصومانہ حرکت، اسپاٹ فکسنگ کی بازگشت ہو یا پھر جانب دارانہ امپائرنگ۔ انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان سیریز کے دوران یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔
پاکستان اور انگلینڈ کی تاریخ اتنی ہی دھماکہ خیز ہے جتنا کہ دونوں ٹیموں کی آن فیلڈ کارکردگی۔ یہاں آپ کو ماضی میں ہونے والے تنازعات کا احوال بتاتے ہیں۔
ادریس بیگ بمقابلہ ایم سی سی الیون (1956)
انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا پہلا باضابطہ دورہ ساٹھ کی دہائی میں کیا تھا۔ یہ دورہ بغیر کسی تنازع کے گزر بھی گیا تھا لیکن اس سے قبل انگلش کلب مارلی بورن کرکٹ کلب (ایم سی سی) کی ایک ٹیم غیر سرکاری دورے پر پاکستان آئی تھی۔ اس دورے سے جو تنازعات کی کہانی شروع ہوئی، وہ آج تک جاری ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایم سی سی نے پاکستان ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچز کھیلے۔ اُس زمانے میں میزبان ملک ٹیم اپنی پسند کے امپائرز سے میچ میں امپائرنگ کرایا کرتے تھے۔ لیکن جہاں دوسرے ممالک کے امپائرز دونوں ٹیموں کے حق میں فیصلہ دیتے تھے۔ انگلش کھلاڑیوں کو لگا کہ پاکستانی امپائر ادریس بیگ صرف پاکستان کے حق میں فیصلے دے رہے تھے۔
اپنے غم و غصے سے ٹیم مینجمنٹ کو آگاہ کرنے کے بجائے ایم سی سی کے چند کھلاڑیوں نے خود ہی معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔
چھبیس فروری 1956 کی رات ایم سی سی کے کچھ کھلاڑیوں نے امپائر ادریس بیگ کو پشاور کے سروسز ہوٹل میں موجود اُن کے کمرے سے اغوا کیا اور اپنے ساتھ ڈینز ہوٹل لے گئے۔ جہاں ان کے سر پر برفیلے پانی سے بھری دو بالٹیاں ڈال کر مہمانوں نے اپنا غصہ نکالا۔
اس معاملے کے بعد دونوں ٹیموں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے لیکن گورنر جنرل اور کرکٹ بورڈ کے صدر اسکندر مرزا اور ایم سی سی کے صدر لارڈ ایکگزینڈر کی بروقت مداخلت کے بعد حالات میں بہتری آئی اور ایم سی سی ٹیم نے اپنا دورہ مکمل کیا۔
این بوتھم کو ساس کا مذاق مہنگا پڑ گیا (1983)
انگلش آل راؤنڈر این بوتھم نے اپنی بالنگ سے کئی بیٹسمینوں کو مشکل میں ڈالا، لیکن ایک بار ان کے اپنے الفاظ ان کے گلے پڑ گئے۔ 1983 میں پاکستان کے خلاف سیریز کے دوران وہ انجری کا شکار ہوئے جس کے بعد اُنہیں واپس انگلینڈ بھیج دیا گیا۔
وطن واپس پہنچنے پر انگلش آل راؤنڈر نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انسان ایک ماہ کے لیے اپنی ساس کو بھیج دے، تمام اخراجات کے ساتھ۔
اُن کی اس بات کا مطلب یقیناً یہ تھا کہ پاکستان ایک ایسی جگہ ہے، جہاں انسان اپنے دشمن کو بھیج سکتا ہے۔ این بوتھم نے اس فقرے پر بعد میں معافی تو مانگ لی لیکن ٹھیک نو برس بعد، جب ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں، تو وسیم اکرم نے این بوتھم کو صفر پر آؤٹ کیا۔ کہتے ہیں کہ عامر سہیل نے پویلین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اب کون آئے پاکستان!
