اسپورٹس

پاکستان کرکٹ ٹیم کی ریکارڈ فتح لیکن کارکردگی پر مسلسل سوالیہ نشان

Written by Omair Alavi

کراچی — 

کرونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے سنیما نئی فلمیں ریلیز نہ ہونے اور مختلف ملکوں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں فلم میکرز اسٹریمنگ سروسز سے معاہدے کر کے اپنی سرمایہ کاری بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

بہت سے پروڈیوسرز اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اپنی فلم اسٹریمنگ سروس کو دیں یا ویکسین عام ہونے کے بعد تک کا انتظار کریں تاکہ اسے سنیماؤں میں ریلیز کیا جاسکے۔

متعدد ہالی وڈ فلم میکرز نے اپنی فلموں کی ریلیز آگے بڑھا دی ہے تاکہ جب سنیما کھلیں تو شائقین ان کی فلمیں تھیٹر میں دیکھ سکیں۔

بعض پروڈیوسرز نے اسٹریمنگ سروسز کے ساتھ معاہدے کر لیے ہیں تاکہ اگر سنیما وقت پر نہ کھلے تو اُن کی فلم شائقین تک ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے پہنچ جائے۔

جلد ہی زیک اسنائیڈر کی ‘جسٹس لیگ’ ایچ بی او میکس پر ریلیز ہو گی جب کہ ‘ونڈر وومن’ کا سیکوئل گزشتہ دسمبر میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی زینت بن چکا ہے۔

سابق کپتان راشد لطیف اپنے بے باک تبصروں کی وجہ سے لوگوں میں بے حد مقبول ہیں، انہوں نے سو ٹی ٹوئنٹی میچز جیتنے پر پاکستان کرکٹ ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔

اُدھر نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ٹیم کی قیادت کرنے والے شاداب خان نے بھی قومی ٹیم کی اس تاریخی کامیابی پر ساتھی کھلاڑیوں کی تعریف کی۔

جیت گئے تو سب سے اچھے، ہار گئے تو سب سے خراب!

لاہور میں کھیلا گیا سیریز کا پہلا میچ پاکستان نے محمد رضوان کی سینچری کی بدولت جیتا۔ لیکن دوسرے میچ میں پاکستان ٹیم کے بلے باز اور بالرز آف کلر دکھائی دیے اور جیت جنوبی افریقہ کے نام رہی۔

سیریز کے تیسرے اور آخری میچ میں میزبان ٹیم نے ایک موقع پر مہمان ٹیم کے 7 کھلاڑی صرف 65 رنز پر آؤٹ کر دیے تھے لیکن پھر بابر اعظم کی نہ سمجھ میں آنے والی کپتانی اور آخری اوور میں ناقص فیلڈنگ کی وجہ سے مہمان ٹیم آٹھ وکٹ کے نقصان پر 164 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئی۔

پاکستان ٹیم کے مداحوں نے پہلی اننگز کے اختتام پر ٹیم کی کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن سابق ٹیسٹ کرکٹر یاسر عرفات کا کہنا ہے کہ مداحوں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، اپنی ٹیم کی جیت پر اسے دنیا کی بہترین ٹیم قرار دینے والے خراب کارکردگی پر سب کچھ بھلا دیتے ہیں، جس سے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یاسر عرفات کا کہنا تھا کہ لوگوں کا مزاج بن چکا ہے کہ ٹیم اچھا کرتی ہے تو کھلاڑیوں کی تعریف ہوتی ہے اور اُنہیں آسمان کی بلندیوں پر لے جایا جاتا ہے لیکن اگر وہی کھلاڑی اچھا نہیں کرتے تو سوشل میڈیا پر ان کی تضحیک شروع ہو جاتی ہے۔

ان کے بقول اگر تنقید کرنا ہی ہے تو ٹیم مینیجمنٹ پر ہونے چاہیے جو کھلاڑیوں کے انتخاب اور انہیں نظرانداز کرنے کی ذمہ دار ہے۔

یاسر کہتے ہیں جو ماحول کھلاڑیوں کو سیکھنے کے لیے ملنا چاہیے وہ کوچنگ اسٹاف اور سلیکٹرز کی طرف سے آتا ہے۔ یہی کھلاڑی پاکستان سپر لیگ جیسے ایونٹس میں شیروں کی طرح دلیری سے کھیلتے ہیں، جب تک ہم اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ نہیں کریں گے، وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھا سکیں گے۔

کیا بابر اعظم کی حکمت عملی کپتانی کے بوجھ تلے دب رہی ہے؟

اتوار کو کھیلے گئے میچ میں ایک موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ میزبان ٹیم جنوبی افریقہ سے میچ ہار جائے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کپتان بابر اعظم کا وکٹیں لینے والے اسپنرز کی جگہ فاسٹ بالرز پر انحصار تھا، جن کی مہمان کھلاڑی ڈیوڈ ملر نے خوب درگت بنائی۔

یاسر عرفات کی رائے میں بابر اعظم کی بیٹنگ کپتانی کے بوجھ کہ وجہ سے متاثر ہو رہی ہے تاہم انہیں تھوڑا وقت دینے کی ضرورت ہے۔

اُن کے بقول جس طرح بابر کا شمار دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح آگے جا کر ان کی کپتانی میں بھی نکھار آ جائے گا۔

یاسر عرفات کہتے ہیں جب پاکستان ٹیم تین اسپنرز کے ساتھ میدان میں اتری تھی اور وہ اچھی بالنگ بھی کر رہے تھے تو پھر ان سے پورے اوورز کروانے چاہیے تھے۔ اسپنرز کے چار چار اوورز اگر مڈل میں ختم کروا دیے جاتے تو آخری اوور یا تو شاہین شاہ آفریدی کو ملتا یا حسن علی کو۔ لیکن اوورز کی کیلکولیشن میں بابر اعظم سے غلطی ہو گئی۔

کیا کپتان بابر اعظم کو نمبر تین پر ہی بیٹنگ کرنا چاہیے؟

"ٹیسٹ کرکٹ کے برعکس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کپتان کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے، شاید اسی لئے بابر اعظم نے اننگز کا آغاز کرنے کے بجائے نمبر تین پر آنے کو ترجیح دی”۔ یہ کہنا تھا یاسر عرفات کا جن کا شمار کافی عرصے تک انگلینڈ کی ٹی ٹوئنٹی سرکٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا تھا۔

پاکستان نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر 100 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔
پاکستان نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر 100 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘بابر اعظم کا خود کو نمبر تین پر بھیجنے کا فیصلہ آج درست ثابت ہوا، کیوں کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کپتان کے پاس بالنگ چینجز کرنا، فیلڈنگ سیٹ کرنا، ٹارگٹ کو زیادہ نہ بڑھنے دینا جیسی مختلف ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ دونوں اننگز کے درمیان وقفہ بھی کم ہوتا ہے اس لیے انہوں نے پلان بنا کر حیدر علی کو اننگز کا آغاز کرنے بھیجا۔

ان کے بقول سب کو نظر آرہا ہے کہ بابر اعظم کی بیٹنگ پر کپتانی کے بوجھ کی وجہ سے فرق تو پڑ رہا ہے لیکن ایک اچھی اننگز کے بعد وہ واپس اپنے ردھم میں واپس آجائیں گے۔

آخری میچ میں حسن علی نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟

ایک طرف نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے پہلے ٹیسٹ اور بعد میں ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں کئی ایسے کھلاڑیوں کو شامل کیا جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا پرفارم کیا۔ لیکن جہاں نئے کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی دکھائی وہیں ہمیشہ مایوس کرنے والوں نے ایک بار پھر وہی کیا جو اکثر کرتے ہیں۔

تین میچز میں حیدر علی نے ٹاپ آرڈر پر 46 رنز تو بنائے لیکن ان سے بہتر کی توقع تھی۔ اسی طرح حسین طلعت کو ایک میچ میں غلط آؤٹ دیا گیا لیکن پھر بھی تین میچز میں وہ مجموعی طور پر صرف 15 رنز ہی بنا سکے۔

دو میچز میں خوشدل شاہ نے 27، افتخار احمد نے 24 اور ایک میچ میں آصف علی نے سات رنز اسکور کیے۔ تین میچز کے بعد ٹیم کے مجموعی 483 رنز میں سے 197 رنز صرف محمد رضوان نے اسکور کیے۔

بالنگ میں بھی حارث روؤف نے دو میچز میں وکٹیں تو لیں لیکن وہاب ریاض کی طرح مجموعی طور پر چھ اوورز میں 11.66 کی اوسط سے 70 رنز دے کر کپتان تک کو پریشانی میں ڈال دیا۔

تیسرے اور آخری میچ کے آخری اوور میں چار چھکے کھانے والے فہیم اشرف نے تین میچز میں 11.5 کی اوسط سے 92 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی۔ شاہین شاہ آفریدی بھی تین میچز میں تھکے تھکے نظر آئے اور 11 اوورز میں انہوں نے 7.54 کی اوسط سے 83 رنز دے کر صرف دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

ایسے میں حسن علی کا ایک ہی میچ میں دو وکٹیں لینا، عثمان قادر کا تین میچز میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا، محمد نواز کا سیریز میں تین کھلاڑیوں کو 6.1 کی اوسط سے آؤٹ کرنا اور زاہد محمود کا ڈیبیو پر تین کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیجنا پاکستان کے کام آگیا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