اسپورٹس

ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح: پاکستان نے آئی سی سی سپر لیگ کی ٹاپ چار ٹیموں میں جگہ بنا لی

Written by Omair Alavi

کراچی —
پاکستان ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے تیسرے اور آخری ون ڈے انٹرنیشنل میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر سیریز میں کلین سوئپ کرلیا

کراچی —
پاکستان ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے تیسرے اور آخری ون ڈے انٹرنیشنل میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر سیریز میں کلین سوئپ کرلیا۔

اتوار کو ملتان میں کھیلے گئے میچ میں شاداب خان نے پہلے 86 رنز کی دھواں دار اننگز کھیل کر پاکستان کو مشکلات سے نکالا، پھر چار کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیج کر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان نے 53 رنز کی فتح کے ساتھ 30 سال سے ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی برقرار رکھا، ساتھ ہی ساتھ آئی سی سی کی سپر لیگ میں بھی ٹاپ چار ٹیموں میں جگہ بنا لی۔

خراب موسم کی وجہ سے میچ کو 48، 48 اوورز تک محدود کیا گیا، لیکن پاکستان کے نچلے نمبر پر آنے والے بلے بازوں کی ذمہ دارانہ بیٹنگ اور بعد میں بالرز کی نپی تلی کارکردگی کی وجہ سے میزبان ٹیم تین میچز کی سیریز میں ناقابلِ شکست رہی۔

چودہ سال بعد ملتان میں کھیلی جانے والی انٹرنیشنل سیریز کے تیسرے میچ میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ فخر زمان اور امام الحق کے 85 رنز کے آغاز کے باوجود میزبان ٹیم 48 اوورز کے اختتام تک 9 وکٹوں پر 269رنز بنانے میں کامیاب ہوئی۔ آغاز میں امام الحق نے 62 رنز بناکر ایک اچھے اسکور کی بنیاد رکھی تو اختتام تک آل راؤنڈر شاداب خان کے 86 رنز ایک بڑے ٹارگٹ کا انتظا م کرچکے تھے۔

ذمہ دارانہ بیٹنگ اور بعد میں بالرز کی نپی تلی کارکردگی کی وجہ سے میزبان ٹیم تین میچز کی سیریز میں ناقابلِ شکست رہی۔

پاکستان اننگز کی خاص بات بابر اعظم کا ایک رن پر پویلین لوٹ جانا تھا، وہ مسلسل چھ ون ڈے اننگز سے پچاس یا اس سے زائد رنز بناتے آرہے تھے۔ البتہ امام الحق نے مسلسل سات ون ڈے میچز میں ففٹی یا اس سے زیادہ اسکور کرکے جاوید میانداد کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کرلی ہے۔

1987 میں جاوید میانداد نے مسلسل نو ون ڈے میچوں میں پچاس یا اس سے زائد رنز بناکر جو ریکارڈ بنایا وہ آج بھی قائم ہے۔

ویسٹ انڈیز کی جانب سے سب سے کامیاب بالر ان کے کپتان نکولس پورن رہے جنہوں نے نہ صرف اس میچ میں پہلی انٹرنیشنل وکٹ لی، بلکہ چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

ادھر 270 رنز کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا نہ آغاز اچھا تھا نہ ہی اختتام۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کی وجہ سے مہمان ٹیم پوری اننگز میں مشکلات کا شکار رہی اور 38 ویں اوور میں صرف 216 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔

لیفٹ آرم اسپنر عقیل حسین کے کریئر کی پہلی نصف سینچری بھی ان کی ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کرسکی۔ وہ 60 رنز بناکر ٹاپ اسکورر رہے ۔

واضح رہے کہ پاکستان نے سیریز کے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کو 5 وکٹوں سے شکست دی تھی جب کہ دوسرا میچ گرین شرٹس نے 120 رنز سے اپنے نام کیا تھا۔

امام الحق ٹاپ اسکورر ؛محمد نواز اور شاداب خان ٹاپ وکٹ ٹیکر رہے

تین میچوں پر مشتمل ون ڈے سیریز کے دوران سب سے زیادہ رنز پاکستان کے اوپننے بیٹر امام الحق نے بنائے۔ انہوں نے اننگز کا آغاز کرتے ہوئے 66 اعشاریہ تین تین کی اوسط سے 199 رنز اسکور کیے جس میں تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔

دوسرے نمبر پر پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم رہے جن کے 60 اعشاریہ تین تین کی اوسط سے بننے والے 181 رنز میں ایک سینچری اور ایک نصف سینچری شامل تھی۔

ویسٹ انڈین وکٹ کیپر شائے ہوپ 50 اعشاریہ چھ چھ کی اوسط سے 152 رنز بناکر اپنی ٹیم کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے۔

