اسپورٹس

کرکٹ کے وہ میچز جن پر اب بھی انگلیاں اٹھتی ہیں

Written by Omair Alavi

کراچی — 

کرکٹ کا کھیل بھی عجیب ہے۔ کسی دن اچھی ٹیم میچ جیت جاتی ہے اور کسی دن اچھی ٹیم خراب کارکردگی کی وجہ سے شکست کھا جاتی ہے۔ ماضی میں ایسے کئی میچز گزرے ہیں جن میں ایک ٹیم کے جیتنے سے زیادہ دوسرے کی ہار پر شائقین کو تعجب ہوا ہے۔

کمزور ٹیم کا منجھی ہوئی ٹیم کو شکست دینا یا مضبوط ترین دو ٹیموں کے درمیان مقابلے کے دوران اچانک میچ کا پلڑا ہاری ہوئی ٹیم کی جانب جھکنے کے کئی واقعات کرکٹ کی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔

تازہ ترین مثال بھارت اور سری لنکا کے درمیان 2011 کے ورلڈ کپ فائنل کو ہی لے لیں جسے نو برس بعد مشکوک قرار دیتے ہوئے تحقیقات شروع کی گئی لیکن سری لنکن کرکٹ بورڈ نے یہ کہہ کر تحقیقات ختم کر دیں کہ الزامات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملے۔

بھارتی شہر ممبئی کے واکھنڈے اسٹیڈیم میں ورلڈ کپ 2011 کا فائنل مقابلہ تھا اور سری لنکن ٹیم بھارت کے خلاف ابتدا میں مضبوط دکھائی دی لیکن پھر خراب فیلڈنگ اور بالنگ کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے میچ نکل گیا۔

ورلڈ کپ میں ٹیم کی شکست پر سری لنکا کے سابق وزیرِ کھیل مہندا نندا الوتھ گاماگے نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس کے بعد سری لنکن پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔

سری لنکن پولیس نے کیس کی تفتیش کے لیے کئی سابق کھلاڑیوں سے پوچھ گچھ کے بعد گزشتہ جمعے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے تحقیقات سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

لیکن شائقین کے دماغ میں کچھ سوالات ایسے ہیں جو شاید کبھی دم نہیں توڑیں گے۔ کیا ایک مضبوط ٹیم ہونے کے باوجود یہ میچ سری لنکا نے جان بوجھ کر ہارا؟ یا بھارت نے کچھ لے دے کر دوسری بار عالمی کپ اپنے نام کیا؟

مذکورہ میچ پر اٹھنے والے سوالات کی طرح کرکٹ کی تاریخ میں ایسے کئی مشکوک ون ڈے میچز ہیں جو وقت کے ساتھ بھلائے نہیں بھولتے۔

پاکستان مقابلہ بھارت (ورلڈکپ 2011، سیمی فائنل)

بھارت نے پاکستان کو سیمی فائنل میں شکست دے کر ورلڈکپ 2011 کے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔
بھارت نے پاکستان کو سیمی فائنل میں شکست دے کر ورلڈکپ 2011 کے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈکپ 2011 کا سیمی فائنل وہی میچ تھا جس میں فاسٹ بالر شعیب اختر کو ڈراپ کر کے وہاب ریاض کو کھلایا گیا اور انہوں نے پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ سچن ٹنڈولکر کئی چانسز ملنے کے باوجود بھی 15 رنز کی کمی کی وجہ سے اپنی ریکارڈ 100ویں سنچری نہ بنا سکے، اور پاکستان ٹیم 261 رنز کے جواب میں صرف 231 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

شائقینِ کرکٹ اور خاص طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو تو یہ میچ کسی اور حوالے سے یاد ہے۔ اسی میچ کے دوران سچن ٹنڈولکر کو آف اسپنر سعید اجمل نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ ری پلے میں بھی صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارتی بلے باز آؤٹ ہیں، لیکن جب آن فیلڈ امپائر نے تھرڈ امپائر سے مدد مانگی تو ہاک آئی سمیت ہر قسم کی ٹیکنالوجی نے بھارتی بیٹسمین کا ساتھ دیا۔

اس بات کو یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے متعدد کیچز ڈراپ کرنا، مصباح الحق کا حد سے زیادہ سست بیٹنگ کرنا، باقی بیٹسمینوں کا بغیر بڑا اسکور بنائے آؤٹ ہو جانا اور دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کا گراؤنڈ میں موجود ہونا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

