ڈرامہ سیریل ‘پری زاد’ کی کہانی عام طور پر نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں سے قدرے منفرد ہے جس میں ایک مرد کی داستان بیان کی گئی ہے۔
کراچی —
پاکستان میں ان دنوں نجی چینل ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ‘پری زاد’ کے چرچے ہو رہے ہیں جس میں اداکار احمد علی اکبر کی اداکاری کو خوب پسند کیا جا رہا ہے۔
ڈرامہ سیریل ‘پری زاد’ کی کہانی عام طور پر نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں سے قدرے منفرد ہے جس میں ایک مرد کی داستان بیان کی گئی ہے۔
اس ڈرامے کی کہانی مرکزی کردار ‘پری زاد’ کے گرد گھومتی ہے جسے اس کی رنگت اور غربت کی وجہ سے زندگی بسر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم ٹی وی کے ڈرامے ‘پری زاد’ کی اب تک 12 اقساط نشر ہو چکی ہیں جس میں اداکار احمد علی اکبر کے علاوہ اداکارہ اشنا شاہ، مشعل خان، یمنیٰ زیدی، صبور علی، عروہ حسین، نعمان اعجاز، لیلیٰ زبیری، مدیحہ رضوی، کرن تعبیر اور عدنان شاہ ٹیپو نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
ڈرامہ نگار ہاشم ندیم کے ناول ‘پری زاد’ سے ماخوذ اس ڈرامے کو مومنہ درید نے پیش کیا ہے جب کہ اس کی ہدایت شہزاد کشمیری نے دی ہے۔
‘پری زاد’ کی کہانی دیگر پاکستانی ڈراموں سے مختلف کیوں؟
‘پری زاد’ کی کہانی ایک ایسے لڑکے کے گرد گھومتی ہے جس کے والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی بھابیاں اسے اور اس کی بہن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتیں۔
پری زاد اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے خوب محنت کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی بہن کا بھی خیال رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈرامے میں اداکار احمد علی اکبر کی اداکاری کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔
ڈرامے میں ‘پری زاد’ کو کئی مرتبہ محبت ہوتی ہے۔ پہلی محبت اسے اپنے ہی محلے میں رہنے والی برقع پوش ناہید سے ہوتی ہے۔ جس کے بعد اس کا دل صائمہ عرف ‘ببلی بدمعاش’ کے لیے دھڑکتا ہے۔
اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ صائمہ پری زاد کے ساتھ نکاح سے ایک رات قبل ہی گھر سے بھاگ جاتی ہے جب کہ لبنیٰ کی والدہ اس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر ہی کروا دیتی ہیں۔
اس ڈرامے میں معاشرے کی اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں کی نظر میں کسی شخص کی صلاحیت سے زیادہ پیسوں کی اہمیت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ڈرامے کو خوب پذیرائی مل رہی ہے۔
دبئی کے اخبار ‘خلیج ٹائمز’ سے وابستہ پاکستانی صحافی سعدیہ رضا کے خیال میں پری زاد ڈرامہ اس وقت نشر ہونے والے تمام ڈراموں میں سے سب سے الگ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘پری زاد ‘کے کردار کو منفرد بنانے کے پیچھے مصنف ہاشم ندیم کی مثبت سوچ ہے۔
سعدیہ رضا کے بقول اس ڈرامے میں نہ تو ساس بہو کے جھگڑے ہیں اور نہ ہی عورت عورت کی دشمن ہے بلکہ اس ڈرامے میں ”ایک بیچارے مرد کو دو عورتوں کے بیچ میں پھنسا ہوا نہیں دکھایا گیا۔”
ان کا کہنا ہے کہ ‘پری زاد’ میں مرکزی کردار ایک ایسے مرد کا ہے جس میں کئی مَردوں کو اپنی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
ہاشم ندیم کی جانب سے پذیرائی باعث فخر ہے: مشعل خان
ڈرامے میں لبنیٰ کا کردار ادا کرنے والی مشعل خان کا ماننا ہے کہ کوئی کردار چھوٹا نہیں ہوتا، اچھا اداکار چھوٹے سے چھوٹے کردار کو بھی اپنی صلاحیت سے یادگار بنا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرامہ نگار ہاشم استادوں کے استاد ہیں اور جب انہوں نے میری اداکاری کی تعریف کی تو مجھے دو سے تین دن تک یقین ہی نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہاشم صاحب نے لبنیٰ کے رول کے لیے میرے منتخب ہونے کو بہترین قرار دیا تو مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن ساتھ ہی میرے اوپر ذمہ داری بھی بڑھ گئی اور میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔
‘یہ تاثر غلط ہے کہ ڈرامے صرف عورتیں دیکھتی ہیں’
صحافی مہوش اعجاز سمجھتی ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پری زاد ایک انوکھا ڈرامہ ہے جو عورتوں کے بجائے مرد کی کہانی بیان کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں کئی ڈرامے ایسے بنے جس میں مرد ہی کو مرکزی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے اور وہ مقبول بھی ہوئے ہیں جن میں ‘میرے پاس تم ہو’، ‘خدا اور محبت’ اور ‘رقصِ بسمل’ وغیرہ شامل ہیں۔
‘پاکستانی ڈرامے میں مرد کی کہانی بھی بیان ہونی چاہیے’
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک سوشل میڈیا شخصیت ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستانی ڈرامے صرف عورتیں نہیں مرد بھی دیکھتے ہیں۔
مہوش اعجاز کے بقول ‘پری زاد’ کی کامیابی کی وجہ اس کی پیچیدہ کردار نگاری ہے اور جب بھی کوئی کردار سوچ سمجھ کر لکھا جاتا ہے تو ناظرین اسے پسند کرتے ہیں۔
ان کے مطابق خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو نقادوں کے ساتھ عوام بھی پسند کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں ہدایت کار شہزاد کشمیری کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کیوں کہ انہوں نے ڈرامے میں پری زاد کی مجبوری دکھائی ہے تا کہ لوگوں کو اس کی تکلیف، محنت اور پیش رفت کا اندازہ ہو سکے۔
صحافی مہوش اعجاز سمجھتی ہیں کہ ‘پری زاد’ ماڈرن داستانی ادب ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسی قسم کی متوازن کہانیاں مزید بننی چاہئیں۔
ان کے بقول، پری زاد جیسے ڈرامے کو دیکھ کر مرد اور خواتین لکھاریوں کو یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ اگر وہ مرد کا کردار اچھی طرح لکھیں گے تو ان کے ڈرامے مقبول بھی ہوں گے اور سب انہیں پسند بھی کریں گے۔