اسپورٹس

آسٹریلوی کھلاڑیوں کا جوتے میں شراب پی کر جشن: کھیلوں کی دیگر انوکھی روایات کون سی ہیں؟

Written by Omair Alavi

کراچی — 

اکثر لوگوں نے شاید جوتیوں میں دال بٹنے کا محاورہ سنا ہو لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل کے بعد جوتوں میں شراب بٹتے دیکھ کر بہت سے لوگوں کو حیرت اور کچھ کو کوفت بھی ہوئی ہو گی۔

دبئی میں کھیلے گئے میگا ایونٹ کے فائنل کے میں آسٹریلیا کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کو باآسانی شکست دے کر فتح کا بھرپور جشن منایا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے بھی آسٹریلوی ٹیم کے جشن کی ویڈیوز شیئر کیں جس میں سے ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آسٹریلوی وکٹ کیپر میتھیو ویڈ اور مارکس اسٹوئنس جوتے میں شراب پی رہے ہیں۔

ایک طرف کچھ شائقینِ کرکٹ اس عمل کو دیکھ کر کراہیت محسوس کر رہے تھے تو وہیں آسٹریلوی کھلاڑی ‘شوئی’ کے ذریعے ایک ایسی روایت پوری کر رہے تھے جو ان کے لیے نئی نہیں جو آسٹریلوی روایت سے واقف ہیں۔

شوئی کیا ہے؟

مغربی ممالک بالخصوص آسٹریلیا میں جوتے سے (شراب) پینے کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ​اس روایت نے جرمنی میں جنم لیا جہاں پہلی جنگ عظیم میں میدانِ جنگ میں جانے سے قبل فوجی ایک جوتے میں شراب ڈال کر پیتے تھے تاکہ جنگ میں کامیابی ان کے حصے میں آئے۔

اس روایت کو آسٹریلیا نے ‘شوئی’ بناکر مزید مقبول کیا جس میں کوئی بھی شخص اپنے، یا اپنے کسی ساتھی کے جوتے میں شراب ڈال کر پیتا ہے، عموماً اس روایت کے لیے بیئر کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور آسٹریلوی کھلاڑیوں نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آسٹریلوی ڈریسنگ روم میں جوتے میں ڈال کر شراب پی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب کسی آسٹریلوی کھلاڑی نے شوئی انجام دے کر جشن منایا۔ اس سے قبل موٹو جی پی رائیڈر جیک ملر، فارمولا ون ریسر ڈینیئل رکیارڈو اور آسٹریلوی کار ریسر ڈیوڈ رینلڈز فتح کے بعد اس طرح جشن منا چکے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اطالوی موٹو جی پی ڈرائیور ویلینٹینو روسی بھی 2016 میں شوئی انجام دے چکے ہیں۔

کھیلوں کی دنیا کی دیگر انوکھی روایات کون سی ہیں؟

‘شوئی’ کے علاوہ بھی کھیلوں کی دنیا میں کئی مختلف روایات موجود ہیں۔ فٹ بال کے میدان میں 1940 کی دہائی میں ایک ایسی روایت شروع ہوئی جو شوئی سے بھی کافی مختلف تھی۔​

اس روایت کے مطابق اگر فٹ بال کھلاڑی کے پاؤں پر میچ سے قبل ایک کتا پیشاب کردے تو اس کھلاڑی کی ٹیم میچ جیت جائے گی۔ ایسا پہلی بار تب ہوا جب بیریبا نامی کتے نے بوٹافوگو کلب کے ایک کھلاڑی کے پیر پر پیشاب کیا، جس کے بعد وہ ٹیم نہ صرف میچ جیتی بلکہ چیمپئن شپ بھی اپنے نام کی۔

کرکٹ اور فٹ بال میں تو کھلاڑیوں کی ہیٹ ٹرک اور اس کے بعد کا جشن تو اکثر لوگوں نے دیکھا ہو گا لیکن آئس ہاکی میں ہیٹ ٹرک کے بعد کا جشن کافی الگ سا ہے۔

امریکہ میں مقبول نیشنل ہاکی لیگ کے دوران جب کوئی کھلاڑی تین گول کرکے ہیٹک ٹرک کرتا ہے تو مداح، ساتھی کھلاڑی یا دونوں خوشی سے اس کے اعزاز میں آئس رنگ پر ”ہیٹ” پھینکتے ہیں۔​

اسی طرح امریکہ ہی میں نیشنل کالجیٹ ایتھلیٹک ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام ہونے والی ڈویژن ون باسکٹ بال چیمپئن شپ میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم کو ٹرافی کے ساتھ کچھ حصہ باسکٹ بال نیٹ کا بھی ملتا ہے۔​

یہ روایت 1947 میں اس وقت شروع ہوئی جب میڈلز کی عدم موجودگی کو پورا کرنے کے لیے شمالی کیرولائنا کی ٹیم کے کوچ نے نیٹ کی جالی کے ٹکرے کرکے کھلاڑیوں میں بانٹے۔

کھیلوں کی دنیا کی ایک اور روایت ‘گیٹریڈ شاور’ بھی ہے جہاں امریکہ کی مقبول نیشنل فٹ بال لیگ کے کھلاڑی ایونٹ جیتنے کے بعد ٹھنڈا ‘گیٹریڈ’ اپنے فاتح کوچ کے سر پر پھینک کر اسے ‘کول’ کرتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں مقبول ہونے والی اس روایت کا آغاز نیویارک جائنٹس کے جم برٹ نے اس وقت کیا تھا جب انہوں نے کوچ کی جانب سے توجہ نہ ملنے پر ان کے سر پر گیٹریڈ کولر الٹ دیا تھا۔

ایک اور روایت جو آئس ہاکی کے مشہور مقابلے اسٹینلی کپ میں نظر آتی ہے وہ ہے کھلاڑیوں کا پلے آف میں شیونگ ترک کرنا۔ نیویارک آئی لینڈرز کی جانب سے 1980 کی دہائی میں شروع کی گئی اس روایت کا اختتام ٹیم کے پلے آف سے باہر ہونے یا ٹرافی جیتنے پر ہوتا ہے۔

کسی کھیل میں کامیابی پر شراب یا دیگر مشروبات سے جشن منانا تو اکثر لوگوں نے دیکھا ہو گا لیکن انڈی کار ریس کے معروف مقابلے انڈیانا پولس 500 میں ایک ایسی ہی روایت چل رہی ہے جس میں جیتنے والے چیمپئن کو شراب کی جگہ دودھ کی بوتل دی جاتی ہے۔​

دنیا بھر میں اگر کوئی کھلاڑی کسی میچ میں کوئی کارنامہ انجام دیتا ہے تو اکثر ساتھی کھلاڑی اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں کھیلی جانے والی میچز لیگ بیس بال میں اگر کوئی کھلاڑی ‘ہوم رن’ مارتا ہے تو اسے شاباشی کی بجائے خاموشی ملتی ہے۔​

اس کے علاوہ انگلش فٹ بال کلب ایورٹن کی ایک روایت ہے جو اسے دوسرے کلب سے منفرد بناتی ہے۔ کلب کی یہ روایت ہے کہ وہ ہوم گراؤنڈ پر کھیلے جانے والے میچ سے قبل شائقین میں مفت ٹافی تقسیم کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ ایورٹن کلب کو اس کے مداح پیار سے ‘ٹافیز’ بھی کہتے ہیں۔

پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک میں موجود لوگوں کے لیے شوئی سمیت کئی ایسے جشن انوکھے ہوں گے لیکن کئی بار ان کھیلوں میں بھی کچھ ایسا انوکھا ہوا ہے جو ان ممالک میں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

سن 2002 میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کے کپتان سارو گنگولی نے انگلینڈ کے خلاف لارڈز کے میدان میں میچ جیت کر شرٹ اتارکر بہت سو کو حیران کردیا تھا۔

سارو گنگولی کی اس حرکت سے قبل انگلش آل راؤنڈر اینڈریو فلنٹوف نے ممبئی میں ایک میچ کے بعد فتح کا جشن بھی فٹ بالرز کی طرح شرٹ اتار کر منایا تھا۔

حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فتح کے بعد آسٹریلوی ٹیم کا جشن پاکستانی اسٹار کرکٹر شعیب اختر کو بھی پسند نہ آیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کا اظہار بھی کیا۔

البتہ شعیب اختر کا اپنے دور میں جشن منانے کا بھی ایک الگ اسٹائل تھا۔ پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر وکٹ لینے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر جہاز کی طرح اڑنے کا اشارہ کرتے ہوئے جشن مناتے تھے۔

فتح کے جشن منانے کی اسٹائل کی بات کی جائے تو ویسٹ انڈین کرکٹر کرس گیل کا گینگنم ڈانس بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا۔ انہوں نے 2012 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد گراؤنڈ میں گینگنم اسٹائل ڈانس کیا جو بعد میں ویسٹ انڈین ٹیم میں کافی مشہور ہو گیا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