سب سے بڑھ کر اس میچ میں پاکستان کی قیادت کرنے والے شاہد آفریدی کا وہ بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانیوں کا دل بڑا ہوتا ہے، آج تک لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

ویسٹ انڈیز بمقابلہ کینیا (ورلڈکپ 1996)

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب 2011 ورلڈ کپ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ میچز کا نتیجہ شائقین کی امیدوں کے برعکس آیا؟ 1996 میں جب پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں میگا ایونٹ کا انعقاد ہوا تو دیگر ٹیموں کی طرح تین ایسوسی ایٹ ٹیموں نے بھی ایونٹ میں شرکت کی۔

متحدہ عرب امارات، نیدر لینڈز اور کینیا نے پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا۔ تینوں ٹیموں میں سب سے بہتر کارکردگی نیدرلینڈز کی تھی لیکن کامیابیاں متحدہ عرب امارات اور کینیا کےحصے میں آئی۔

متحدہ عرب امارات نے تو اپنے گروپ میں موجود ایسوسی ایٹ ٹیم نیدرلینڈز کو شکست دے کر پہلا انٹرنیشنل میچ جیتا، لیکن کینیا کی کامیابی پر خود کینیا کی ٹیم کو بھی اس وقت یقین مشکل سے ہی آیا ہو گا، کیوں کہ انہوں نے کسی معمولی ٹیم کو نہیں بلکہ دو بار کی عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز ٹیم کو اپ سیٹ شکست دی تھی۔

کینیا نے ورلڈکپ 1996 کے ایک میچ میں ورلڈکلاس ویسٹ انڈیز کو اپ سیٹ شکست دی تھی۔ (فائل فوٹو)
کینیا نے ورلڈکپ 1996 کے ایک میچ میں ورلڈکلاس ویسٹ انڈیز کو اپ سیٹ شکست دی تھی۔ (فائل فوٹو)

اس میچ کو ورلڈ کپ کرکٹ کی تاریخ کے بڑے اپ سیٹ میچز میں سے ایک نہ کہا گیا تو غلط ہو گا، میچ میں ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا، اسٹیو ٹکولو کے 29 رنز کی بدولت کینیا کی ٹیم ویسٹ انڈیز کو جیت کے لیے 167 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب ہوئی۔

جواب میں پہلے دو ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم اور اسٹارز سے لیس ویسٹ انڈین ٹیم 36ویں اوور میں صرف 93 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ شیو نارائن چندرپال کے 19 اور راجر ہارپر کے 17 رنز کینیا کو شکست دینے کے لیے ناکافی رہے۔ دونوں کے علاوہ کوئی بھی کھلاڑی ڈبل فیگر میں بھی جگہ نہ بنا سکا جس میں برائن لارا، کارل ہوپر اور کپتان رچی رچرڈسن شامل تھے۔

کینیا کے کپتان موریس اوڈمبے کی اس تاریخی کامیابی میں شاندار کارکردگی سب کو یاد ہے۔ انہوں نے 10 اوورز میں صرف 15 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جس میں ٹاپ اسکورر شیونارائن چندرپال، جمی ایڈمز اور راجر ہارپر شامل تھے۔

سنہ 2004 میں بک میکرز سے تعلقات ثابت ہونے کے بعد موریس اوڈمبے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور کینیا کرکٹ نے پانچ سال کی پابندی لگا دی۔ ان کی پابندی کے بعد ہی ماہرین کو خیال آیا کہ اس اپ سیٹ میچ میں بیٹنگ کرتے وقت انہوں نے 30 گیندوں پر صرف 6 رنز بنائے۔ اور پھر کرکٹ کے سب سے مشکوک طریقے ہٹ وکٹ یعنی اپنی ہی وکٹ سے ٹکرا جانے کی وجہ سے آؤٹ ہوئے۔

بھارت بمقابلہ جنوبی افریقہ (1996)

سنہ 1996 میں جنوبی افریقہ کا دورۂ بھارت اسی میچ سے اختتام پذیر ہوا، لیکن سابق کرکٹر مہندر امرناتھ کے بینیفٹ میچ کی حیثیت سے کھیلے گئے اس میچ میں سب کچھ عجیب ہی ہوا۔

اس میچ کا پہلے تو کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ دونوں ٹیمیں تین ملکی ٹائٹن کپ میں مدِ مقابل آچکی تھیں۔ دوسرا ٹاس سے کچھ دیر پہلے بینیفٹ میچ سے اچانک آفیشل ون ڈے انٹرنیشنل کا درجہ دے دیا گیا۔ تیسرا جنوبی افریقی وکٹ کیپر ڈیو رچرڈسن جنہوں نے اپنے کریئر میں کم ہی میچز مس کیے، انہوں نے اس میچ میں شرکت نہیں کی۔ آخر میں 268 رنز کے تعاقب میں پوری جنوبی افریقی ٹیم 193 رنز پر آؤٹ ہو گئی اور ماسوائے دو کھلاڑیوں کے، باقی ٹیم کا اسٹرائیک ریٹ 60 سے نیچے رہا۔

ان سب باتوں پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو اس لیے شک ہوا کیوں کہ اس میچ میں جنوبی افریقی ٹیم کی قیادت ہینسی کرونیئے کر رہے تھے۔ وہی ہینسی کرونئیے جنہوں نے چار سال بعد کنگز کمیشن کے سامنے میچ فکسنگ کا اعتراف کیا، وہ کرونیئے جن کے بارے میں ساتھی کھلاڑی پیٹ سمکاکس نے اعتراف کیا تھا کہ اس میچ سے قبل ٹیم میٹنگ میں میچ فکس کرنے کی بات کی تھی جسے ٹیم نے مذاق سمجھ کر ٹال دیا تھا۔

پیٹ سمکاکس کا کنگز کمیشن کے سامنے بیان اس ون ڈے انٹرنیشنل میچ کو مشکوک بناتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماسٹر بلاسٹر سچن ٹنڈولکر کی سنچری، اجے جڈیجا کے 54 رنز اور وینکاٹیش پرساد کی پانچ وکٹوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا گیا۔

جنوبی افریقہ بمقابلہ آسٹریلیا (سیمی فائنل، ورلڈ کپ 1999)

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیمی فائنل ٹائی ہوا تھا لیکن بہتر رن ریٹ پر آسٹریلوی ٹیم کامیاب قرار پائی تھی۔
آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیمی فائنل ٹائی ہوا تھا لیکن بہتر رن ریٹ پر آسٹریلوی ٹیم کامیاب قرار پائی تھی۔

ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں مدِ مقابل تھیں۔ اس میچ کی قیادت بھی ہینسی کرونیئے کر رہے تھے۔

اس وقت دنیا کے بہترین فیلڈرز میں شمار ہونے والے ہرشل گبز کا ایک نازک موڑ پر مخالف ٹیم کے کپتان اسٹیو وا کا کیچ گرانا ہو، کپتان ہینسی کرونیئے کا دوسری گیند پر بغیر رن بنائے آؤٹ ہو جانا ہو، میچ کے آخر میں پال رائفل کا کیچ نہ پکڑنا بلکہ گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچانا یا آخری اوور میں لانس کلونسر کا ایک ناکام رن آؤٹ کی کوشش کے فوراً بعد دوبارہ رن لینا ہو، یہ سب کچھ اور بہت کچھ اس میچ کے نتیجے کو مشکوک بناتا ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کرکٹ میں سپر اوور متعارف نہیں ہوا تھا اور چوں کہ دونوں ٹیموں نے 213، 213 رنز بنائے تھے۔ اس لیے گروپ اسٹیج میں بہتر رن ریٹ کی وجہ سے آسٹریلوی ٹیم نے فائنل میں جگہ بنائی۔

آسٹریلیا بمقابلہ بنگلہ دیش (نیٹ ویسٹ سیریز، 2005)

اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم 2005 میں اس وقت کی عالمی چیمپئن آسٹریلیا کو ایک میچ میں شکست دے چکی ہے، تو آپ کے لیے یہ حیرانی کا باعث ہو گا۔ لیکن اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ اس میچ کے ہیرو محمد اشرفل پر بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے بعد میں مبینہ میچ فکسنگ کی وجہ سے آٹھ سال کی پابندی لگا دی تھی، تو آپ میں بھی تجسس پیدا ہو گا کہ آخر اس میچ میں ہوا کیا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ آسٹریلیا نے بنگلہ دیش کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کی اور مقررہ 50 اوورز میں 249 رنز بنائے۔ جواب میں 49ویں اوور کی دوسری گیند پر بنگلہ دیش نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر نہ صرف ہدف حاصل کیا بلکہ محمد اشرفل نے 100 گیندوں پر ون ڈے انٹرنیشنل سنچری بھی مکمل کی۔

ایسا نہیں تھا کہ آسٹریلوی ٹیم میں کوئی نامور بالر نہیں تھا، اس دن جیسن گلیسپی نے دو اور مائیکل کیسپرووچ اور بریڈ ہاگ نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا تھا۔ گلین میک گرا بنگلہ دیش کے خلاف وکٹ لینے سے قاصر رہے اور مخالف ٹیم کے لیے محمد اشرفل سچن ٹنڈولکر سے بھی بڑے بیٹسمین ثابت ہوئے۔

وہ الگ بات ہے کہ محمد اشرفل کو ان کی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے کرکٹ سے بے دخل کیا گیا تو سب کا خیال اسی میچ کی طرف گیا۔

آسٹریلیا بمقابلہ جنوبی افریقہ (جوہانسبرگ، 2006)

اب بات اُس معرکۃ الآرا میچ کی جو آج نہیں تو کل مشکوک ضرور ڈکلیئر ہو گا۔ اس میچ میں نہ تو پاکستان ٹیم شامل تھی، نہ ہی بھارت نے اس میں حصہ لیا تھا اور نہ ہی سری لنکن کھلاڑیوں کا اس سے کوئی تعلق تھا۔

یہ میچ تھا آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان 2006 میں کھیلی گئی سیریز کا آخری معرکہ جس میں ریکارڈز کی بارش تو ہوئی، لیکن کچھ ایسے سوال بھی اٹھے جن کا جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں۔

اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں آسٹریلوی ٹیم 434 جیسا پہاڑ اسکور بنا کر بھی ہار گئی، جواب میں جنوبی افریقی ٹیم نے میچ ختم ہونے سے ایک گیند قبل 438 رنز اسکور کر کے ہدف کا تعاقب بھی کیا۔

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان جوہانسبرگ میں کھیلا گیا میچ اب تک کا ہائی اسکورنگ میچ تھا۔ (فائل فوٹو)
آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان جوہانسبرگ میں کھیلا گیا میچ اب تک کا ہائی اسکورنگ میچ تھا۔ (فائل فوٹو)

میچ ہینسی کرونئیے کی موت کے بعد کھیلا گیا لیکن انہی کی سر زمین پر اور اس میں سب سے زیادہ 175 رنز اسی ہرشل گبز نے بنائے جو چھ سال قبل میچ فکسنگ کے شبے میں چھ ماہ کرکٹ سے دور رہ چکے تھے۔

دوسری جانب میچ کے فائنل اسکور کارڈ پر نظر ڈالی جائے تو کپتان رکی پونٹنگ کی منطق سمجھ نہیں آتی۔ بریٹ لی، اسٹورٹ کلارک، اینڈریو سائمنڈز اور مائیکل کلارک کی موجودگی میں مک لیوس نامی ایسے بالر سے بالنگ کرائی جیسے وہ ڈینس للی ہوں۔

ایسا نہیں تھا کہ ان بالرز کے اوورز ختم ہو گئے تھے، اسٹورٹ کلارک کے چار، مائیکل کلارک کے تین، بریٹ لی کے دو اوورز اور اینڈریو سائمنڈ کا ایک اوور باقی تھا۔ اس کے باوجود میچ میں مک لیوس پر انحصار کرنا سمجھ نہیں آتا۔ اس دن مک لیوس نے 10 اوورز میں 113 رنز دے کر دنیا کے مہنگے ترین بالر ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور اس کے بعد کبھی آسٹریلوی ٹیم کی دوبارہ نمائندگی نہیں کی۔

رکی پونٹنگ نے مک لیوس کا انتخاب کیوں کیا اور پھر ان پر اتنا اندھا اعتماد کیا کہ 434 بھی کم ہدف نکلا۔ یہ سب میچ کو مشکوک بھی بناتا ہے اور یادگار بھی، مشکوک شائقین کے لیے اور یادگار ریکارڈ بنانے والوں کے لیے۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