کراچی —
سال 2020 کا جب آغاز ہوا تو پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کامیابی کی نئی بلندیوں کی جانب گامزن تھی۔ سال کے پہلے ہی مہینے میں ہمایوں سعید کے سپر ہٹ ڈرامے ‘میرے پاس تم ہو’ کی آخری قسط سنیما اور ٹی وی پر بیک وقت پیش کی گئی۔ لیکن اس کے بعد کرونا وائرس کی وبا نے فلم، سنیما اور ٹی وی انڈسٹری کی پرواز کو ایسا نیچے کھینچا کہ سب کچھ رک سا گیا۔
کرونا کی وبا، لاک ڈاؤن اور معاشی مشکلات کے دوران کچھ ٹی وی پروڈیوسرز نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ایسے ڈرامے بنائے جو نہ صرف شائقین کو پسند آئے بلکہ یاد بھی رہ گئے۔
نیٹ فلِکس اور زی فائیو کی پاکستان میں مقبولیت کے باوجود ان ڈراموں نے شائقین کو سال کے 12 مہینے مصروف رکھا۔ کچھ نے اپنی انفرادیت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کی تو کچھ اپنے بولڈ موضوعات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ کچھ ڈراموں نے پی ٹی وی کے کلاسک دور کی جھلک دکھا کر شائقین کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی۔
رسوائی
اس سال کے مقبول ترین ڈراموں کی اگر بات کی جائے تو ‘اے آر وائی ڈیجیٹل’ نیٹ ورک کا ڈرامہ ‘رسوائی’ سرِ فہرست رہا۔
نائلہ انصاری کے لکھے اس ڈرامے کی ہدایت کاری روبینہ اشرف نے کی جب کہ ثنا جاوید نے اپنی لازوال اداکاری سے اپنے کردار کو امر کیا۔ انہوں نے ایک ایسی لڑکی (سمیرا) کا کردار ادا کیا جسے چند بدمعاش اس کے گھر والوں کے سامنے اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور زیادتی کا نشانہ بنا کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
سمیرا کس طرح اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے اور کیسے سب کے مشوروں کے برعکس انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، ان سب موضوعات کے احاطے نے اس ڈرامے کو مقبول اور معروف بنایا۔
ثنا جاوید کے ساتھ ڈرامے میں میکال ذوالفقار، محمد احمد، اسامہ طاہر، سیمی راحیل اور عثمان پیرزادہ نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس ڈرامے نے ایک ایسی معاشرتی برائی کی نشان دہی کی جو سب کے سامنے تو ہے، لیکن اس پر بات ہر کوئی نہیں کرتا۔
ڈرامے میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ ثنا جاوید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے سمیرا کا کردار صرف ادا نہیں کیا بلکہ اسے بسر کیا جس کی وجہ سے لوگوں کو ان کی اداکاری پسند آئی۔
"اغوا کا سین شوٹ کرانے کے بعد مجھے کئی راتوں تک نیند نہیں آئی کیوں کہ سمیرا کا خیال آتے ہی میرا دل گھبرانے لگتا تھا۔ لوگوں کی پسندیدگی کی وجہ سے نہ صرف میری محنت وصول ہو گئی بلکہ ان تمام خواتین کی نمائندگی بھی ہو گئی جن کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن وہ دوسروں کے ڈر سے خاموش ہو جاتی ہیں۔ اگر میری کوشش سے کسی ایک کو بھی حوصلہ ملا ہے تو اس سے بڑا ایوارڈ کیا ہو گا۔”
پیار کے صدقے
رسوائی کے بعد ہم ٹی وی نے بھی دو ایسے ڈرامے نشر کیے جن میں معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی گئی اور ان لوگوں کا انجام بھی دکھایا جو دنیا میں خود کو دوسروں سے زیادہ طاقت ور سمجھتے ہیں۔
انہی میں سے ایک ڈرامہ تھا ‘پیار کے صدقے’ جس میں اداکار بلال عباس نے ایک ایسے لڑکے کا کردار ادا کیا جس کی شخصیت کو اس کے سوتیلے باپ نے ڈرا ڈرا کر اتنا بگاڑ دیا تھا کہ اسے اپنے اوپر بھروسہ ہی نہیں رہا تھا۔
