میری رائے

وہ نامور فن کار جنہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا

Written by ceditor

کراچی — معروف بالی وڈ اداکار سنجے دت نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ کبھی کبھی ان کے والد سنیل دت اپنے گھر کو یاد کرکے افسردہ ہوجاتے تھے، جب سنجے دت نے انہیں دلاسہ دینے کے لیے کہا کہ وہ اپنے گھر میں ہی تو بیٹھے ہیں تو سنیل دت کا جواب تھا کہ گھر تو پاکستان میں رہ گیا۔

‘مدر انڈیا’ ، ‘مجھے جینے دو’ اور ‘وقت’ جیسی کامیاب فلموں میں کام کرنے والے اداکار سنیل دت 18 برس کی عمر تک پاکستان کے شہر جہلم میں رہے۔ سن 1947 میں قیامِ پاکستان کے وقت جس طرح ان کے خاندان نے بھارت جانے کو ترجیح دی اسی طرح کئی فلمی شخصیات نے پاکستان آ کر یا بھارت جاکر آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔

اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان سے بھارت جانے کا فیصلہ کرنے والوں میں مشہور ہدایت کار بی آر چوپڑا کے ساتھ ساتھ معروف ولن پران بھی شامل تھے۔

دوسری طرف ملکہ ترنم نورجہاں اور ان کے شوہر شوکت حسین رضوی کی پاکستان آمد سے بمبئی کے کئی مسلمان اداکاروں کو حوصلہ ملا جن میں نور محمد چارلی، علاؤالدین اور سنتوش کمار شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔

آئیے چند ایسی ہی معروف فلمی شخصیات کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کرنے کی ترجیح دی۔

پاکستان چھوڑ کر بھارت ہجرت کرنے والے فن کار

معروف بھارتی اداکار پرتھوی راج کپور جنہیں بالی وڈ کے کپور خاندان کا سربراہ بھی کہا جاتا ہے۔وہ پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت گئے تھے۔ پرتھوی راج کپور 1906 میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے اورلائل پور (فیصل آباد) میں پلے بڑھے۔

انہوں نے پشاور اور لائل پور میں تعلیم حاصل کی اور اداکاری کا آغاز بھی ان ہی شہروں سے کیا۔ 18 برس کی عمر میں ان کے پشاور میں موجود آبائی گھر میں ان کے سب سے بڑے بیٹے راج کپور پیدا ہوئے۔پھرانہوں نے 22 برس کی عمر میں بمبئی جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

گو کہ پرتھوی راج کپور نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ بھارت میں گزارا لیکن پشاور میں ان کا آبائی گھر آج بھی موجود ہے۔

پرتھوی راج کپور کے پوتے اداکار رشی کپور اپنی کتاب ‘کھلم کھلا ‘میں لکھتے ہیں کہ جب 1988 میں ان کے والد راج کپور کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا تو ان کے بچپن کے دوست اداکار دلیپ کمار پشاور میں موجود تھے اور انہوں نے فوراً دہلی آکر راج کپور کو ان ہی مشہور چپلی کباب کی یاد دلاکر اٹھانے کی کوشش کی تھی جو وہ دونوں بچپن میں کھاتے تھے۔

‘جوبلی کمار’ کے نام سے مشہور ہونےو الے اداکار راجندر کمار نے اپنی کتاب ‘دی لائف اینڈ ٹائمز آف اے سپر اسٹار’ میں ہجرت کے واقع کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دادا چاجھرم تُلی نے سیالکوٹ سے بھارت جانے کے بجائے کراچی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے خاندان کو محلے والوں کی نگرانی میں بارڈر تک بھیجنے کے بعد بھی اپنے کپڑے کے کاروبار کے سلسلے میں کافی عرصہ کراچی ہی میں مقیم رہے۔

معروف اداکار پران جنہوں نے لاتعداد فلموں میں ولن کا کردار ادا کیا، اپنی کتاب ‘اینڈ پران’ میں بتاتے ہیں کہ لاہور سے ہی ان کا کریئر شروع ہوا اور اگر پاکستان نہ بنتا تو وہ لاہورمیں ہی رہتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 1947 میں ہجرت کے بعد وہ دعوتوں کے باوجودکبھی لاہور واپس نہیں گئے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس جگہ نہیں لوٹنا چاہتے تھے جہاں سے انہیں مرضی کے بغیر نکالا گیا ہو۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اگر 11 اگست 1947 کو ان کے بیٹے کی پہلی سالگرہ نہ ہوتی تو وہ شاید قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں ہی ہوتے جہاں وہ متعدد اردو اور پنجابی فلموں میں بطور ہیرو او ر ولن کام کررہے تھے۔