انگلش کپتان مائیک گیٹنگ بمقابلہ شکور رانا (1987)
انیس سو ستاسی کے کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی۔
ویسے تو عبدالقادر کی شاندار بالنگ کی وجہ سے پاکستان نے یہ سیریز ایک صفر سے جیت لی لیکن اس سیریز کو ایک تنازع نے یادگار بنایا اور وہ تنازع انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کے درمیان تھا۔
پہلے میچ میں انگلش کھلاڑی عبدالقادر کی بالنگ کے ساتھ ساتھ امپائرز کی غیر معیاری کارکردگی سے بھی ڈرے ہوئے تھے۔ اس لیے جب دوسرے میچ میں شکور رانا نے ایک چھوٹے سے معاملے کو طول دیا تو مائیک گیٹنگ سے بھی رہا نہ گیا۔
فیصل آباد میں کھیلے جانے والے اس میچ کے دوران امپائر شکور رانا کو محسوس ہوا کہ انگلش کپتان نے بالر کے رن اپ کے دوران فیلڈ میں رد و بدل کیا۔ قانون کے مطابق شکور رانا کا اعتراض درست تھا لیکن مائیک گیٹنگ کو ‘چیٹ’ کہہ کر مخاطب کرنا، وہ بھی ایک ایسے میچ کے بعد جس میں پاکستانی امپائر کی کارکردگی پر سوال اٹھا، یہ غلط تھا۔
اُدھر مائیک گیٹنگ کو بھی درگزر کر کے میچ دوبارہ شروع کرنا چاہے تھا لیکن انگلش کپتان نے پہلے امپائر کے اعتراض کو رد کیا، پھر ان سے بدتمیزی کی جس کے بعد پاکستانی امپائر نے میچ دوبارہ شروع کرنے سے معذرت کر لی۔
میچ شروع نہ ہونے پر انگلش ٹیم کو میچ کا ایک دن ضائع ہونے پر نقصان ہوا جو بظاہر مضبوط پوزیشن میں تھی بلکہ کپتان مائیک گیٹنگ کو اپنے رویے پر امپائر شکور رانا سے تحریری معافی بھی مانگنا پڑی۔
انگلش کپتان اور امپائر کے درمیان نوک جھونک کے واقعے نے ادریس بیگ والے واقعے کی یاد تازہ کر دی۔
ٹو ڈبلیوز بمقابلہ انگلش پریس
انیس سو ستاسی میں جو پاکستان نے انگلینڈ کے ساتھ کیا، انگلینڈ نے بھی وہی سب کچھ پاکستان کے ساتھ پانچ سال بعد کیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاکستان نے خراب امپائرنگ اور زبردستی کے تنازعات کے باوجود شکست دی اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران وقار یونس نے 22 اور وسیم اکرم نے 21 وکٹیں حاصل کیں۔ انگلش پریس نے سے پاکستان کے ٹو ڈبلیوز (وسیم اور وقار) کی شاندار کارکردگی اور اپنے بالرز کی غیر معیاری بالنگ برداشت نہیں ہوئی اور انہوں نے پاکستانی بالرز پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگا دیا۔
صرف یہی نہیں دونوں ٹیموں کے درمیان ون ڈے سیریز کے دوران ایک موقع پر امپائرز نے بال ٹمپرنگ کے شبے میں گیند بھی تبدیل کی۔
پاکستانی بالرز بال ٹیمپرنگ کے الزامات سے اس وقت سرخرو ہوئے جب انگلش بالرز ڈیرن گف اور جیمز اینڈرسن نے قبول کیا کہ انہوں نے ریورس سوئنگ پاکستانی بالرز کو دیکھ کر سیکھی۔
عاقب جاوید بمقابلہ رائے پالمر
انگلینڈ کے خلاف اسی سیریز کے دوران مقامی امپائرز کا رویہ پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ نازیبا رہا۔
تیسرے ٹیسٹ کے دوران فاسٹ بالر عاقب جاوید کی ایک نارمل گیند ٹیل اینڈر ڈیون میلکم کی اپنی بے وقوفی سے ان کے سر پر لگی۔ لیکن امپائر نے پہلے بالر کو وارننگ دی۔ پھر اگلی بال نو بال قرار دے دی جب اوور کا اختتام ہوا اور بالر نے اپنا سوئیٹر واپس مانگا تو امپائر نے اس حقارت سے سوئیٹر واپس کیا جیسے کوئی اسکول ٹیچر کسی مسلسل فیل ہونے والے طالب علم کو فرسٹ آنے پر انعام دیتا ہے۔
کپتان جاوید میانداد اور کھلاڑیوں کے احتجاج کو مقامی پریس نے ایشو تو بنایا۔ لیکن یہ سب بھول گئے کہ جب عاقب جاوید نے اسی اینڈ سے اسی بیٹسمین کو سلو گیند پر آؤٹ کیا تو اُن کا کیا ری ایکشن تھا۔
نیشنل اسٹیڈیم میں تاریخی ٹیسٹ
کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم 39 سال تک پاکستان کرکٹ ٹیم کا مضبوط قلعہ رہا جہاں پاکستان ٹیم کو ہرانا مشکل کام تھا۔ اس میدان پر پاکستان ٹیم یا تو میچ ہارتی نہیں تھی اور اگر ہار رہی ہو تو میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔
یہ سب کچھ اس وقت بدل گیا جب سال 2000 میں جہاں امپائر اسٹیو بکنر کی ہٹ دھرمی، کپتان معین خان کی دفاعی حکمت عملی اور انگلش ٹیم کی ثابت قدمی کی وجہ سے پاکستان ٹیم پہلی بار نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں شکست سے دو چار ہوئی۔
