میری رائے

کشمیری محلے کا ونود بالی وڈ کا کامیاب پروڈیوسر کیسے بنا؟

Written by ceditor

کراچی — بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں تھری ایڈیسٹس، منا بھائی ایم بی بی ایس، پی کے، سنجو اور پرینیتا سے تو زیادہ تر فلم بین واقف ہیں۔ تاہم بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان تمام فلموں کے پیچھے ایک ہی پروڈیوسر ہے، ودھو وِنود چوپڑا, جن کے بطور ہدایت کار اپنے کارنامے بھی کسی سے کم نہیں۔

ستائیس سال کی عمر میں اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہونے سے لے کر مستقبل کے ہدایت کاروں سنجے لیلی بھنسالی اور راج کمار ہیرانی کو پہلا بریک دینے تک ونود چوپڑا نے خود بھی کئی فلموں کی ہدایت کاری کی، جن میں متعدد ہندی فیچر فلموں کے ساتھ ساتھ ایک ہالی وڈ فلم ‘بروکن ہورسز’ بھی شامل ہے۔

ان کی ہدایات میں بننے والی فلمیں خاموش، پرندہ، 1942 اے لو اسٹوری، مشن کشمیر اور ایکلویا، دی رائل گارڈ ان کی پروڈیوس کردہ فلموں جتنی کامیاب تو نہیں ہوئیں لیکن انہوں نے کافی بزنس کیا تھا۔

حال ہی میں ریلیز ہونے والی اپنی کتاب ‘انسکرپٹڈ، کونورزیشن اون لائف اینڈ سنیما’ کے لیے انہوں نے معروف اسکرپٹ رائٹر ابھیجت جوشی سے گفتگو کی جس میں انہوں نے اپنے بارے میں کئی چونکا دینے والے انکشاف کیے جس میں سرفہرست معروف پاکستانی مصنف ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مداح ہونا ہے۔

اس کے علاوہ ان انکشافات میں کہیں ان کے سوتیلے بڑے بھائی معروف ہدایت کار رامانند ساگر کا ذکر ہے تو کہیں امیتابھ بچن کے ان پانچ الفاظ کا تذکرہ جن کی وجہ سے ونود چوپڑا کا خود پر اعتماد بڑھا۔

بھارتی صدر کے سامنے ایوارڈ تقریب میں آگ بگولا ہونا

اس کتاب کے آغاز میں ہی ودھو ونود چوپڑا نے اپنی پہلی فلم ‘مرڈر ایٹ منکی ہل’ پر بات کی جس پر انہیں 24 سال کی عمر میں چھوٹے دورانیے کی بہترین فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اسٹیج پر انعام میں ملنے والے چار ہزار روپے کے بجائے بھارتی صدر نیلم سنجیا ریڈی نے پوسٹل بانڈز دیے تو وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔

انہوں نے اسٹیج پر موجود اس وقت کے وزیرِ اطلاعات لال کرشن ایڈوانی سے پوچھا کہ وہ پیسے کہاں ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

جس پر ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ یہی ان کا انعام ہے۔

اس بحث کا اختتام بھارتی صدر کی مداخلت پر ہوا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی کیوں کہ ساری بحث ٹی وی پر براہِ راست نشر ہو رہی تھی۔

اگلے دن جب بھارتی وزیر نے ونود چوپڑا کو اپنے آفس مدعو کیا تو انہیں پتا چلا کہ 24 سال کا جو لڑکا ان سے بانڈ کی جگہ پیسوں کا دعویٰ کررہا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں سے 1200 روپے ادھار لے کر دہلی کا ٹرین ٹکٹ لیا اور انہی پیسوں سے وہ 60 روپے کی نئی شرٹ خریدی جس کو پہن کر وہ اپنا انعام لینے اسٹیج پر گیا تھا۔

یہ کہانی سننے کے بعد نہ صرف ایل کے ایڈوانی نے انہیں ان کا نقد انعام دیا بلکہ ناشتہ بھی کرایا جس کے بعد دونوں میں گہری دوستی ہوگئی تھی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایل کے ایڈوانی ان کی اب تک ریلیز ہونے والی آخری فلم ‘شکارا’ دیکھنے والے پہلے شخص تھے جس کے بعد وہ آبدیدہ بھی ہوگئے تھے۔

ستائیس سال کی عمر میں آسکرز کے کیے نامزدگی

اس کتاب میں جس انداز میں ودھو ونود چوپڑا نے ملک سے باہر اپنے پہلے ہوائی سفر کے بارے میں بتایا اسے پڑھ کر ان کی فلمیں ‘پی کے’ اور ‘ تھری ایڈیٹس’ کا خیال آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 1978 میں ریلیز ہونے والی ان کی شارٹ فلم ‘این اینکاؤنٹر ود فیسز’ کو اگلے سال آسکرز میں چھوٹے دورانیے کی بہترین دستاویزی فلم کے لیے نامزد کیا گیا تو انہیں یقین نہیں آیا۔

انہیں اخبار میں خبر پڑھ کر تسلی ہوئی تو انہیں اندازہ ہوا کہ نہ تو ان کے پاس پاسپورٹ تھا نہ ویزا۔

یہاں بھی ایل کے ایڈوانی ہی ان کے کام آئے جنہوں نے پولیس سے تصدیق کرائے بغیر صرف دو گھنٹے میں ان کا پاسپورٹ بنوایا بلکہ ایئر انڈیا کی اکانومی کلاس کا ٹکٹ اور 60 روپے ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے بھی بھارتی حکومت کی طرف سے دلوائے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی کیوں کہ ویزا لینے کے لیے جب ودھو ونود چوپڑا نئی دلی سے ممبئی پہنچے تو ویک اینڈ کی وجہ سے امریکی قونصل خانہ بند تھا۔

