کراچی —
پاکستان میں ان دنوں عوام کی تفریحی کے لیے ٹیلی ویژن پر بے شمار ڈرامے اور پروگرامز دکھائے جا رہے ہیں۔ لیکن ڈرامہ ہو یا کوئی گیم شو ان کا معیار ماضی کی نسبت بہت مختلف ہے۔
پاکستان میں اگر ٹیلی ویژن کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ساٹھ کی دہائی سے نوے کے آخر تک سرکاری ٹی وی ‘پی ٹی وی’ ہی معلومات اور تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔
عبیداللہ بیگ اور قریش پور مرحوم کی جوڑی کا نوے کی دہائی میں غازی صلاح الدین کے ساتھ ‘کسوٹی’ اور اس جیسے پروگرام کرنا، ضیا محی الدین کے ٹاک شوز، طارق عزیز کا چار دہائیوں تک ‘نیلام گھر’ جب کہ نعیم بخاری کے بحث و مباحثے سے بھرپور پروگرام۔ ان سب سے نہ صرف پاکستان کے عوام کو تفریح مہیا ہوتی تھی بلکہ کچھ سیکھنے کو بھی ملتا تھا۔
اگر موجودہ پاکستانی میڈیا کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو یہ قدرے مختلف ہے۔
نامور شاعر، دانشور اور پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف معلوماتی پروگرام ‘کسوٹی’ کی ٹیم کا حصہ رہنے والے افتخار عارف کہتے ہیں جب تک پاکستان ٹیلی ویژن پر چھ گھنٹے کی نشریات چلتی تھیں تب تک اس کا معیار بھی اعلیٰ تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افتخار عارف نے بتایا کہ چاہے سائنس پر لئیق احمد کا پروگرام ہو، حالات حاضرہ میں فرہاد زیدی یا جاوید جبار کی میزبانی میں شو، لوگوں کو معلومات فراہم کی جاتی رہتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اُس زمانے میں ڈاکومینٹریز بنا اور چلا کرتی تھیں اور ہم نے کسوٹی، شیشے کا گھر اور دیگر شوز کے ذریعے لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی۔
افتخار عارف نے کہا کہ اُس وقت پرائم ٹائم رات آٹھ سے نو بجے کو کہتے تھے اور پروگرام کنٹرولرز پر منحصر تھا کہ وہ کس طرح شیڈول مرتب کریں۔ وہاں نہ صرف کامیڈی پروگرام ہوتے تھے بلکہ ایک فل لینگتھ ڈرامہ بھی ہوتا تھا جب کہ خبرنامے کے بعد موسیقی کا پروگرام بھی چلتا تھا اور رات میں ایک انگریزی فلم بھی ہوتی تھی جس کا لوگ بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔
افتخار عارف کے بقول، "آج کل تو کرنٹ افیئرز کے نام پر بحث کم اور کُشتیاں زیادہ ہوتی ہیں، لوگوں کو سوچنے کے بجائے بتانے کا رواج ہے کیوں کہ چھ بجے کی خبروں کے بعد جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے اور اس میں آپ کو سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ 24 گھنٹے کے پروگرامز میں پانچ سے دس فی صد بھی پروگرام ایسے نہیں جو ‘نالج بیسڈ’ ہوں یا جو ‘کری ایٹیو تھنکنگ’ یعنی تخلیقی سوچ کا مواد فراہم کریں۔
افتخار عارف کے مطابق پورا ریٹنگ سسٹم نیوز پر مبنی پروگراموں کے گرد گھومتا ہے جسے کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹی وی پر سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں یہاں تک کہ کچھ صحافیوں کو بھی، بقول ان کے، پے رول پر رکھا ہوا ہے جو لیفٹ رائٹ نظر آنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن یہ، ان کے مطابق، سب کسی نہ کسی کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں اور ناظرین کا آئی کیو لیول خراب کرنے میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔
ڈراموں کے حوالے سے افتخار عارف کا کہنا ہے کہ پہلے ڈرامہ لکھنے کے لیے خواجہ معین الدین، علی احمد، سلیم احمد، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انتطار حسین، شوکت صدیقی، منو بھائی، حمید کاشمیری، حسینہ معین، انور سجاد، منشا یاد جیسے ادیب آتے تھے لیکن اب جیسے ڈرامے آتے ہیں ان کے بارے میں سوچ کر دل خراب ہوتا ہے۔