یہ تاریخی اور تاریکی میں ڈوبا میچ جیو نیوز سے وابستہ صحافی فیضان لاکھانی نے بھی کوور کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیضان لاکھانی کا کہنا تھا کہ رمضان کے دنوں میں ہونے والا یہ میچ، شروع تو صبح ہوا تھا لیکن اس کا اختتام رات کے اندھیرے میں ہوا۔
اُن کے بقول پریس باکس میں موجود ہر مقامی صحافی اور اسٹیڈیم میں موجود شائقین یہی سمجھ رہے تھے کہ میچ ختم ہونے والا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں آئے گا۔ لیکن ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے امپائر اسٹیو بکنر کے خیال میں پاکستانی کپتان معین خان نے تاخیری حربے استعمال کیے، جس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ چاہے اندھیرا ہو جائے پاکستان ٹیم اوورز مکمل کرے گی۔
فیضان لاکھانی نے بتایا کہ یہ میچ رمضان کے مہینے میں کھیلا گیا تھا جس میں چند کھلاڑیوں اور آفیشلز کا بھی روزہ تھا۔
اُن کے بقول، "مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آل راؤنڈر عبدالرزاق نے گراؤند میں داخل ہوکر مقامی امپائر نذیر جونیئر کو پانی کی بوتل اور کھجور دیا تاکہ وہ روزہ افطار کرسکیں۔”
میڈیا باکس میں بھی سب نے افطار کو بھول کر میچ دیکھا کیوں کہ افطار کی وجہ سے یہ میچ ٹی وی پر نشر ہونا بند ہو گیا تھا۔ دوسرا میچ میں شکست پاکستان کے لیے ایک داغ سے کم نہ تھی۔
امپائر اسٹیو بکنر کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انگلش ٹیم نے مغرب کی اذان کے بعد بھی بیٹنگ جاری رکھی اور میچ کا فیصلہ اندھیرے میں ہوا۔ اتنی دیر تک اندھیرے میں میچ کا ہونا مضحکہ خیز تو تھا، لیکن امپائر کے اڑ جانے کی وجہ سے اور میچ میں تاخیری حربوں کے استعمال کی سزا پاکستان کو ملی۔
شاہد آفریدی کی انوکھی ٹمپرنگ
دنیا میں دو طرح کے کھلاڑی ہوتے ہیں، ایک وہ جو ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور ہر میچ جیتنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک ہوتا ہے شاہد آفریدی جسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کا نام خراب ہو یا نہیں، بس میچ جیتنا چاہیے، چاہے اس کے لیے پچ کو ہی کیوں نہ کھودنا پڑئے۔
پچ کھودنے والی بات کو اگر آپ مذاق سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ کیوں کہ 2005 میں فیصل آباد میں کھیلے گئے پاکستان اور انگلینڈ کے ٹیسٹ میچ کے دوران باؤنڈری کے اس پار ایک سیلنڈر دھماکا ہوا، جس کی وجہ سے کھیل روک دیا گیا۔
یہی وہ موقع تھا جس کی تاک میں کئی سال بعد بال چبانے والے شاہد آفریدی بیٹھے تھے۔ جس وقت سیلنڈر دھماکے کا واقعہ ہوا، اُس وقت سینئر اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی پریس باکس میں موجود تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سب کا دھیان دھماکے کی طرف تھا کہ خبر آئی کہ شاہد آفریدی نے اپنے پاؤں سے پچ کو مسلنے کی کوشش کی تاکہ اس سے پچ ڈیمج ہو اور اس کا فائدہ پاکستانی بالرز کو ہو۔
میچ ریفری نے شاہد آفریدی سے پوچھ گچھ کے بعد ان پر دو ون ڈے اور ایک ٹیسٹ میچ کی پابندی تو لگا دی۔ لیکن جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو ذرائع بتاتے ہیں کہ بوم بوم آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف کارروائی ہوئی تو اس شخص کا نام بتا دوں گا جس نے مجھے ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔
برطانوی میڈیا نے بھی اس معاملے کو خوب اچھالا اور اس کی وجہ سے تنازعات کا سلسلہ جو کچھ عرصہ پہلے رُک گیا تھا، پھر سے چل پڑا۔
پاکستان ٹیم بمقابلہ ڈیرل ہیئر، بلی ڈوکٹروو
پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2006 میں انضمام الحق کی قیادت میں انگلینڈ کا دورہ کیا۔ سیریز کے چوتھے اور آخری میچ میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے امپائر ڈیرل ہیئر اور ویسٹ انڈین امپائر بلی ڈوکٹروو نے پاکستان ٹیم پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگاتے ہوئے میزبان ٹیم کو پانچ اضافی رنز دیے۔
اُس وقت تو مہمان ٹیم کے کپتان انضمام الحق کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن سیشن کے اختتام پر جب ٹیم ڈریسنگ روم میں واپس گئی تو اُنہیں پتا چلا کہ اُن کے بالرز پر الزام ہے کیا!
