اسپورٹس

پہلے ایشز ٹیسٹ میں انگلینڈ کو شکست کیوں ہوئی؟

Written by ceditor

کراچی — آسٹریلیا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ کو ایشز سیریز کے پہلے میچ میں شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ کینگروز کی کامیابی میں عثمان خواجہ کی دونوں اننگز میں لاجواب بیٹنگ اور چوتھی اننگز میں آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کی 44 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز نے اہم کردار ادا کیا۔

برمنگھم میں منگل کو کھیلے گئے میچ میں آخری سیشن تک دونوں ٹیموں نے بھرپور مقابلہ کیا۔ بارش کی وجہ سے ایک سیشن سے زائد کھیل کا متاثر ہونا آسٹریلیا کے حق میں گیا تو انگلینڈ کے فیلڈرز کی کچھ غلطیاں بھی آسٹریلیا کی جیت میں معاون ثابت ہوئیں۔

میچ کے پانچویں اور آخری دن انگلش اسپنر معین علی نے ایک وکٹ تو حاصل کی لیکن انگلی میں انجری کی وجہ سے ان کی جگہ جو روٹ نے آف اسپین بالنگ کی۔ کپتان کا ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے فاسٹ بالر جیمز اینڈرسن کے بجائے اولی روبنسن پر اعتماد بھی میزبان ٹیم کے خلاف گیا۔

آسٹریلوی ٹیم کی اس یادگار فتح نے جہاں ٹیم کو سیریز میں برتری دلائی وہیں انگلش کپتان بین اسٹوکس اور کوچ برینڈن مکولم کے اس گٹھ جوڑ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے جسے ‘بیزبال’ کا نام دیا گیا ہے اور جس نے ٹیسٹ کرکٹ کی شکل بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بیزبال میں کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ون ڈے انٹرنیشنل کی طرح بیٹنگ کرتے ہیں اور تیز رفتاری سے رنز بناکر مخالف ٹیم کو مشکل میں ڈالتے ہیں۔ لیکن آسٹریلوی ٹیم نے اسی طرح سے کرکٹ کھیلی جس کی بدولت انہوں نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتی اور اب ایشز میں انہیں ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔

عثمان خواجہ کی اچھی بیٹنگ، پیٹ کمنز کی حاضر دماغی

میچ کے آخری دن انگلینڈ کو سیریز میں برتری حاصل کرنے کے لیے سات وکٹیں درکار تھیں، تو تین وکٹ کے نقصان پر 107 رنز بنانے والی مہمان ٹیم کو مزید 174 رنز، پہلے بارش اور پھر گیلی آؤٹ فیلڈ کی وجہ سے پہلے سیشن کا کھیل نہیں ہو سکا جس کے بعد دو سیشن میں دونوں ٹیموں کو جیت کے لیے سخت محنت کرنا پڑی۔

نائٹ واچ مین اسکاٹ بولینڈ، جنہوں نے چوتھے دن کے اختتام تک 13 رنز بنائے تھے، اپنے اوورنائٹ اسکور میں سات رنز کا اضافہ کرکے 20 قیمتی رنز بناکر واپس پویلین چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد عثمان خواجہ کا ساتھ دینے ٹریوس ہیڈ آئے لیکن 16 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد انہیں معین علی نے آؤٹ کردیا۔

ایسے میں پہلی اننگز میں 141 رنز کی اننگز کھیلنے والے عثمان خواجہ نے ایک اینڈ سنبھالے رکھا اور 65 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی۔

انہیں جب انگلش کپتان بین اسٹوکس نے 65 کے اسکور پر بولڈ کیا تو لگ رہا تھا جیسے میزبان ٹیم کو اب فتح سے کوئی نہیں روک سکتا۔

لیکن پہلے آل راؤنڈر کیمرون گرین نے 28 اور وکٹ کیپر ایلکس کیری نے 20 رنز کی اہم اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو ہدف کے تعاقب میں اِن رکھا اور ان دونوں کے جانے کے بعد پیٹ کمنز نے آکر حالات کے مطابق بیٹنگ کی۔

جس وقت آسٹریلوی قائد وکٹ پر آئے تھے تو آسٹریلیا کو کامیابی کے لیے 72 رنز کی ضرورت تھی اور انگلش ٹیم کو تین وکٹیں درکار تھیں۔

ایسے میں ان کی 73 گیندوں پر 44 رنز کی اننگز نے نہ صرف انگلش بالرز کو پریشان کیا بلکہ آسٹریلیا کو فتح سے بھی ہم کنار کیا۔

نویں وکٹ کے لیے کپتان کے ساتھ 55 رنز کی ناقابلِ شکست شراکت کے حصہ دار نیتھن لائن نے بھی 16 قیمتی رنز بنائے اور نئی اور پرانی دونوں گیندوں کا سامنا بھی سمجھداری سے کیا۔