اس ڈرامے میں یمنیٰ زیدی نے بلال عباس کی بیوی کا کردار ادا کیا جو بلا کی خوب صورت لیکن کم عقل ہوتی ہے۔ اس کا سوتیلا سسر سرور (عمیر رانا) اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
عتیقہ اوڈھو نے ڈرامے میں ایسی مال دار عورت کا کردار ادا کیا جو بیوگی سے نجات پانے کے لیے عمر میں خود سے چھوٹے ایک مرد سے شادی کر لیتی ہے۔ اس آدمی کی اصلیت صرف اس کی بیٹی وشما (صرحا اصغر) جانتی ہے جب کہ بڑا بیٹا عبداللہ اس سے بری طرح ڈرتا ہے۔
زنجبیل عاصم شاہ کے تحریر کردہ اس ڈرامے کی ہدایت کاری تھی فاروق رند کی اور اس کے خلاف بھی کئی شکایات پیمرا تک پہنچیں۔ لیکن یہ ڈرامہ ہم ٹی وی کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی پر بھی نشر ہو رہا تھا اور اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں تھی۔ البتہ ڈرامے کے اختتام کے بعد پیمرا نے اس کے نشرِ مکرر پر پابندی عائد کر دی۔
ڈرامے میں سرور کا کردار ادا کرنے والے عمیر رانا کہتے ہیں کہ جب معاشرے میں موجود برائی کی نشان دہی کرنی ہوتی ہے تو لوگوں کو گھما پھرا کر نہیں بلکہ سیدھا مدعے پر لانا پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ "ڈرامے کی پہلی قسط کے نشر ہوتے ہی ہدایت کار فاروق رند کی والدہ نے عمیر کو جہنمی قرار دے دیا تھا اور یہ ان کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔”
"لوگوں کو سرور سے اس لیے نفرت ہوئی کیوں کہ ایک تو اس نے اپنی سے بڑی عورت سے پیسوں کے لیے شادی کی۔ دوسرا اس نے اس عورت کی اولاد کو اپنی اولاد نہیں سمجھا اور تیسرا اس لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا جو نہ صرف اس سے عمر میں چھوٹی تھی بلکہ اس کے سوتیلے بیٹے کی بیوی بھی تھی۔ سرور نے امیر ہونے کے لیے یہ سب کچھ کیا اور اس کا انجام بھی برا ہوا۔”
عمیر رانا کے بقول لوگوں کو اس ڈرامے کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ برا کام کرنے والے کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا پھر چاہے وہ کتنا ہی امیر اور طاقت ور کیوں نہ ہو۔
سراب
رواں سال ٹی وی پر نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں میں ہم ٹی وی کے ‘سراب’ کو وہی مقام حاصل ہوا جو صحرا میں سراب کو ہوتا ہے۔ ایڈیسن ادریس مسیح کا لکھا ہوا اسکرپٹ محسن طلعت نے ڈائریکٹ کیا جب کہ سونیا حسین نے اس میں ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جو شیزوفرینیا جیسی بیماری میں مبتلا ہے۔
سمیع خان ڈرامے میں ان کے شوہر بنے ہیں جو اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ دونوں اداکاروں کی جان دار پرفارمنس کی وجہ سے یہ ڈرامہ ان لوگوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھا جو ساس بہو کے موضوعات پر مبنی ڈراموں سے تنگ آ چکے ہیں۔
نند
گو کہ ڈرامہ انڈسٹری میں اس بار بھی گھریلو جھگڑے چھائے رہے لیکن ساس بہو کی لڑائی سے زیادہ نندوں اور سالیوں کی لڑائی نظر آئی۔
سب سے بڑی لڑائی ‘اے آر وائی ڈیجیٹل’ کے ڈرامے ‘نند’ میں لڑی گئی جہاں گوہر (فائزہ حسن) نے اپنے بھائیوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ ان کے کردار کو لوگوں نے اتنا ناپسند کیا کہ پیمرا میں بھی شکایات کا انبار لگ گیا۔
ڈرامے میں فائزہ حسن کے ساتھ اعجاز اسلم، شہروز سبزواری، ایاز سموں اور منال خان کی ایکٹنگ بھی جان دار رہی۔
جلن
دوسری جانب اداکارہ منال خان نے ‘جلن’ کے ذریعے وہی کیا جو فائزہ حسن نے گوہر بن کر ‘نند’ میں کیا۔ ڈرامے کے آغاز میں ہی انہوں نے اپنی بہن میشا (اریبا حبیب) کے شوہر پر ڈورے ڈالنا شروع کر دیے اور جب اسفندیار (عماد عرفانی) نے نیشا (منال خان) کے لیے میشا کو چھوڑا تو بڑی بہن نے خود کشی کر لی۔
اس کے بعد نہ تو نیشا خوش رہ سکی اور نہ ہی اسفندیار۔ کہانی کا اختتام اسفندیار کی موت اور میشا کے پاگل خانے پہنچنے پر ہوا۔ جہاں ایک طرف ‘جلن’ کو شائقین نے بہت پسند کیا وہیں لوگوں نے اس کے خلاف متعدد شکایات بھی کیں جس کے نتیجے میں پیمرا کو اس پر پابندی لگانا پڑی۔ لیکن پھر سندھ ہائی کورٹ نے پابندی ہٹائی اور ڈرامہ اپنے وقت پر ختم ہوا۔
جلن کے ہدایت کار عابس رضا تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عابس رضا نے کہا کہ انہیں پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ ان کا ڈرامہ لوگوں کو پسند آئے گا اور اچھی ریٹنگ لے گا۔
”جلن کی کہانی میں ولن کو ولن کی طرح دکھایا گیا۔ اس کا انجام برا ہوا لیکن دیر سے ہوا۔ لوگوں نے شروع کی اقساط دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ڈرامہ غیر اخلاقی ہے جب کہ اس میں ایک سبق چھپا ہوا تھا جو آخر میں جا کر پتا چلتا ہے۔ میرے پروڈیوسرز اور چینل دونوں کو اس بات کا ادراک تھا۔ اسی لیے جب ڈرامے پر پابندی لگی تو انہوں نے کامیابی سے اس کا دفاع کیا اور لوگوں کو پورا ڈرامہ دیکھنا نصیب ہوا۔”
ثبات
اور اب کچھ بات ہم ٹی وی کے ڈرامے ‘ثبات’ کی کرتے ہیں جس نے اداکارہ سارہ خان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس ڈرامے میں انہوں نے ماورا حسین کی نند کا کردار ادا کیا جو نہ صرف ان سے نفرت کرتی ہے بلکہ اپنے دماغ میں اپنے بھائی کو سب سے زیادہ چاہتی ہے۔
مرال کے کردار میں ناظرین نے ان کی اداکاری کے ساتھ ان کے فیشن ایبل کپڑوں کو بھی بے حد پسند کیا۔
ثبات میں ماورا حسین کا کردار بھی کچھ کم نہیں تھا۔ انہوں نے ایک مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا جو اپنے حق کے لیے لڑنا جانتی تھی۔ اسی وجہ سے اسے میکے اور سسرال میں وہ عزت ملتی ہے جو مرال کو آخر میں کہیں بھی نہیں ملتی۔
دیوانگی
سال کے مقبول ترین ڈراموں کی فہرست میں دیوانگی، مقدر اور دشمن جان بھی شامل ہیں جن کی کہانی یا تو اغوا یا دوسری شادی یا پھر ان دونوں کے گرد گھومتی رہی۔
جیو ٹی وی کے ڈرامے ‘دیوانگی’ میں اداکار دانش تیمور نے ایک لڑکے سلطان کا کردار ادا کیا جو ایک ایسی لڑکی نگین (حبا بخاری) کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے جو اس سے محبت نہیں کرتی۔ وہ اسے اغوا کر کے بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن نگین اسے بھول کر آگے بڑھ جاتی ہے اور جب سلطان اس کی زندگی میں واپس آنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا سامنا کرتی ہے۔
مقدر
جیو ٹی وی کی ایک اور کاوش ‘مقدر’ کو فیصل قریشی اور مدیحہ امام نے اپنی جان دار اداکاری سے مقبول بنایا۔
مقدر میں فیصل قریشی کے کردار سیف الرحمان کو آر جے رائمہ (مدیحہ امام) سے محبت ہو جاتی ہے جس سے وہ زبردستی شادی کر لیتا ہے۔ سیف الرحمان کی پہلی بیوی فرخندہ (عائشہ گل) کو یہ بات بالکل پسند نہیں آتی اور وہ ان دونوں کی زندگیوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے جس کے نتیجے میں سیف الرحمان کی موت ہو جاتی ہے۔
فیصل قریشی کی اداکاری کی وجہ سے ڈرامہ بے حد مقبول ہوا لیکن کچھ ناظرین نے زبردستی شادی والے موضوع پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
دشمنِ جاں
اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ‘دشمنِ جاں’ بھی خاصا مقبول ہوا۔ اداکار محب مرزا کی ٹی وی پر واپسی اور پھر طوبیٰ صدیقی اور مدیحہ امام جیسی منجھی ہوئی اداکاراؤں کے سامنے اداکاری کو سب نے پسند کیا۔
یہاں محب مرزا کے کردار حاتم نے صرف رباب (مدیحہ امام) سے اس لیے شادی کی کیوں کہ اس کی غلطی کی وجہ سے اس کی بڑی بہن رمشا (طوبیٰ صدیقی) کی موت واقع ہوئی تھی۔
ثروت نذیر کی لکھی گئی اس کہانی اور امین اقبال کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں کئی فلمی موڑ بھی آتے ہیں جن کی وجہ سے شائقین کی فلمیں نہ دیکھنے کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے۔ ایک باپ اور بیٹے کے ناکام رشتے کو بھی ڈرامے میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عہدِ وفا
اور سب سے آخر میں بات اس سال کے کلاسک ڈراموں کی۔ سن 2019 میں شروع ہونے والا ڈرامہ ‘عہدِ وفا’ رواں سال بھی کافی مقبول رہا۔ ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے میں احد رضا میر، علیزے شاہ، عثمان خالد بٹ، احمد علی اکبر، وہاج علی، زارا نور عباس، اور حاجرہ یامین نے مرکزی کردار ادا کیے۔
ڈرامہ مصطفیٰ آفریدی نے لکھا تھا جب کہ ہدایت کاری سیف حسن نے کی۔
عہدِ وفا میں چار دوستوں کی کہانی کالج سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام بھی اسی کالج میں ہوتا ہے جہاں یہ چاروں آنے والی نسل کو محنت کرنے اور اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
یہ ڈرامہ اس لحاظ سے بھی کلاسک تھا کیوں کہ اس میں اداکار فراز انعام نے وہی کردار ادا کیا جو وہ اس سے قبل ‘سنہرے دن’ اور ‘ایلفا براوو چارلی’ جیسے ڈراموں میں ادا کر چکے تھے، جنہیں گزشتہ صدی کے بہترین ڈراموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
الف
دوسری جانب جیو انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والا ڈرامہ ‘الف’ تھا جس کی کہانی تصوف، اللہ سے قربت اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد گھومتی ہے۔
عمیرہ احمد کے ناول کی ڈرامائی تشکیل بھی عمیرہ احمد نے کی جب کہ ہدایت کار حسیب حسن نے شان دار انداز میں اسے ٹی وی پر پیش کیا۔ ڈرامے میں حمزہ علی عباسی، منظر صہبائی، احسن خان، کبریٰ خان، سجل علی اور سلیم معراج کے ساتھ سیف حسن نے بھی اداکاری کی۔
الف کی عکس بندی لوگوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ اس ڈرامے کے نشر ہونے کے بعد اداکار حمزہ علی عباسی نے شوبز چھوڑنے کا فیصلہ کیا جسے بعد میں انہوں نے واپس لے لیا۔
مشک
اور آخر میں بات ہم ٹی وی کے ڈرامے ‘مشک’ کی جسے لکھا اداکار عمران اشرف نے اور ہدایت کاری احسن طالش نے کی۔
اس ڈرامے کے ذریعے پروڈیوسرز نے کئی معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی جس میں لڑکی کا گھر سے بھاگ جانا، کم عمر لڑکی کی شادی اور ایک زمین دار کا دوسروں کی زندگیوں کو اپنی مرضی سے چلانا شامل ہے۔
محمد قوی خان سے لے کر عمران اشرف، منظور قریشی سے احسن طالش، مومل شیخ سے لے کر عروہ حسین اور زارا ترین سے لے کر اسامہ طاہر تک، تمام اداکاروں نے اس ڈرامے میں اچھی اداکاری کی جب کہ اس کے مکالمے بھی لوگوں میں مقبول ہوئے۔