پاکستان ٹی وی پر یہ زوال ایک دم سے نہیں آیا: خالد انعم
پاکستان کے مشہور اداکار گلوکار اور درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے خالد انعم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا کو جاپانی ڈش سوشی سے تشبیح دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ جاپان جائیں اور آپ کو سوشی پسند نہ ہو تو یہ آہستہ آہستہ کھاتے کھاتے پسند آ جائے گی۔ اس کے بعد آپ کو بریانی بھی اچھی نہیں لگے گی۔ ان کے بقول وہی حال ہمارے ٹی وی کا ہے، جو ناظرین کو دکھائیں گے وہی انہیں پسند آنے لگے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹی وی پر یہ زوال ایک دم سے نہیں آیا بلکہ یہ ‘سلو پوائزننگ’ کی طرح ہے اور آہستہ آہستہ آیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کے بقول نااہل لوگوں کو ایسی جگہ پر پہنچا دینا ہے جہاں ان کا کوئی کام نہیں ہوتا۔
خالد انعم کہتے ہیں میڈیا کا کام لوگوں کو چوبیس گھنٹے آئینہ دکھانا ہوتا ہے اگر اس کی ٹاپ پوزیشن پر ایک اچھا شخص بیٹھے گا تو اچھا کام دکھائے گا، بزنس مین بیٹھے گا تو بزنس دکھائے گا اور آرٹسٹ بیٹھے گا تو آرٹسٹری ہی دکھائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ایک چینل نے بچے بٹھانا شروع کیے تو دوسرا بھی بٹھائے گا اور تیسرا بھی، یہ سوچے بغیر کہ کیا یہ بچوں کے بچپنے کو خراب کرنے کا صحیح وقت ہے؟ اس طرح کے کام چائلڈ لیبر میں شمار ہوتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
‘پہلے ادیبوں سے ادب پر بات ہوتی تھی، اب انتقال پر صرف ایک ٹکر چل جاتا ہے’
نامور شاعر اور دانشور افتخار عارف کہتے ہیں پہلے ٹی وی پر معلوماتِ عامہ کے کئی پروگرامز ہوا کرتے تھے لیکن اب اس کا رواج تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
ان کے بقول پہلے کے پروگراموں میں ادب پر ادیبوں سے بات ہوتی تھی لیکن اب تو ان کے انتقال پر صرف ایک لائن چل جاتی ہے کہ فلاں صاحب فلاں جگہ انتقال کر گئے۔
معروف شاعر اور پانچ سال تک ‘نیلام گھر’ پروڈیوس کرنے والے سینئر پروڈیوسر ایوب خاور کا کہنا ہے کہ میزبان طارق عزیز کا ایک شاعر ہونا اور ہزاروں کی تعداد میں اشعار یاد ہونا اس پروگرام کے بیت بازی مقابلوں کو سب سے الگ بناتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان میں نشر ہونے والے ایک شو میں میزبان ساحر لودھی کا شاعر جون ایلیا کی تصحیح کرنا ایک مضحکہ خیز بات ہے اور ایسا صرف ہمارے ٹی وی پر ہی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ رمضان شو کے دوران میزبان ساحر لودھی نے بیت بازی کے مقابلے میں جون ایلیا کے ایک شعر کو غلط قرار دیا تھا۔
اس ضمن میں سینئر پروڈیوسر ایوب خاور نے کہا کہ ہر شاعر کا ایک اپنا انداز ہوتا ہے چاہے وہ شعر کہنے کا ہو یا شعر لکھنے کا۔ اب علامہ اقبال کا شعر خود بتاتا ہے کہ وہ اقبال کا شعر ہے اور دیگر شعراء کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول نیلام گھر میں جو لوگ شرکت کرتے تھے انہیں تو شعر و شاعری سے دلچسپی ہوتی تھی جب کہ ہمارے میزبان طارق عزیز کی مہارت اس میں ہمارا کام آسان کر دیتی تھی۔ ہمیں نہ کسی جج کی ضرورت ہوتی تھی، نہ ہی کوئی بدمزگی بلکہ بعض اوقات تو وہ خود ہی شعر کی اصلاح بھی کر دیا کرتے تھے۔
سینئر پروڈیوسر ایوب خاور کا کہنا ہے کہ آج کل بیت بازی کے سیگمنٹ میں میزبان اور ججز سے زیادہ شرکا کو معلوم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب کسی بھی پروڈکشن کی کامیابی کا معیار کوالٹی سے نہیں بلکہ ریٹنگ سے طے کیا جاتا ہے۔