انگلش کپتان بین اسٹوکس کا کوئی بھی حربہ آسٹریلیا کے نچلے نمبرز پر بیٹنگ کرنے والوں پر نہیں چلا۔ مہمان ٹیم نے آٹھ وکٹ کے نقصان پر 93ویں اوور میں ہدف حاصل کرکے تاریخ رقم کرلی۔

فاسٹ بالر اسٹورٹ براڈ کی تین وکٹیں اور اولی روبنسن کے دو شکار بھی انگلینڈ کو شکست سے نہ بچاسکے۔

انگلش ٹیم کی شکست میں بڑا ہاتھ کم بیک کرنے والے وکٹ کیپر جونی بئیراسٹو کا بھی تھا جنہوں نے میچ کے دوران متعدد کیچ چھوڑے۔

آل راؤنڈر معین علی کا انجرڈ ہونا اور جیمز اینڈرسن کا فارم میں نہ ہونا بھی ان کے حق میں نہیں گیا۔

میچ کے پانچوں دن بیٹنگ کرکے انوکھا ریکارڈ بنانے والے عثمان خواجہ کو پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔

‘بیزبال کی تلاش میں انگلینڈ بیٹ بال ہار گئی’

بعض مبصرین کی رائے میں پہلی اننگز میں انگلش کپتان کی آٹھ وکٹوں پر ڈکلیئریشن کی وجہ سے ٹیم میچ ہاری جب کہ چند نے ٹیم سلیکشن کو قصوروار قرار دیا۔

لیکن اس تاریخی میچ پر زیادہ تر افراد نے آسٹریلوی ٹیم کی تعریف کی جس میں سب سے آگے آسٹریلوی وزیر اعظم اینتھونی ایلبانیز تھے۔

انہوں نے نہ صرف کپتان پیٹ کمنز اور نیتھن لائن کی ناقابل شکست شراکت کو شاندار قرار دیا بلکہ پوری ٹیم کو میچ جیتنے پر مبارک باد دی۔

معروف بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز نے بھی اس میچ پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ کی کہ اس قسم کے میچز کے لیے انہیں اپنے بچوں کا بیڈ ٹائم آگے بڑھانے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آخری گھنٹے تک میچ لے جانے پر دونوں ٹیمیں مبارک باد کی مستحق ہیں۔

سابق پاکستانی کرکٹر اور معروف کمنٹیٹر بازید خان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا نے پانچوں دن ثابت قدمی کا مظاہرہ کرکے کامیابی سمیٹی۔

انہوں نے بیزبال کے بارے میں کہا کہ اس طرز کی کرکٹ میں ہمیشہ ہار جیت کا چانس ہوتا ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر نے باقی چاروں میچز کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ انگلینڈ اپنے بالنگ آپشنز پر نظرِ ثانی کرے۔

ایک طرف صارف مفدل وہڑا کے خیال میں ‘کم بال’ نے ‘بیزبال’ کو شکست دے دی۔

تو دوسری جانب اسپورٹس صحافی عالیہ رشید کے خیال میں انگلش کپتان کا نئی گیند لینے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر تھا۔

وہ سمجھتی ہیں کہ اگر بین اسٹوکس اور جو روٹ پرانی گیند سے بالنگ کرتے رہتے تو آسٹریلوی بلے بازوں کے خلاف انہیں مزید چانسز مل سکتے تھے۔

معروف بھارتی کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے کے بقول اس میچ میں کیا ہوا، اسے بھلا کر اس بات کا جشن منانا چاہیے کہ جب یہ میچ کھیلا گیا تو آپ نے اسے دیکھا۔

کامل خان نامی صارف نے عثمان خواجہ کی پانچوں دن وکٹ پر موجودگی کو ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے بہتر پلئیر آف دی میچ کا حقدار کوئی نہیں تھا۔

صارف ساج صادق کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب دیگر کھلاڑی ڈرا کے لیے جاتے، بیٹ کمنز کا کاؤنٹر اٹیک کرکے جیت کے لیے کھیلنا ان کی ٹیم کی فتح کی وجہ بنی۔

اانگلینڈ میں شائقین نے جہاں آسٹریلیا کی معمول کے مطابق کرکٹ کو منفی ٹیکٹکس کا نام دیا، وہیں آسٹریلیا کی اسپورٹس بیٹنگ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ نے انگلش عوام سے کہا کہ وہ اپنا بیزبال اپنے پاس رکھیں، وہ اپنی ٹیکٹکس سے ایک صفر کی لیڈ پر خوش ہیں۔

کرک ٹریکر نامی اکاؤنٹ نے اپنے صارفین سے سوال کیا کہ کہیں بین اسٹوکس کا جلد بازی میں اننگز ڈکلیئر کرنا ان کی ٹیم کی شکست کا باعث تو نہیں بنا؟

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor