اسپورٹس

پاکستان ٹیم کو بھارت کا ویزا مل گیا، لیکن کئی چیلنجز برقرار

Written by ceditor

کراچی — بھارتی ہائی کمیشن نے کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ویزے جاری کر دیے ہیں جس کے بعد گرین شرٹس بدھ کی صبح براستہ دبئی، بھارت روانہ ہوں گے۔

سلیکشن کے معاملے پر تنقید کے علاوہ بھارت میں سیکیورٹی، کھلاڑیوں کے کانٹریکٹس سمیت اب بھی کئی چیلنجز پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منتظر ہیں۔

ایونٹ میں شرکت کے لیے سب سے آخر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ویزا جاری کیا گیا، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب زیادہ تر ٹیمیں تیاری کے سلسلے میں یا تو بھارت میں موجود ہیں یا پھر بنگلہ دیش اور سری لنکا میں۔

یہی نہیں، 29 ستمبر کو حیدرآباد دکن میں ہونے والے پاکستان نیوزی لینڈ کے وارم اپ میچ میں سیکیورٹی دینے سے بھی مقامی پولیس نے انکار کر دیا ہے۔

ایسے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کیا کر رہی ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ خاموش کیوں ہے؟ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں، مینجمنٹ کو سب سے آخر میں ویزا کیوں ملا؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کو ورلڈ کپ میں شرکت سے قبل سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش تھا وہ بھارتی ویزے کا تھا۔

گرین شرٹس کو روانگی سے دو دن قبل یعنی پیر کی رات بھارت کا ویزا جاری کیا گیا، اس تاخیر کی وجہ سے مینجمنٹ کو دبئی میں شیڈول ٹیم بلڈنگ ایکسر سائز ملتوی کرنی پڑی جس کا مقصد کھلاڑیوں کو دماغی طور پر میگا ایونٹ سے قبل تیار کرنا تھا۔

پاکستانی کھلاڑیوں کے ویزا مسائل کی جانب سب سے پہلے اشارہ سابق کپتان راشد لطیف نے دیا جنہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرکے لکھا کہ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ اور ان کے بیٹے جے شاہ بھارتی حکومت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ نے جب اس بارے میں اسپورٹس صحافی عبدالرشید شکور سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ویزے جاری نہ کرنا یا تاخیر سے جاری کرنا بھارت کا ایک ایسا ہتھیار ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف پہلے بھی کئی مرتبہ استعمال کر چکا ہے۔

اُن کے بقول سن 2017 میں بھارت میں ہونے والا ورلڈ جونئیر اسکواش ایونٹ ہو یا 2018 میں ایشین ریسلنگ چیمپئن شپ، پاکستانی کھلاڑیوں کو بھارت نے ویزے جاری نہیں کیے تھے، اس لیے اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

ان کے خیال میں جب جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا ہے تب تب بھارتی حکومت نے ‘ایکسٹرنل منسٹری’ کا بہانہ بنا کر کھلاڑیوں کو ویزا جاری کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت سے آنی والی خبروں کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کے پاسپورٹ دیر سے جمع کروائے جس کی وجہ سے یہ تاخیر ہوئی، جب کہ پی سی بی نے اس تاثر کو رد کیا ہے۔

رشید شکور نے کہا کہ ایسے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آئی سی سی بھارت کے زیر اثر ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ ہی کی دنیائے کرکٹ پر حکمرانی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی ملک چاہے وہ انگلینڈ ہو یا آسٹریلیا، ان کے سامنے آواز نہیں اٹھاتا جس کی سب سے بڑی وجہ انڈین پریمئیر لیگ میں ان کے کھلاڑیوں کی شرکت ہے۔

‘سینٹرل کانٹریکٹ کے معاملات بہت پہلے ہی طے ہو جانے چاہیئں تھے’

ایک اور معاملہ جس پر اس وقت کھلاڑیوں اور بورڈ میں ڈیڈ لاک ہے وہ ہے سینٹرل کانٹریکٹ پر دستخط کا مسئلہ، ایک رپورٹ کے مطابق کھلاڑیوں کو چار ماہ سے ان کے واجبات کی ادائیگی صرف اس لیے نہیں ہوئی کیوں کہ انہوں نے چند شقوں پر مختلف اعتراضات اٹھا کر نئے کانٹریکٹس پر دستخط نہیں کیے۔

اسپورٹس صحافی سلیم خالق نے اس بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میگا ایونٹ سے قبل سینٹرل کانٹریکٹ کا معاملہ سامنے آنا اچھی بات نہیں، کھلاڑیوں کو جو بھی تحفظات تھے اسے بہت پہلے ہی سلجھا لینا چاہیے تھا، لیکن شاید اس میں بھی کھلاڑیوں کی کچھ مجبوریاں تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ جس طرح کھلاڑیوں کو ویزا ملنے کا معاملہ حل ہوا، اسی طرح کانٹریکٹ کا معاملہ بھی حل کر لیا جائے گا۔

جب اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے پی سی بی کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تو بورڈ کے نمائندے نے بتایا کہ کانٹریکٹ کے حوالے سے ابھی بھی کھلاڑیوں اور بورڈ کے درمیان بات چیت چل رہی ہے اور اسے جلد حل کرلیا جائے گا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کا وارم اپ میچ، تماشائیوں کے بغیر کھیلا جائے گا!

پاکستانی ٹیم کو ویزے تو مل گئے اور شاید کھلاڑیوں کے کانٹریکٹ مسائل بھی حل ہو جائیں۔ لیکن تب بھی انہیں ایک بڑی مشکل کا سامنا ہو گا اور وہ ہے اپنا پہلا وارم اپ میچ بغیر تماشائیوں کھیلنا۔

یہ میچ 29 ستمبر کو بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں کھیلا جانا ہے جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی فی الحال کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ چوں کہ یہ ورلڈ کپ آئی سی سی کا ایونٹ ہے اس لیے اس بارے میں بہتر وہی بتا سکیں گے۔

اسپورٹس صحافی عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک وہ بھی میگا ایونٹ سے قبل افسوس ناک ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "میں نے پاکستان میں ہونے والے دونوں ورلڈ کپ کو ملا کر اب تک سات ورلڈ کپ کی کوریج کی ہے لیکن آج تک ایسی صورتِ حال نہیں دیکھی جو اب سامنے آ رہی ہے۔ یہ کہنا کہ جس دن پاکستان ٹیم وارم اپ میچ کھیل رہی ہے، مقامی تہوار کی وجہ سے سیکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی، مضحکہ خیز ہے۔

انہوں نے حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے ایک انٹرنیشنل میچ کا حوالہ بھی دیا جس میں مقامی پولیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سندھ سے نفری طلب کی گئی جس نے احسن طریقے سے سیکیورٹی فراہم کی۔

ماجد بھٹی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کا اثرو رسوخ دنیائے کرکٹ پر چاہے جتنا بھی ہو، اس کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے ورلڈ کپ خراب ہو رہا ہے جس سے کوئی اچھا تاثر باہر نہیں جا رہا۔

عمیر علوی وائس آف امریکا

About the author

ceditor