پھر کیا تھا، مینیجر ظہیر عباس جو ڈریسنگ روم کے باہر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، وہ اخبار پڑھتے رہے اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان اور ڈاکٹر نسیم اشرف نے ٹیم کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران کپتان نے فیصلہ کر لیا کہ اب ٹیم فیلڈ پر واپس نہیں جائے گی۔
اس سے پہلے کہ پاکستان ٹیم کا فیصلہ امپائرز تک پہنچتا، دونوں امپائرز نے میچ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا میچ فارفیٹ ہو گیا۔
تحقیقات کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے میچ ریفری رنجن مدوگالے نے انضمام الحق کو بال ٹمپرنگ کے الزام سے تو بری کر دیا۔ لیکن ٹیم کو فیلڈ پر نہ لے جانے اور کرکٹ کی اسپرٹ کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے ان پر چار میچوں کی پابندی لگا دی۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ پہلے آئی سی سی نے جولائی 2008 میں میچ کو ڈرا قرار دیا لیکن بعد میں انگلینڈ ٹیم کو فاتح قرار دیا گیا جو میچ فارفیٹ ہوتے وقت میچ بچانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
محمد عامر اور معاملہ محض ایک نو بال کا
جب 2010 میں پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے تین کھلاڑی ملک اور قوم کی عزت اور کرکٹ کی ساکھ کی پروا کیے بغیر ایسا کارنامہ سر انجام دیں گے جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جائے گا۔
محمد آصف، محمد عامر اور کپتان سلمان بٹ نے لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کی۔ لیکن تینوں کھلاڑیوں نے تحقیقات کے دوران اس الزام سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
معاملہ شروع ہوا تھا نوجوان فاسٹ بالر محمد عامر کی ایک ایسی انوکھی نو بال سے، جسے دیکھ کر کمنٹری باکس میں موجود مائیکل ہولڈنگ بھی دنگ رہ گئے تھے۔
نو بال تو محمد آصف نے بھی کی لیکن یہ دونوں نو بالز ٹیم کو اتنی مہنگی پڑیں کہ مت پوچھیں۔
اسکاٹ لینڈ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ تینوں کھلاڑی اور ان کا ایک دوست مظہر مجید اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں جس کے بعد تینوں کرکٹرز پر پابندی لگا دی گئی۔
کپتان سلمان بٹ کو دس سال کرکٹ سے دور کیا گیا، محمد آصف کو سات اور محمد عامر کو پانچ سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب برطانوی عدالت نے مظہر مجید کو 32 ماہ، سلمان بٹ کو تیس ماہ، محمد آصف کو ایک سال اور محمد عامر کو چھ ماہ کی قید کا بھی حکم دیا۔
ان کھلاڑیوں کو سزا ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے انگلش ٹیم پر الزام لگایا کہ اوول کے مقام پر کھیلا گیا ون ڈے میچ بھی مشکوک تھا۔ اس الزام کے بعد اعجاز بٹ کو انگلش کھلاڑیوں سے معافی مانگنا پڑی۔
سزا پانے والے پاکستان کے تینوں کھلاڑیوں میں سے صرف محمد عامر انٹرنیشنل کرکٹ میں کم بیک کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن بعد میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر انہیں مداحوں نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