امام الحق نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تینوں میچز میں نصف سینچریاں بنائیں۔

بالنگ میں پاکستانی اسپنرز محمد نواز اور شاداب خان نے تین میچوں میں سات سات وکٹیں حاصل کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسرے میچ میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے محمد نواز 19 اعشاریہ چار دو کی اوسط سے وکٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے اس فہرست میں پہلے جب کہ 19 اعشاریہ آٹھ پانچ کی اوسط سے اتنی ہی وکٹیں لینے والے شاداب خان دوسرے نمبر پر ہیں۔

ان کے علاوہ صرف ویسٹ انڈیز کے لیفٹ آرم اسپنر عقیل حسین پانچ یا اس سے زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پاکستان کی جانب سے سیریز کے تینوں میچز کھیلنے والے وکٹ کیپر بلے باز محمد حارث بیٹنگ میں تو خاص کارکردگی نہ دکھا سکے، لیکن آخری میچ میں وکٹ کیپنگ کرکے انہوں نے سب کو متاثر کیا۔ گرین شرٹس کے مستقل کیپر محمد رضوان نے آخری میچ میں بطور فیلڈر شرکت کی۔

بابر اعظم نے سیریز کے دوران کئی ریکارڈز توڑے، کئی بنائے

اس سیریز کو پاکستانی کپتان بابر اعظم کی سیریز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، انہوں نے ان تین میچوں میں ایک نہیں، کئی ریکارڈز اپنے نام کیے، جس میں سب سے پہلے مسلسل تین اننگز میں تین سینچریوں کا کارنامہ دوسری بار انجام دینابھی شامل ہے۔

اس سیریز سے قبل وہ آسٹریلیا کے خلاف دو مسلسل سینچریاں بنا چکے تھے، اورجب پہلے میچ میں انہوں نے تین سینچریوں کا ہندسہ عبور کیا، تو انہوں نے یہ سنگ میل اپنے کریئر میں دوسری مرتبہ عبور کیا۔

اس سے قبل وہ 2016 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں تین میچوں میں تین سینچریاں اسکور کرچکے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے کریئر کی17 ویں سینچری 85 ویں اننگز میں اسکورکی ، جس کے بعد وہ کم سے کم اننگز میں17 سینچریاں بنانے والے بلے باز بن گئے۔

اس سے قبل جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ نے 98 میچوں میں 17 سینچریاں اپنے نام کی تھیں۔بھارت کے سابق کپتان وراٹ کوہلی کو 17ویں سینچری کے لیے 112 اور آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر کو 113 ون ڈے اننگز کھیلنا پڑی تھیں۔

بطور کپتان کم سے کم اننگز میں ایک ہزار رنز اسکور کرنے کا ریکارڈ بھی اب پاکستانی قائد کے پاس ہے۔ انہوں نے صرف 13 اننگز میں یہ کارنامہ انجام دے کر 17 اننگز میں یہی ریکارڈ بنانے والے وراٹ کوہلی کو پیچھے چھوڑ دیا۔

پاکستان کی آئی سی سی سپر لیگ پوائنٹس ٹیبل پر ترقی ، ویسٹ انڈیز کی ایک درجے تنزلی

ویسٹ انڈیز کے خلاف کلین سوئپ کے ساتھ ہی جہاں پاکستان نے ایک اور ون ڈے سیریز اپنے نام کرلی، وہیں گرین شرٹس کی آئی سی سی سپر لیگ کی پوائنٹس ٹیبل میں پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔

سیریز سے قبل پاکستان ٹیم دسویں اور ویسٹ انڈیز چوتھی پوزیشن پر تھی جب کہ مسلسل تین کامیابیوں نے پاکستان کو چوتھے نمبر پر پہنچا دیا۔ اس وقت 120 پوائنٹس کے ساتھ بنگلہ دیش کی ٹیم پہلے، افغانستان کی ٹیم 100 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے اور 95 پوائنٹس کے ساتھ انگلینڈ کا تیسرا نمبر ہے۔

پاکستان ٹیم 90 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے اور ویسٹ انڈیز 80 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔پاکستان کے پاس اب نیدرلینڈ، افغانستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز ہیں، جس میں سے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز ملک میں اور باقی دونوں ملک سے باہر کھیلی جانی ہیں۔

ان سیریز میں اچھی کارکردگی پاکستان کو آئی سی سی ورلڈ سپر لیگ میں اچھی پوزیشن دلوا دے گی۔اس فہرست میں شامل ٹاپ آٹھ ٹیموں کو اگلے سال ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے ڈراز میں شامل کیا جائے گا جب کہ باقی ٹیموں کو ایونٹ کے لیے کوالیفائی کرنا پڑے گا۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