پران نے اس کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کےنورجہاں سمیت ان تمام اداکاروں سے روابط رہے جن کے ساتھ انہوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے کام کیا تھا۔ ایک بار تو انہوں نے ایک ہوائی سفر کے دوران پاکستانی طالبِ علموں کو تجویز بھی دی تھی کہ اگر وہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں تو نورجہاں بھارت کو دے کر، کشمیر لے لیں۔

معروف اداکار دیو آنند بھی پاکستان میں،نارووال ڈسٹرکٹ کی تحصیل شکر گڑھ میں 1923 کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں بی اے کیا تھا۔ سن 1999 میں وہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب پاکستان کے دورے پر آئے تو دیو آنند بھی ان کےہمراہ آئےاور انہوں نے اپنے کالج کا دورہ بھی کیا تھا۔

سن 1913 میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی کو ان کی فلم ‘گرم ہوا’ کی وجہ سے جانا جاتا ہےجس میں انہوں نے ایک ایسے مسلمان شخص کا کردار اد اکیا تھاجسے ہجرت نہ کرنے کے باوجود بھارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان 1973 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ان کے کریئر کی آخری فلم تھی۔

اپنی سوانح حیات ‘میری فلمی سرگزشت’ میں انہوں نے جس طرح قیام پاکستان سے قبل اپنے پرانے محلے اور والدہ کے گاؤں بھیرا کا ذکر کیا اس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں تقسیم سے کتنا دکھ پہنچا ہوگا۔ سن 1960 میں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا جس کی تفصیلات انہوں نے ‘میرا پاکستانی سفرنامہ’ میں بیان کیں۔

سنیل دت اور دیو آنند کی طرح معروف اداکار سریش اوبروئے بھی جس علاقے میں پیدا ہوئے وہ آگے جاکر پاکستان کا حصہ بنا۔ دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی اور پاکستان کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ کے مرکزی ہیرو ناصر خان نے پہلے تو پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا لیکن دو ناکام فلموں میں کام کرنے کے بعد واپس بھارت چلے گئے۔

ان کی اہلیہ اور ماضی کی مقبول اداکارہ بیگم پارہ بھی ان کے انتقال کے بعد دو سال کے لیے پاکستان منتقل ہوئیں لیکن بعد میں واپس بھارت چلی گئیں۔

ان سے قبل استاد بڑے غلام علی خان بھی ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے لیکن کچھ عرصہ نئے ملک میں گزارنے کے بعد انہوں نے واپس بھارت جانے کا فیصلہ کیا جہاں 1957 میں انہیں شہریت بھی دے دی گئی تھی۔

معروف شاعر، ہدایت کار اور مصنف گلزار جن کا اصل نام سمپورن سنگھ کالرا ہے، وہ بھی پنجاب کے علاقے جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور 1947 کے بعد بھارت ہجرت کرگئے تھے۔ سن 2013 میں انہوں نے آخری مرتبہ پاکستان کاسفر کیا تھا۔ اپنے استاد احمد ندیم قاسمی کی قبر پر حاضری دیتے ہوئے ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی جس کے بعد انہیں پہلے اسپتال اور پھر واپس ممبئی منتقل کردیا گیا تھا۔

معروف شاعر ساحر لدھیانوی اور معروف ناول نگار قراۃ العین حیدر نے قیام پاکستان کے بعد نئے ملک میں رہنے کا فیصلہ تو کیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے تنقید اور حراست سے بچنے کے لیے دونوں نے الگ الگ وقت میں واپس بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔

ساحر لدھیانوی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارت کا سب سے بڑا اعزاز ‘پدما شری’ 1971 میں اور قراۃ العین حیدر کو ‘آگ کا دریا’ جیسا کامیاب ناول لکھنے پر ‘پدما شری’ اور پدما بھوشن’ سے نوازا گیا تھا۔

بالی وڈکی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ‘شعلے’ کے ہدایت کار رمیش سپی 1947 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور بعد میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے بھارت چلے گئے۔

جب فن کاروں نے نئی مملکت میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا

پاکستانی فلموں کے سپر اسٹار اداکار سنتوش کماراور علاؤالدین نے بھی اپنے فلمی کریئر کا آغاز بمبئی سے کیا تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد نئے ملک میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جو فائدہ ملکہ ترنم نورجہاں اور ان کے شوہر شوکت حسین رضوی کی پاکستان ہجرت سے مقامی فلم انڈسٹری کو ہوا اس کو کوئی مقابلہ نہیں۔