ایسے میں واچ مین سے ہونے والی تکرار سن کر اندر سے ایک افسر باہر آیا جسے پہلے تو یہ یقین نہیں آیا کہ جو نوجوان ان سے مخاطب ہے اس کی فلم آسکرز کے لیے نامزد ہوئی ہے لیکن بعد میں ان کی روداد سن کر آدھے گھنٹے میں انہیں امریکی ویزا لگا کر دے دیا۔

جب ودھو ونود چوپڑا قونصل خانے سے کامیاب لوٹ رہے تھے تو اسی افسر نے انہیں مشورہ دیا کہ اگلی مرتبہ باہر کوئی جھگڑا نہ کرنا۔

انہوں نے اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں شرکت اور معروف ہدایت کاروں سے ملاقات کا احوال بھی اس کتاب میں بتایا۔

اور پھر کرنل ونود نے پیچھے سے گولی چلائی

اسی کتاب میں ودھو ونود چوپڑا نے بتایا کہ انہیں پاکستانی مصنف ابن صفی کے ناولوں سے جنون کی حد تک محبت تھی اور 17 سال کی عمر تک انہوں نے جاسوسی دنیا کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر مہینے ابن صفی کا ایک ناول منظر عام پر آتا تھا جس کا وہ انتظار کرتے تھے اور ریلیز سے ایک رات قبل ہی دکان کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ جو بھی دوست کتاب خریدتا تھا، پہلے وہ پڑھتا تھا اور اس کے بعد دوسروں کو دیتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جاسوسی دنیا کے ہندی ورژن میں کرنل فریدی کی جگہ مرکزی کردار کا نام کرنل ونود ہوتا تھا جو ہر ناول میں مشکل سے مشکل کیس کو حل کرتا تھا۔

اسی لیے جب کوئی ان کے سامنے شیکسپیئر کی بات کرتا ہے تو وہ جواب میں ابن صفی کا کوئی جملہ سنادیتے ہیں۔

ان کےخیال میں چونکہ ان کے والد کا تعلق پشاور سے تھا جو بعد میں نوکری کے سلسلے میں کشمیر ہجرت کرگئے تھے، اسی لیے انہیں شاعری سے بھی لگاؤ تھا اور شاید اسی وجہ سے مرزا غالب اور فیض احمد فیض ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔

معروف ہدایت کار نے فلم ‘1942، اے لو اسٹوری’ کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کا بھی ذکر کیا۔

ان کے مطابق شوٹنگ کے بعد ایک دن انہوں نے اداکار پران کے سامنے مرزا غالب کا کوئی شعر پڑھا جس پر سینئر اداکار بہت حیران ہوئے۔

جب ودھو ونود چوپڑا نے انہیں بتایا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک چھوٹے سے علاقے سے ہے تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سیٹ پر لوگوں سے ان کا برتاؤ انگریزوں والا ہوتا ہے اس لیے انہیں یقین نہیں آیا۔

امیتابھ بچن سے ملاقات سے لے کر انہیں ڈانٹنے تک کا سفر

ہدایت کار ودھو ونود چوپڑا نے اس کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ امیتابھ بچن کا ان کے کریئر پر بہت بڑا احسان ہے۔1970 کی دہائی کے آخر میں جب امیتابھ بچن نے ان کی شارٹ فلم ‘مرڈرڑ ایٹ منکی ہل’ دیکھی تو ان کے سوال ‘وین ڈو وی ورک ٹوگیدر’ یعنی ہم ساتھ کب کام کررہے ہیں؟ نے انہیں وہ حوصلہ دیا جس کی انہیں تلاش تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کےبعد ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بگ بی کے ساتھ کام کرنے کے لیے انہیں 30 سال انتظار کرنا پڑے گا اور جب وہ انہیں ‘ایکلویا، دے رائل گارڈ’ میں ہدایات دیں گے تو انہیں سیٹ پر لیٹ آنے پر ڈانٹ بھی دیں گے۔

اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وقت کے پابند امیتابھ بچن کے سیٹ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے نیچرل لائٹ مِس ہوئی تو انہوں نے بطور پروڈیوسر و ہدایت کار بگ بی کے اسسٹنٹ پروین کو زور سے اس لیے ڈانتا تاکہ اداکار تک آواز پہنچ جائے جس کی وجہ سے اگلے دن وہ کال ٹائم سے ایک گھنٹہ پہلے ہی سیٹ پر موجود تھے۔

جب ان سے جلدی آنے کی وجہ پوچھی گئی تو پہلے انہوں نے بتایا کہ ان کے میک اپ میں وقت لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ جلدی نہیں آسکے تھے جب کہ جلدی سیٹ پر پہنچنے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہدایت کار کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔

ودھو ونود چوپرا نے اس کتاب میں ہالی وڈ اداکار پیٹر او ٹول سے بھی متعدد ملاقات کا احوال بتایا جب کہ ہالی وڈ کے لیے بنائی جانے والی اپنی واحد فلم ‘بروکن ہورسز’ کا بھی ذکر کیا جو باکس آفس پر تو کامیاب نہ ہوسکی لیکن جس کی ہدایت کاری کرکے انہوں نے اپنا خواب پورا کیا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor