شوبز

ڈاکٹر اسٹرینج بمقابلہ پاکستانی فلمیں: ‘ملک میں اتنے سنیما نہیں کہ ہر فلم چل سکے’

Written by Omair Alavi

کراچی — 

ہالی وڈ فلم ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ انٹرنیشنل باکس آفس پر تو خوب کامیابیاں سمیٹ رہی ہے لیکن پاکستان میں فلم ساز ‘ڈاکٹر اسٹرینج’ کے سیکوئل کی ریلیز پر زیادہ خوش نہیں دکھائی دیتے۔

مارول کومکس کے کردار پر مبنی فلم ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ چھ مئی کو دنیا بھر میں ریلیز ہوئی تھی جس نے پہلے ہی ہفتے میں 45 کروڑ ڈالرز کا بزنس کیا۔ فلم نے باکس آفس پر چوتھی پوزیشن حاصل کرلی ہے جب کہ اس وقت ٹاپ تھری پوزیشن پر بالترتیب ‘ایونجرز اینڈ گیم’، ایونجرز انفنٹی وار’ اور ‘اسپائڈر مین: نو وے ہوم’ موجود ہیں۔

امکان ہے کہ ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’جلد ہی دنیا بھر میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں شامل ہو جائے گی۔

‘ڈاکٹر اسٹرینج ان کی ملٹی ورس آف میڈنیس’ مارول کومکس کے کردار ڈاکٹر اسٹرینج کے گرد گھومتی ہے جسے ایک امریکہ چاویز نامی نوجوان سپر ہیرو کو بچانے کے لیے ملٹی ورس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔فلم کی کہانی وہیں سےشروع ہوتی ہے جہاں ‘اسپائڈر مین: نو وے ہوم’ کی کہانی ختم ہوئی تھی جس میں ڈاکٹر اسٹرینج کا ایک جادوئی اسپیل تمام دنیا کے ذہن سے اسپائڈر مین کی یاد مٹادیتا ہے۔

امریکہ چاویز کے پاس ملٹی ورس یعنی ایک کائنات سے دوسری کائنات کے درمیان جانے کی طاقت ہوتی ہے جسے وانڈا ہتھیانے کے لیے اس کا تعاقب کرتی ہے۔

‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ کی ہدایت سن 2002 میں پہلی اسپائڈر مین فلم بنانے والے ہدایت کار سیم ریمی نے دی ہیں۔ فلم میں اداکار بینیڈکٹ کمبر بیچ نے ڈاکٹر اسٹرینج اور الزبتھ اولسن نے وانڈا میکس موف عرف اسکارلٹ وچ کا کردار ادا کیا ہے۔

فلم کی خاص بات اس کی پروڈکشن اور اسپیشل ایفیکٹس ہیں۔ البتہ چند خلیجی ممالک میں ایک متنازع سین کی وجہ سے اس فلم پر پابندی لگی ہوئی ہے۔

پاکستان میں یہ فلم عید الفطر کے موقع پر سنیما گھروں کی زینت بنی اور اس کے مدِ مقابل عید الفطر پر ہی چار پاکستانی فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ پاکستانی فلم سازوں کے مطابق عید الفطر پرہالی وڈ فلم کے بجائے مقامی فلموں کو زیادہ شوز ملنے چاہیے تھے اور ‘ڈاکٹر اسٹرینج’ کو بعد میں بھی ریلیز کیا جا سکتا تھا۔

پاکستانی فلم سازوں کو ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ کی ریلیز پر تحفظات

ڈاکٹراسٹرینج کے سیکوئل کی ریلیز سے قبل ہی دنیا بھر کے سنیما گھروں میں اس کی ایڈوانس بکنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ تاہم پاکستانی فلم سازوں نے یہ جانتے ہوئے کہ ہالی وڈ فلم پاکستان میں بھی ریلیز ہوگی، پانچ فلموں کا اعلان کردیا جس سے پاکستانی فلموں کے بزنس پر خاصا فرق پڑا۔

ان پاکستانی فلموں میں ‘گھبرانا نہیں ہے’، ‘دم مستم’، ‘چکر’، ‘پردے میں رہنے دو’ اور پنجابی فلم ‘تیرے باجرے دی راکھی’ شامل ہیں۔ اس وقت باکس آفس پر سب سے بہتر بزنس ‘گھبرانا نہیں ہے’ کررہی ہے جب کہ ‘دم مستم’ دوسرے اور ‘پردے میں رہنے دو’ اور ‘چکر’ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔

پاکستانی فلموں کے مقابلے میں تین دن بعد ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ اب بھی پاکستانی باکس آفس پر سب سے آگے ہے۔

فلم ‘دم مستم’ کے پروڈیوسر عدنان صدیقی، فلم ‘چکر’ کے پروڈیوسر یاسر نواز اور ‘پردے میں رہنے دو’ کے پروڈیوسر وجاہت روؤف نے ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ کے ریلیز ہوتے ہی کراچی میں ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے سنیما مالکان سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں ہالی وڈ فلموں کے بجائے مقامی فلموں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

البتہ سنیما مالکان کا مؤقف تھا کہ وہ اس ہی فلم کو زیادہ اسکرین دیں گے جس کی مانگ زیادہ ہوگی اور ڈاکٹر اسٹرینج کے مداح اس فلم کا گزشتہ برس دسمبر سے انتظار کررہے تھے۔ان کے مطابق سب سے زیادہ شوز اس ہی فلم کو ملے جس کی ایڈوانس بکنگ اپریل سے ہی شروع ہوگئی تھی۔

‘بیک وقت پانچ فلموں کو عید پر ریلیز کرنے کا پلان غلط تھا’

فلم پروڈیوسر ، ڈسٹری بیوٹر اور اے آر وائے فلمز کے سربراہ عرفان ملک کے خیال میں عید پر پانچ فلمیں لانے کا فیصلہ ہی غلط تھا، پاکستان میں اتنے سنیما نہیں ہیں کہ پانچ فلمیں ایک وقت میں لگیں اور سب ہی کامیاب ہوں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عید کے موقع پر فلموں کی ریلیز میں پروڈیوسروں سے زیادہ ڈسٹری بیوٹر قصوروار ہے جس نے کرونا کے بعد پہلی عید پر غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔

ان کے بقول "فلم پروڈیوسر کا کام فلم بنانا ہے جب کہ فلم کو کب کیوں اور کیسے ریلیز کرنا ہے یہ ذمے داری ڈسٹری بیوٹر کی ہوتی ہے۔ اچھا ڈسٹری بیوٹر پروڈیوسر کو ریلیز کا بہترین وقت تجویز کرتا ہے جس میں فلم کی مارکیٹنگ بھی ہوجائے اور اس کا کسی اور فلم سے مقابلہ بھی نہ ہو۔”

عرفان ملک کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 50 سے 55 مقامات پر سنیما ہیں جن میں 20 سے 25 ہزار لوگوں کو بٹھانے کی گنجائش ہے۔ ایسے میں چار اردو اور ایک پنجابی فلم لگانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

دوسری جانب سندھ فلم سینسر بورڈ کے چیئرمین اور اداکار خالد بن شاہین کا کہنا ہے کہاانہیں ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ میں کوئی ایسا مسئلہ نظر نہیں آیا جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی جاتی۔ ان کے فیصلے سے پاکستانی فلم سازوں کو مایوسی ہوئی لیکن اگر بغیر کسی وجہ کے فلم کی ریلیز کو روکا جاتا تو شائقین ناراض ہوجاتے۔

ان کے بقول ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ باہر کی فلموں کے ساتھ ساتھ مقامی فلموں کی بھی نمائش ہوتی ہے جس سے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

بڑی عید پر ‘تھور لو اینڈ تھنڈر’ کے ساتھ دو پاکستانی فلمیں چل سکیں گی؟

عرفان ملک کے مطابق پاکستانی فلم ‘ٹچ بٹن’ تیار تھی لیکن وہ اسے عید پر اس لیے نہیں لائے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ باکس آفس اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہیں اب بھی ڈر ہے کہ پاکستانی پروڈیوسر اس عید سے کچھ نہیں سیکھیں گے اور عید الاضحیٰ پر بھی دو سے زیادہ فلمیں لانے کی غلطی کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ بڑی عید پر ابھی تک ‘قائد اعظم زندہ باد’ اور ‘لندن نہیں جاؤں گا’ ریلیز کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں شک ہے کہ کوئی نہ کوئی پروڈیوسر عید پر اپنی فلم کا اعلان کرکے اس ریس میں شامل ہونے کی کوشش کرے گا۔ عرفان ملک کے بقول، "ہمیں آج سے سیکھنا ہوگا ورنہ یہ غلط فیصلہ پاکستانی سنیما کو نقصان پہنچائے گا۔”

پروڈیوسر عرفان ملک کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح اس عید پر ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ عید کے چوتھے دن ریلیز ہوئی تھی اسی طرح بڑی عید سے دو دن قبل مارول کی ایک اور فلم ‘تھور لو اینڈ تھنڈر’ ریلیز ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فلم سازوں اور ڈسٹری بیوٹرز کو چاہیے کہ وہ اپنی فلموں کو ریلیز کرنے کے شیڈول پر مل بیٹھ کر بات کریں تاکہ سارا سال اردو فلمیں سنیما میں لگیں اور انہیں پروموٹ کرنے کا موقع ملے۔

ان کا ماننا ہے کہ ہالی وڈ فلم ‘تھور لو اینڈ تھنڈر’ کے ساتھ دو پاکستانی فلمیں تو باکس آفس پر چل جائیں گی لیکن دو سے زیادہ مقامی فلموں کو ایک ہالی وڈ کی بڑی فلم کے سامنے لگانا خودکشی کے مترادف ہوگا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