ملکہ ترنم نورجہاں نے جب بھارت کے بجائے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت وہ بالی وڈ کی ٹاپ کی اداکارہ تھیں۔ ان کے شوہر شوکت حسین رضوی کا شمار بھی ابھرتے ہوئے ہدایت کاروں میں ہوتا تھا۔ دونوں نے پاکستان ہجرت کے بعد یہاں ‘شاہ نور اسٹوڈیوز’ کی بنیاد رکھی تھی اور نورجہاں نے بطور اداکارہ اپنے کریئر کو وہیں سے آگے بڑھایا جہاں سے بھارت میں چھوڑا تھا۔

شوکت حسین رضوی کے لیے بھارت میں ‘نوکر’ جیسی ہٹ فلم لکھنے والے سعادت حسن منٹو نے بھی تقسیم ہند کے بعد پاکستان آنے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان آکر ان کی اس قسم کی پذیرائی نہیں ہوئی جیسی بالی وڈ میں تھی۔

یہاں ان کی کہانیوں پر پابندیاں لگیں، پھر وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوئے اور آخر میں کسمپرسی کی حالت میں 42 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کی طرح جس جوڑے کی پاکستان آمد سے مقامی انڈسٹری کو فائدہ ہوا اس میں سورن لتا اور نذیر بھی شامل تھے۔ نذیر پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بانیوں میں سے ایک تو تھے ہی لیکن انہوں نے بھارت میں بھی اس وقت فلمیں بنائیں جب وہاں انڈسٹری کا کوئی وجود نہیں تھا۔

اداکار، ہدایت کار و فلم ساز نذیر کے بارے میں فلمی صحافی علی سفیان آفاقی لکھتے ہیں کہ ہجرت کرکے آنے والے دیگر فلم سازوں کے برعکس نذیر بےسروسامانی کی حالت میں پاکستان نہیں آئے۔ 1948 میں اپنی فلم بناکر پیش کرنے والے فلم ساز نے اپنے اثاثے بھارت میں چھوڑنے کے بجائے انہیں فروخت کرکے سرمایہ جمع کیا جسے انہوں نے اپنی فلموں میں لگا کر پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دی۔

ان کی اہلیہ سورن لتا نے بھی 1940 کی دہائی میں لاتعداد ہٹ فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور پاکستان ہجرت کے بعد بھی کئی برسوں تک اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ وہ پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم ‘پھیرے’ کی مرکزی ہیروئن تھیں جب کہ ‘نورِ اسلام’ میں ان کے کام کو بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا بھی قیام پاکستان سے قبل بالی وڈ میں رینوکا دیوی کے نام سے کئی فلموں میں بطور ہیروئن کام کرچکی تھیں۔ اپنی آپ بیتی ‘اے وومن آف سبسٹینس’ میں انہوں نے نہ صرف بھارت میں گزرنے والے اپنے بچپن کا ذکر کیا بلکہ فلموں میں کام کرنے اور پھر کنارہ کشی اختیار کرنے پر بھی بات کی۔

فلموں میں انٹری کے حوالے سے لکھتے ہوئے انہوں نے بمبئی ٹاکیز کی مالکن دیوکا رانی اور ان کے شوہر ہمنسو رائے کا ذکر کیا جنہوں نے ان کے شوہر اکبر کو فلم میں کام کرنے سے متعلق قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ قیام پاکستان سے قبل انہوں نے اداکاری کو خیرباد کہہ دیا تھا کیوں کہ اس کا اثر ان کی گھریلو زندگی پر پڑ رہا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ انہوں نے 1947میں ہونے والے فسادات میں پرتھوی راج کپور کے پشاور میں موجود آبائی گھر کی رکھوالی کرنے پر اپنے رشتہ داروں کا ذکر بھی کیا جن کا 1953 میں ان کے دورہ بھارت پر پرتھوی راج ، ان کے والد اور خالہ کوشیلا نے بذات خود شکریہ ادا کیا۔

معروف مزاحیہ اداکار اور بھارت کے پہلے کامیڈین اسٹار نور محمد چارلی جنہوں نے 1930 اور 1940 کی دہائی میں بھارت میں خوب نام کمایا، سن 1947 میں انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا لیکن چند فلموں کے علاوہ ان کی زیادہ تر فلمیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ 1960 میں وہ واپس بھارت چلے گئے جہاں انہوں نے تین فلموں میں کام کیا۔ لیکن جب انہیں بھارتی شہریت نہیں ملی تو وہ امریکہ چلے گئے۔

اپنے انتقال سے قبل وہ کراچی میں گمنامی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ ان کے بیٹے لطیف چارلی نے پاکستان میں ‘دوراہا’ سمیت متعدد فلموں میں کام کیا جب کہ ٹی وی کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ اس وقت نور محمد چارلی کے پوتے ڈینو علی بھی بطور آر جے شوبز سے وابستہ ہیں۔

اس کے علاو اگر موسیقاروں کی بات کی جائے تو بمبئی سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے فیروز نظامی، غلام حیدر ، ماسٹر عنایت حسین اور غلام احمد چشتی نے 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ خواجہ خورشید انور 1952 جب کہ شوکت علی ہاشمی عرف ناشاد اور نثار بزمی 60 کی دہائی میں پاکستان آئے اور اپنے ساتھ کئی برسوں کا تجربہ بھی لائے۔

بابا جے اے چشتی کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے 1935 میں نو سالہ نورجہاں کو اسٹیج پر متعارف کرایا تھا جب کہ ان کے ہم عصر غلام حیدر نے بھی پاکستان آکر کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی، لیکن زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے ۔

اس کے برعکس خواجہ خورشید انور اور ماسٹر عنایت حسین نے متعدد فلموں کی موسیقی ترتیب دی ۔ خواجہ خورشید انور نے تو موسیقی کے ساتھ ساتھ فلم سازی میں بھی قدم رکھا اور ‘گھونگھٹ’ اور ‘ہمراز’ جیسی ہٹ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔

دوسری جانب ناشاد نے 60 اور 70 کی دہائی میں لاتعداد ہٹ فلمیں دیں اور ان کے بیٹے واجد علی ناشاد اور پوتے نوید ناشاد آج بھی اس فیلڈ سے منسلک ہیں۔ نثار بزمی نے بھی 30 سال کے دوران لاتعداد فلمی اور ملی نغمے کمپوز کیے جو لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔

نورجہاں کی طرح روشن آرا بیگم اور ملکہ پکھراج نے بھی تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ملکہ پکھراج کو ریڈیو پاکستان کی وجہ خاصی شہرت ملی۔ ان کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ آج بھی مقبول ہے۔

ملکہ موسیقی کا خطاب پانے والی روشن آرا بیگم ہجرت کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ لالہ موسیٰ منتقل ہوگئی تھیں لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ان کا ناطہ آخری دم تک قائم رہا۔

مشہور بھارتی فلم ‘مغلِ اعظم ‘ کے پہلے پروڈیوسر شیزار علی حکیم اور پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی پہلی فلم ‘بانو’ کے ہدایت کار و ڈبلیو زیڈ احمد بھی بھارت میں فلمیں بنانے کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد پاکستان آئے۔ بمبئی کے ‘فیمس اسٹوڈیو’ کے مالک شیراز علی حکیم نے ہجرت کے بعد فلم ڈسٹری بیوشن کے شعبے کو اپنایا جب کہ ڈبلیو زیڈ احمد نے صرف دو فلمیں بنائیں اور ایک اسٹوڈیو بھی قائم کیا۔

وہ فن کار جن کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے

معروف اداکار دلیپ کمار جن کا اصلی نام یوسف خان تھا ان کی پیدائش تو پشاور کی تھی لیکن 1940 میں وہ نوکری کے سلسلے میں پونا چلےگئے تھےجہاں سے انہوں نے آگے جاکر بمبئی کی فلمی دنیا میں قدم رکھا۔

ان کا بچپن پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گزرا جہاں وہ اور راج کپورایک ساتھ بڑے ہوئے تھے۔ معروف اداکار انیل کپور کے والد سریندر کپور بھی راج کپور کے رشتہ دار تھے اور پشاور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انیل کپور متعدد انٹرویوز میں پشاور آکر اپنا آبائی گھر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔

بالی وڈ کے اداکار امیتابھ بچن نے بھی ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی والدہ تیجی بچن لائل پور میں پیدا ہوئی تھیں جو اب فیصل آباد ہے۔ کہتے ہیں کہ امیتابھ بچن کے والدین کی پہلی ملاقات بھی لاہور میں ہوئی تھی جہاں ان کے والد الہ باد یونیورسٹی کی جانب سے ایک ایونٹ میں شرکت کرنے آئے تھے۔

اسی اور نوے کی دہائی میں کئی ہٹ فلمیں دینے والے مزاحیہ اداکار گووندا کے والد ارن کمار اہوجا بھی گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ممبئی منتقل ہوئے جہاں گوندا پیدا ہوئے۔

اسی طرح معروف اداکار اوم پوری کے والد بھی برطانوی فوج میں سپاہی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں کئی انٹرویوز میں راولپنڈی جانے کی خواہش کی جہاں ان کے والد تعینات تھے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor