کراچی — پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے بننے والے ٹیلی ویژن ڈراموں کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے لیکن ڈرامہ چینلز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پروڈیوسرز کی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ڈرامے بنانے کی کوشش کی وجہ سے ان کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا۔
ایسے میں نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم جیسے او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی گزشتہ چھ ماہ کے دوران مختلف ٹی وی چینلز نےمنی سیریز فارمیٹ کا سہارا لیا ہےجسے نوجوان نسل زیادہ پسند کرتی ہے۔
حال ہی میں ‘آئی ڈریم انٹرٹینمنٹ’ نے ‘اے آر وائی ڈیجیٹل’ کے لیے ‘سرِ راہ’ نامی چھ اقساط پر مشتمل سیریز بنائی جسے خاصا پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہدایت کارہ مہرین جبار کی ‘جیو انٹرٹینمنٹ’ کے لیے ‘جرم’ نامی چار اقساط کی مبنی منی سیریز بھی کافی مقبول ہوئی۔یہ دونوں منی سیریز روایتی ٹی وی ڈراموں سےمختلف تھیں۔
‘سرِ راہ’ کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو الگ الگ طرح کے لوگوں کی مدد کرتی تھی جب کہ ‘جرم’ ایک مغربی طرز پر بنائی گئی سسپنس اور تھرلر سے بھرپور کہانی ہے۔
اس سے قبل دسمبر 2021 میں ‘ہم ٹی وی’ نے سقوطِ ڈھاکہ کے تناظر میں بننے والی منی سیریز ‘خواب ٹوٹ جاتے ہیں’ نشر کی تھی جب کہ ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کی ‘ایک تھی لیلٰ’ کو بھی کم دورانیے کی سیریز کے طور پر پیش کرکے پروڈیوسرز نے داد سمیٹی تھی۔
حال ہی میں لانچ ہونے والے ‘آن ٹی وی’ پر خواتین کے حقوق کے گرد گھومنے والی سیریز ‘اب میری باری’ ہو یا پھر ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کے لیے اداکارہ ماہرہ خان کی نئی منی سیریز ‘رضیہ’ دونوں کا پروڈکشن مراحل میں ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مقامی پروڈیوسرز اس فارمیٹ کا سہارا لے کر تجربہ کررہے ہیں۔
اسی کی دہائی میں پاکستان میں لاہور ٹیلی ویژن کا ‘اندھیرا اجالا’، اور ‘باؤ ترین’ جب کہ 90 کی دہائی میں کراچی سینٹر کے ‘روزنِ زنداں’ جیسے ڈراموں کو شائقین نے خوب پسند کیا تھا لیکن پرائیوٹ پروڈکشن ہاؤسز اور چینلز کے آنے کے بعد ‘پسِ آئینہ’ کے علاوہ کوئی سیریز زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
چھ برس قبل ہم ٹی وی پر ‘محبت ڈاٹ پی کے’ نامی منی سیریز سے اس کاوش کا آغاز کرنے والے اداکارو ہدایت کار احتشام الدین سمجھتے ہیں کہ چھوٹے دورانیے کی سیریز سے اداکاروں، لکھاریوں اور ہدایت کاروں کو روایتی کہانیوں سے ہٹ کر کام کرنے کا وہ موقع ملے گا جس کی انہیں تلاش رہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے ‘محبت ڈاٹ پی کے’ بنائی تھی اس وقت وہ چاہتے تھے کہ اس فارمیٹ کو ٹی وی اسکرین پر جگہ ملے اور اب چھ سال کے بعد انہیں خوشی ہے کہ دیگر افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔
احتشام الدین کے بقول ایک ڈرامے کو ربڑ کی طرح اس لیے زیادہ سے زیادہ کھینچا جاتا ہے تاکہ چینل کا پیٹ بھرا رہے لیکن موجودہ نسل اب سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب اور انسٹاگرام کے دور میں چھوٹی سے چھوٹی ویڈیوز کو زیادہ ترجیح دیتی ہے اسی لیے اب چینل مالکان بھی اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے منی سیریز ڈراموں کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح لوگ پہلے ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے کرکٹ اور اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی طرف آگئے ہیں اسی طرح ٹی وی ناظرین کو بھی کم وقت میں بہتر چیز دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ بھی چھوٹے دورانیے کے فارمیٹ کا رخ کررہے ہیں۔
احتشام الدین کا مزید کہنا ہے کہ عام ڈراموں میں جہاں 700 سے 1000 سین شوٹ کرنے کے لیے 100سے 120 دن کی شوٹ درکار ہوتی ہے وہیں چھوٹے دورانیے کے پراجیکٹ کو شوٹ کرنے کے لیے مہینے سے بھی کم عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔اداکار بھی اس فارمیٹ کا حصہ بننے کے لیے تیار رہتے ہیں کیوں کہ اس کے ذریعے انہیں کم وقت میں مختلف کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔
معروف ڈرامہ نگار منیر قریشی عرف منو بھائی کہا کرتے تھے کہ اگر شہر کے کتے کچلہ کھا کے مر جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں کچلہ پسند ہے بلکہ یہ ہے کہ انہیں کچلہ کھانے کو دیا گیا۔ رواں برس کے آغاز میں نشر ہونے والی منی سیریز ‘سرِ راہ’ نے بھی ناظرین کا مزاج بدلا۔
اس سیریز میں اداکارہ صبا قمر نے ایک ایسی با ہمت لڑکی کا کردار ادا کیا جو اپنے باپ کی بیماری کے بعد اس کی ٹیکسی چلا کر گھروالوں کا پیٹ پالتی ہے اور اسی اثناء میں ان افراد کی مدد بھی کرتی ہے جو اس کی ٹیکسی میں سوار ہوتے ہیں۔