کراچی —
پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش اور ڈراموں کا تذکرہ اور بحث ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں تو فوراً کچھ حلقوں کی جانب سے بھارتی فلموں اور ڈراموں کی بندش کے لیے آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ بھارت میں بھی پاکستانی ڈراموں کے حوالے سے کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔
بھارت میں پاکستانی ڈراموں کی گونج ماضی قریب کا ہی واقعہ ہے۔ بھارت کی ایک معروف میڈیا کمپنی ‘زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز’ نے 2014 میں اپنے ٹی وی چینل ‘زی زندگی’ پر پاکستانی ڈرامے نشر کرنا شروع کیے تھے جو بھارتی شائقین میں خاصے مقبول بھی ہوئے تھے۔
لیکن پھر 2016 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اُڑی حملے کا واقعہ ہوا تو کمپنی نے اپنے چینل سے پاکستانی ڈرامے نشر کرنے پر پابندی لگا دی اور سارا مواد بھی ہٹا دیا۔ یوں ‘زی زندگی’ کا چلتا ہوا برانڈ دونوں ممالک کے خراب تعلقات کی بھینٹ چڑھ گیا۔
سن 2016 کے بعد سے ‘زی زندگی’ سے پاکستانی مواد غائب رہا۔ اس دوران ‘زی زندگی’ ٹی وی چینل سے آن لائن اسٹریمنگ ایپ میں بدلا اور اب اس کا سارا مواد ‘زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز’ کی ہی ایک اور ویڈیو اسٹریمنگ سروس ‘زی فائیو’ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
‘زی فائیو’ میں شامل کیے جانے والے مواد میں متعدد پاکستانی ڈرامے بھی شامل ہیں جو ‘زی زندگی’ پر نشر کیے گئے تھے۔ گویا پاکستانی ڈراموں نے 2016 کے بعد سے بھارتی مارکیٹ میں دوبارہ انٹری کی ہے۔ اس کے علاوہ ‘زی زندگی’ کے پلیٹ فارم کے تحت پاکستان کی پانچ اوریجنل ویب سیریز بھی نشر ہونے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے اس دور میں ‘زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز’ نے اپنے طور پر تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور پرانے ٹی وی ڈراموں کے ساتھ نئے اوریجنل مواد پر بھی کام شروع کیا۔ ایسا کرنے میں ان کی مدد پاکستانی ادارے ‘موشن کانٹینٹ گروپ’ نے بھی کی جس کی وجہ سے ‘زی فائیو’ کے ذریعے ‘زی زندگی’ برانڈ دوبارہ لانچ کیا جا رہا ہے۔
اس معاملے پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ‘زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز لمیٹڈ’ کے اسپیشل پروجیکٹس کی چیف کری ایٹو افسر شیلجا کیجری وال نے کہا کہ آرٹ وہ واحد طاقت ہے جس کے ذریعے معاشرے کی تربیت بھی کی جاتی ہے اور اسے بدلا بھی جا سکتا ہے۔
شیلجا کیجری وال نے کہا کہ ‘زی زندگی’ کے پلیٹ فارم کے تحت ہمارا ماننا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات جیسے بھی ہوں، اس سے ہمارا مؤقف تبدیل نہیں ہوتا۔ اسی مؤقف اور پاکستانی کانٹینٹ کی دنیا بھر میں مانگ کو دیکھتے ہوئے ہم نے ‘زی زندگی’ کو دوبارہ لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
شیلجا کیجری وال کے بقول، "اس وقت دنیا کے تمام ملکوں کو کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے لیکن تمام ممالک اس وبا کی وجہ سے ایک پیج پر ہیں۔ یہ بہترین موقع تھا کہ ان مشکل حالات میں ‘زی زندگی’ کی واپسی ہو۔ اس نازک موڑ پر ہمیں ایک دوسرے کی کہانیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔”
ان کا کہنا تھا کہ اچھی کہانیوں کا فیشن کبھی نہیں جاتا اور دنیا بھر میں ان کی مانگ میں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ اس پروجیکٹ میں ہمارا سب سے زیادہ ساتھ پاکستانی براڈکاسٹر ‘موشن کانٹینٹ گروپ’ کے عتیق الرحمان نے دیا جن کی مدد کی وجہ سے ہم اوریجنل کانٹینٹ بنانے میں کامیاب ہوئے۔
کیا زی فائیو پاکستان میں نیٹ فلکس اور ایمیزون کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے؟
زی انٹرٹینمنٹ کی ایپ ‘زی فائیو’ پاکستان میں بھی سروسز فراہم کر رہی ہے۔ ‘زی فائیو’ کی پاکستان میں مقبولیت سے جہاں نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی وہیں دیگر آن لائن ویڈیو اسٹریمنگ پلیٹ فارمز ‘نیٹ فلکس’ اور ‘ایمیزون پرائم’ کی مقبولیت میں بھی کمی آنے کا امکان ہے۔
شیلجا کیجری وال کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اچھا کانٹینٹ باہر جائے گا تو ہر کسی کو یہاں کے ٹیلنٹ کا احساس ہو گا۔ اور اگر اس میں ‘زی زندگی’ اپنا کردار ادا کر سکے تو اس سے اچھی کیا بات ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ "ہماری کوشش ہو گی کہ ان کہانیوں کو سامنے لایا جائے جو چھپی ہوئی تھیں۔ او ٹی ٹی (اسٹریمنگ) پلیٹ فارمز پر نہ تو بڑا اسٹار ہونا ضروری ہوتا ہے، نہ ہی کسی قسم کی پابندی ہوتی ہے۔ ہر چیز صرف کہانی کے گرد گھومتی ہے اور کہانی ہی اس میں ہیرو ہوتی ہے۔”
شیلجا کیجری وال کے کہا کہ ہمیں ابھی اندازہ نہیں کہ اس کاوش سے مستقبل میں کون کون سے دروازے کھلیں گے لیکن اگر ‘زی زندگی’ کے ذریعے نئے لوگوں کو آگے آنے کے مواقع مل جائیں تو اس سے اچھی کیا بات ہو گی۔”
انہوں نے بتایا کہ ‘زی فائیو’ کی ایپ پر ‘مشک’ اور ‘جانجھڑ دی پاواں ‘جیسے کامیاب تھیٹر ڈرامے بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ ‘لانگ پلے’ اور فلمیں بھی ہیں جو کچھ عرصہ قبل ‘زی انٹرٹینمنٹ’ کے بینر تلے پاکستانی فلم سازوں نے بنائی تھیں۔
شیلجا کیجری وال نے کہا کہ ان کا مقصد اچھے مواد کو دنیا بھر میں پہنچانا ہے۔ پھر چاہے وہ بھارتی ہو یا پاکستانی، اسٹیج ہو یا ویب سیریز۔
اوریجنل کانٹینٹ ہے کیا اور اس میں کون لوگ شامل ہیں؟
‘زی فائیو’ کی ایپلی کیشن کافی عرصے سے پاکستان میں دستیاب ہے اور صارفین اس پر بھارتی ڈراموں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈرامے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اب اس ایپ پر ‘زی زندگی’ کے برانڈ تلے پانچ اوریجنل پاکستانی ویب سیریز شامل کی جا رہی ہیں جو نہ صرف ٹی وی ڈراموں سے مختلف ہیں بلکہ تمام بڑے اداکار ان میں کام کر رہے ہیں۔
ان پانچ ویب سیریز میں سے ایک ہدایت کار کاشف نثار کی ‘من جوگی’ ہے جس کے ذریعے وہ ‘زی زندگی’ پر ڈیبیو کریں گے۔ اس ویب سیریز میں پاکستانی اداکارہ صبا قمر کے ہمراہ نعمان اعجاز اور آغا مصطفی حسین اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔ اس سیریز کی کہانی ساجی گل نے تحریر کی ہے۔
ہدایت کارہ مہرین جبار کی ‘ایک جھوٹی لو اسٹوری’ میں مدیحہ امام، بلال عباس، کنزہ رزاق، اور رابعہ کلثوم شامل ہیں جب کہ اسکرپٹ معروف ناول رائٹر عمیرہ احمد نے لکھی ہے جنہوں نے حسیب حسن کی ‘دھوپ کی دیوار’ بھی تحریر کی ہے۔ حسیب حسن کی ویب سیریز میں مرکزی کردار سجل علی اور احد رضا میر ادا کر رہے ہیں۔
دوسری جانب انجم شہزاد کی ‘عبداللہ پور کا دیوداس’ نامی سیریز بلال عباس اور سارہ خان کو اسکرین پر یکجا کرے گی۔ رضا طالش اور انوشے عباسی بھی اس ویب سیریز کا حصہ ہوں گے۔ اسے ایک نئے رائٹر شاہد ڈوگر نے لکھا ہے۔
عاصم عباسی کی ‘چڑیلز’ وہ پانچویں سیریز ہو گی جسے ‘زی زندگی’ کے بینر تلے پیش کیا جائے گا۔
ہدایت کار کاشف نثار اس سے قبل ‘انکار ‘اور ‘ڈر سی جاتی ہے صلہ’ جیسے ڈرامے بنا چکے ہیں۔ انجم شہزاد کے ڈرامے ‘خانی’ اور ‘رومیو ویڈز ہیر’ اسٹریمنگ سروس ‘نیٹ فلکس’ اور ‘ایمیزون پرائم’ پر بھی موجود ہیں۔
حسیب حسن کا ڈرامہ ‘دیار دل’ آج بھی سب کو یاد ہے جب کہ ‘لال’ اور ‘الف’ جیسے بلاک بسٹر پروجیکٹس ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
مہرین جبار دو دہائیوں سے ٹی وی سے منسلک ہیں اور ‘رام چند پاکستانی’ اور ‘دوبارہ پھر سے’ جیسی فلموں میں ہدایت کاری کر چکی ہی۔ ویسے تو اس فہرست میں عاصم عباسی سب سے کم تجربہ کار ہیں لیکن دو سال قبل فلم ‘کیک’ کے ذریعے انہوں نے دنیا بھر سے خوب داد سمیٹی تھی۔
ویب سیریز میں کام کرنے والے اداکار کیا کہتے ہیں؟
نامور پاکستانی اداکارہ صبا قمر لاتعداد ٹی وی ڈراموں میں کام کر چکی ہیں اور بالی وڈ فلم انڈسٹری میں عرفان خان (مرحوم) کے ساتھ ‘ہندی میڈیم’ میں کام کر کے سرحد کے اس پار بھی نام کما چکی ہیں۔ صبا قمر کا خیال ہے کہ ‘زی زندگی’ جیسے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے آنے سے مارکیٹ میں مقابلہ بڑھے گا جس سے کانٹینٹ مزید بہتر ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ‘نیٹ فلکس’ تو چلتا ہے لیکن اوریجنل کانٹینٹ کے لیے اس نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ ‘زی فائیو’ کے آنے سے دیگر پلیٹ فارمز کو بھی اندازہ ہو گا کہ پاکستان میں اچھا اور معیاری کام ہوتا ہے اور لوگ انہیں دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔
صبا قمر کے بقول، "نعمان اعجاز اور کاشف نثار کے ساتھ کام کرنے کا الگ ہی مزا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ہمارا کام لوگوں کو مختلف لگے گا اور پسند بھی آئے گا۔”
دوسری جانب ڈرامہ سیریل بلا، چیخ اور پیار کے صدقے سے شہرت پانے والے بلال عباس وہ واحد اداکار ہیں جو ایک نہیں بلکہ دو ویب سیریز میں کام کر رہے ہیں۔ وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی دونوں ویب سیریز مختلف طرز کی ہیں اور اسی لیے انہیں دونوں میں کام کر کے بہت اچھا لگا۔
"دونوں ویب سیریز کے کردار مختلف، ماحول مختلف اور یہاں تک کہ کیٹیگری بھی مختلف ہے۔ ایک کو آپ ‘ڈارک کامیڈی’ کہہ سکتے ہیں تو دوسری ‘رومینٹک اسٹوری’ ہے جس میں سنسنی کا عنصر بھی شامل ہے۔ امید کرتا ہوں کہ جہاں لوگوں کو ‘عبداللہ پور کا دیوداس’ کے کردار پسند آئیں گے، وہیں ‘ایک جھوٹی لَو اسٹوری’ بھی انہیں اپنی اپنی سی لگے گی۔”
‘عبداللہ پور کا دیوداس’ میں اداکارہ انوشے عباسی نے بھی کام کیا ہے۔ انوشے کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کہانی سے زیادہ اہم کردار تھے اور وہ ٹیم جس کے ساتھ وہ کام کر رہی تھیں۔
انوشے عباسی کے بقول، "بلال عباس کے ساتھ ایکٹنگ کر کے اور انجم شہزاد سے اسٹوری بیان ہوتا سن کر انہیں بہت مزہ آیا۔ ‘زی زندگی’ کا ٹیزر دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم کا کانٹینٹ بہت مختلف ہو گا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں یہ کانٹینٹ دیکھا جائے گا، لوگوں کو اتنا ہی پسند آئے گا جتنا ہمیں بناتے ہوئے مزا آیا تھا۔”
کیا ویب سیریز کی وجہ سے ٹی وی انڈسٹری بہتر ہوگی؟
ویسے تو ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی انٹری کو تقریباً ایک سال ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے وجاہت رؤف نے بھارتی میڈیا پلیٹ فارم ‘ایروس ناؤ’ کے لیے ‘اینایا’ بنائی تھی لیکن اس کے بعد سے نہ تو کوئی قابلِ ذکر سیریز آئی اور نہ کسی نے اس طرف توجہ دی۔
‘زی زندگی’ کے آنے کے بعد امکان ہے کہ نہ صرف ویب سیریز بنانے کے عمل میں تیزی آئے گی بلکہ اس سے ٹی وی انڈسٹری کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ انٹرٹینمنٹ کے شعبے کے لیے کام کرنے والی سینئر صحافی آمنہ حیدر عیسانی کہتی ہیں کہ ‘زی فائیو’ پر پاکستانی کانٹینٹ جانے سے انہیں امید ہے کہ پاکستانی ڈراموں کا معیار بھی مزید بہتر ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آمنہ حیدر نے کہا کہ ہم ابھی اس معیار کا کام نہیں کر رہے جو ‘نیٹ فلکس’ پر چل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ‘زی زندگی’ کے ذریعے ہم بغیر کسی سینسر شپ یا خوف کے اپنا اچھا کانٹینٹ دنیا بھر میں دکھا سکیں گے۔ یہ کانٹینٹ ٹی آر پیز کے بجائے اچھی کہانیوں پر زور دے گا اور اس سے ہمارا فائدہ ہو گا۔
ہدایت کار کاشف نثار جن کی ویب سیریز ‘من جوگی’ میں نعمان اعجاز اور صبا قمر کام کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ‘زی زندگی’ کے آنے سے مقامی فن کاروں کے لیے نئے مواقع کھلیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاشف نثار نے کہا کہ ہمارے پاس بہت اچھے آرٹسٹ، رائٹر اور ٹیکنیشنز ہیں جو ہماری ڈرامہ انڈسٹری کی محدود پالیسیوں کی وجہ سے اپنی صلاحتیوں کا بہترین مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ بجٹ کا محدود ہونا، کہانیوں کی یکسانیت اور چینل کی پالیسیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ‘زی زندگی’ میں ایسا کچھ نہیں ہے اور ہمیں کھل کر اپنا کام کرنے کی آزادی ملی ہے۔
ہدایت کار حسیب حسن سمجھتے ہیں کہ ‘زی زندگی’ کی واپسی سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو ایک نئی راہ مل جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ‘زی زندگی’ نے وہ ڈرامے چلائے جو پاکستان میں ہٹ ہوئے تھے۔ اب وہ ڈرامے چلائیں گے جو دنیا بھر میں دیکھے جائیں گے۔
ان کے بقول ‘زی زندگی’کے ذریعے ہماری آڈینس پاکستان سے نکل کر گلوبل ہو جائے گی اور بالکل اسی طرح جیسے ہم ‘منی ہائیسٹ’ یا ‘گیم آف تھرونز’ دیکھتے ہیں، ہمارے ڈرامے بھی دنیا بھر میں دیکھے جائیں گے۔
ہدایت کارہ مہرین جبار نے بھی وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "ان ویب سیریز کو چکھ کر اگر ہماری ڈرامہ انڈسٹری کی آنکھیں ذرا اور کھل جائیں اور وہ بھی کوئی تجربہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس میں سب کا فائدہ ہے۔ ‘زی زندگی’ اگر ہمارے اچھے ڈرامے دکھا کر دنیا بھر میں پاکستان کا اچھا امیج بنا رہا ہے تو ہماری بھی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اپنے ڈراموں کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کریں۔”
کیا ‘زی زندگی’ کی کاوشوں سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آئے گی؟
صحافی آمنہ حیدر عیسانی کہتی ہیں "میری نظر میں پاکستان اور بھارت کے ثقافتی ماحول میں کوئی تناؤ نہیں۔ ہمارے تعلقات آرٹسٹس کے لیول پر ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں۔ مسئلہ حکومتی سطح پر ہے۔”
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ‘زی زندگی’ کے آنے سے لوگوں کے درمیان رابطے بڑھیں گے جس سے دونوں ملکوں کی عوام میں برداشت کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔
ہدایت کار کاشف نثار سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے حالات اچھے تو نہیں لیکن ‘زی زندگی’ کے ذریعے اگر رابطے کی کوئی راہ کھلی ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
ان کے بقول، "ان کی طرف سے جو بھی آ رہا ہے، وہ ہم تک کسی نہ کسی طرح پہنچ تو رہا ہے۔ ہماری طرف سے وہاں کچھ نہیں جا رہا۔ اس خطے میں ہمارے پاس بھی تو کہانیاں ہیں، ہمارے پاس بھی کہنے کو بہت چیزیں ہیں۔ ہماری ویب سیریز کا وہاں جانا اور ان کے پلیٹ فارم پر لگنا یقیناً ایک اچھا پہلو ہے۔”
حسیب حسن کے مطابق دونوں ملکوں کو سیاست اور فن کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ‘زی زندگی’ایک انٹرنیشنل پلیٹ فارم ہے۔ اس کی پہنچ دنیا بھر میں ہے، صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں۔ اگر اس سے ہماری انڈسٹری کے انداز بدلنے میں مدد ملے تو کوئی حرج نہیں۔
ہدایت کارہ مہرین جبار نے اپنی پہلی ہی فلم میں بھارتی اداکارہ نندیتا داس سے اداکاری کرائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو ثقافت کے تبادلے کی علم بردار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مہرین جبار کا کہنا تھا کہ "ثقافتی تبادلہ وہ واحد چیز ہے جس سے آپ ایک دوسرے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ کہانیاں سرحدوں تک محدود نہیں ہوتیں۔ اگر آپ دوسروں کی کہانیاں نہیں سننا چاہیں گے تو اس سے آپ کا ہی نقصان ہو گا۔ ثقافتی بائیکاٹ نہ بھارت میں ہونا چاہیے نہ ہی پاکستان میں اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک میں۔”
بھارتی پلیٹ فارم پر پاکستانی کانٹینٹ سے کوئی نیا تنازع تو کھڑا نہیں ہو گا؟
انٹرٹینمنٹ جرنلسٹ آمنہ حیدر عیسانی کے خیال میں بھارت میں یا پاکستان میں کوئی کیا سوچتا ہے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ”زی فائیو کی ایپلی کیشن دنیا کے 190 ملکوں میں ہے۔ اگر بھارتی حکومت کو کوئی مسئلہ ہوا تو وہ زیادہ سے زیادہ بھارت میں اسٹریمنگ بند کر سکتے ہیں لیکن دنیا بھر میں نہیں۔”
آمنہ حیدر کے بقول ‘زی زندگی’ پاکستان میں اس لیے پیسہ لگا رہا ہے کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ پاکستانی کانٹینٹ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔ اچھے کانٹینٹ کا بہت اسکوپ ہے۔ پاکستان میں بھی انڈین کانٹینٹ ‘نیٹ فلکس’ اور ‘ایمیزون’ پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کاشف نثار نے کہا کہ کوئی کچھ بھی کہے، وہ اپنی کہانی سناتے رہیں گے۔
"میں ایک قصہ گو ہوں۔ میں اپنی کہانی سنا رہا ہوں۔ اگر اس سے کسی کی حب الوطنی کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کا حل میرے پاس نہیں ہے۔ کسی پر گراں گزرتا ہے تو وہ ری ایکٹ کرے۔ مجھے جو بھی کہنا ہے وہ ڈرامے کی صورت میں کہہ دوں گا۔”
حسیب حسن نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب چاکلیٹ اور کوکا کولا جیسی کمرشل مصنوعات دنیا بھر میں استعمال کی جاسکتی ہیں تو کانٹیٹ کیوں نہیں۔ ان اوریجنل سیریز کے ذریعے ہماری مارکیٹ بڑھے گی اور اگر ‘زی زندگی’ چل گیا تو مستقبل میں ہمارے لوگ ‘نیٹ فلکس’، ‘ایمیزون’ اور ڈزنی کے لیے بھی کام کر رہے ہوں گے۔
مہرین جبار کے بقول سرحد کے دونوں جانب ایک ایسا طبقہ رہتا ہے جس کا کام ہی شور مچانا اور مایوسی پھیلانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘زی زندگی’ نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے جس سے ہمارے ٹیلنٹ کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم تو انڈین فلمیں دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ وہ بھی ہمارا کام دیکھیں۔