کراچی —
ترکی کا مشہور ڈرامہ ‘ارطغرل غازی’ رواں برس رمضان کے مہینے میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے نشر ہوا تو اسے بے حد پذیرائی ملی۔ لیکن ڈرامہ انڈسٹری سے منسلک ماہرین کے مطابق اس طرح کے ڈرامے بھاری سرمائے سے بنتے ہیں جس میں تاریخ، کہانی، کردار اور پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے نہ صرف ترک نشریاتی ادارے ‘ٹی آر ٹی’ کے اس ڈرامے کو اردو میں ڈب کر کے لوگوں تک پہنچایا بلکہ دونوں اداروں کے مشترکہ یوٹیوب چینل نے مقبولیت کے بھی ریکارڈز قائم کر دیے ہیں۔
جہاں چند اداکاروں کو اس ڈرامے کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے پر تشویش ہے۔ وہیں کئی نے اسے پی ٹی وی کے لیے ایک اچھا قدم قرار دیا ہے۔
لیکن بعض ناقدین اسے صدیوں پہلے ہونے والی صلیبی جنگوں کو ایک بار پھر چھیڑنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ڈرامے کئی ملکوں اور ان کے باشندوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستانی ڈرامہ مصنف مصطفیٰ آفریدی کہتے ہیں کہ تاریخی ڈرامہ نفرت کے بغیر نہیں چلتا اور نفرت سے بھرپور ہو گا تو اسے دیکھا جائے گا۔ ارطغرل غازی اور اس طرح کے باقی تمام ڈرامے خواب خیال کی دنیا میں ہیں، چوں کہ وہ نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں اس لیے چل رہے ہیں۔
اُن کے بقول ترک ڈرامے میں دکھائی گئی جنگیں جس زمانے میں ہوئیں، اُس وقت فاصلوں کی وجہ سے دنیا مختلف حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ البتہ موجودہ دور میں امریکہ، یورپ اور برِ صغیر میں مسلم، ہندو، عیسائی سب ایک ہو کر رہ رہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور پروڈیوسر کاظم پاشا کے مطابق ‘ارطغرل غازی’ میں ترکی کی تاریخ دکھائی گئی ہے۔ اس لیے وہ یورپ کے خطے میں زیادہ مقبول ہوا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں مسلمان اور مسیحی جنگوں سے نبرد آزما ہوئے۔
ان کے بقول ‘ارطغرل غازی’ میں مسلمانوں اور مسیحوں کا جو تنازع دکھایا گیا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پڑھنے سے زیادہ ویژول کا ہمیشہ اثر رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سیریل وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ مسلم دنیا زوال کا شکار ہے۔
کاظم پاشا نے مزید کہا کہ جس علاقے کی یہ کہانی ہے، اس کے لوگوں کی نظر سے دیکھیں تو یہ ڈرامہ اس وقت پسند کیا جا رہا ہے جب مسلم دنیا انتشار کا شکار ہے۔ ان کے دلوں اور ذہنوں میں اس ڈرامے سے جو ولولہ پیدا ہو گا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔
پاکستان میں تاریخی ڈرامے کیوں نہیں بن رہے؟
پاکستان میں تاریخی ڈرامے نہ بننے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کاظم پاشا کہتے ہیں کہ عام ڈراموں کے مقابلے میں تاریخی ڈرامے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ٹی وی چینلز ان دنوں روایتی ڈراموں پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔
ان کے بقول جب حکومت اور اسپانسرز آپ کے ساتھ ہوں تو ‘ارطغرل’ جیسے ڈرامے بنائے بھی جا سکتے ہیں اور مقبول بھی ہوتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسّی کی دہائی میں ‘تاریخ و تمثیل’ نامی سیریز میں شیر شاہ سوری پر ڈرامہ بنایا گیا تھا جس پر کافی خرچہ آیا تھا۔ تاریخی ڈراموں کا نام سنتے ہی اسپانسر غائب ہو جاتے ہیں شاید اسی وجہ سے اس طرح کے ڈرامے بنانے میں چینلز کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار نامور ہدایت کار احتشام الدین نے بھی کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ارطغرل’ جیسے ڈرامے پاکستان میں کامیاب تو ہو سکتے ہیں لیکن اس کی پروڈکشن پر جو اخراجات آئیں گے، ان کے بارے میں سوچ کر ہی پروڈیوسر ڈرامہ بنانے کا خیال ترک کر دیتے ہیں۔
احتشام الدین نے ‘پارٹیشن اسٹوریز’ کے نام سے ایک سیریز کی ہدایت کاری کی تھی جس میں 1947 کے لگ بھگ کا زمانہ دکھایا گیا تھا۔
اُن کے مطابق 70 سال پہلے کا زمانہ دکھانا قدرِ کم مشکل ہے لیکن 500 سے 700 سال پرانا زمانہ دکھانا بہت زیادہ مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ‘ٹیپو سلطان’ کے بعد پی ٹی وی نے کوئی بڑا تاریخی ڈرامہ نہیں بنایا۔”
ہدایت کار احتشام الدین کے مطابق ترکی نے پرائیوٹ انویسٹرز کے ساتھ مل کر ‘ارطغرل غازی’ سیریز بنائی۔ دنیا بھر سے لوگوں نے آ کر اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ عالمی سطح کے ڈرامے بنانے کے لیے یہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مصنف مصطفیٰ آفریدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی ڈرامہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیوں کہ آپ کو اس زمانے کے حساب سے پہلے ماحول بنانا پڑتا ہے، پھر اسکرپٹ لکھتے ہوئے خیال رکھنا ہوتا ہے کہ زبان بھی اسی زمانے کی ہو، کردار بھی، اور ایکشن بھی۔
ان کے بقول مصنف کے ساتھ ساتھ ہدایت کار کو بھی تحقیق کرنا ہوتی ہے تاکہ ڈرامے میں حقیقت کے قریب تر رہیں۔
‘پروپیگنڈے کے بغیر ڈرامہ مقبول نہیں ہو سکتا’
مصطفیٰ آفریدی کہتے ہیں کہ جب تک کہانی کے اندر کوئی ایسا پروپیگنڈا نہ ہو جو آپ کو حیرت زدہ کر دے تو وہ ڈرامہ مقبول ہی نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ڈرامے جس میں ماضی کی عظمت کی کہانیاں بیان ہوتی ہیں یا جن میں نفرت کا پر چار ہو گا وہی ہٹ بھی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ڈراموں میں ماضی کی حقیقت بیان کی جائیں ایسے ڈرامے نہیں چلتے۔
ترک ڈرامے ‘ارطغرل غازی’ کی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے مصطفیٰ آفریدی نے کہا کہ یہ 600 سال پرانی کہانی تو ہے لیکن ہمارے بزرگوں کی نہیں ہے۔ جن لوگوں کی یہ کہانی ہے ان کے ہاں روایت تھی کہ جب کوئی بادشاہ بنتا تھا تو اس کے تمام بھائیوں کو اس کے سامنے قتل کر دیا جاتا تھا۔ بادشاہ روتا بھی تھا لیکن حکم بھی دیتا تھا کہ مار دو۔ کیا ہمارے بزرگ ایسے تھے؟ ہرگز نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘تحریک خلافت’ کے وقت اگر ہمارے بڑوں کو پتہ ہوتا کہ ارطغرل کے خاندانی محلات کی چھتوں پر کتنے ٹن سونا لگا ہوا ہے تو وہ کبھی اپنی عورتوں کو خلافت پچانے کے لیے زیورات نہ دینے دیتے۔
ہدایت کار احتشام الدین کے مطابق اگر ہم چاہیں تو ‘ارطغرل غازی’ کے ماڈل سے سیکھ سکتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ عوام اس قسم کے ڈرامے دیکھیں تو اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