کراچی —
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں دنیا کے تمام ممالک انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، وہیں پاکستان میں ایک بار پھر یوٹیوب بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے عندیہ دیا ہے کہ اگر ‘پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی’ (پی ٹی اے) نے یوٹیوب پر موجود پاکستانی فوج، عدالتِ عظمیٰ اور حکومت کے خلاف مواد پر ایکشن نہیں لیا تو عدالت کے پاس اس پلیٹ فارم پر پابندی لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ سن 2012 سے 2016 کے درمیانی عرصے میں پاکستان بھر میں یوٹیوب پر پابندی عائد تھی جس کی وجہ سے ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔
سن 2012 میں یوٹیوب کی بندش کی وجہ ویب سائٹ پر موجود اسلام مخالف ویڈیوز تھیں لیکن اس بار معاملات ذرا مختلف ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کے خراب مالی حالات، غیر اعلانیہ سینسر شپ اور پیمرا کے سخت قوانین کی وجہ سے کئی صحافیوں اور بلاگرز نے یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا ہوا ہے جس پر وہ حالاتِ حاضرہ سے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔
اپنے یوٹیوب چینلز پر کچھ صحافی اور بلاگرز بعض اوقات حکومت اور اداروں کے خلاف کچھ ایسی باتیں یا دعوے بھی کر جاتے ہیں جنہیں ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس بظاہر کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کا نشانہ بھی یہی یوٹیوب صفحات ہیں جن پر غیر مصدقہ باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔
لیکن یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ چند لوگوں کی غلطی کی سزا یوٹیوب کی بندش کی صورت میں پورے ملک کو دینا درست نہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی لگانے سے ایک طرف ملک ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا سے پیچھے رہ جائے گا، وہیں یوٹیوب سے پیسہ کمانے والے سیکڑوں لوگوں کا روزگار بھی ختم ہو جائے گا۔
یوٹیوب سے لوگ کس طرح پیسے کماتے ہیں؟
یوٹیوب پر کمائی کی اگر بات کریں تو ایک فقرہ ذہن میں آتا ہے کہ "جتنا گُڑ ڈالیں گے، اتنا میٹھا ہو گا۔” یعنی جتنی اچھی اور معیاری ویڈیوز پوسٹ کریں گے اتنے ہی ویوز بڑھیں گے اور زیادہ لوگ اسے لائیک، شیئر اور چینل کو سبسکرائب بھی کریں گے۔
یوٹیوب پر ایک ہزار ویوز پر ویڈیو پوسٹ کرنے والے کو تین سے پانچ ڈالرز ملتے ہیں۔ اسی طرح 10 لاکھ مرتبہ کوئی ویڈیو دیکھی جائے تو اس چینل کے مالک کو پانچ ہزار ڈالرز تک بھی مل جاتے ہیں۔ ویوز، لائیکس کے علاوہ پیسوں کا حساب اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ آپ کی ویڈیو کتنے لوگوں نے مکمل دیکھی اور کتنے لوگ اسے ادھورا چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
سن 2018 میں یوٹیوب سے سب سے زیادہ پیسے کمانے والا یوٹیوبر ایک سات سالہ بچہ رائن تھا جس نے اپنے چینل ‘رائن ٹوائز ریویو’ پر صرف کھلونوں سے متعلق ویڈیوز بنا کر ایک سال میں دو کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کمائے تھے۔
آٹھ سالہ بچے نے یوٹیوب سے دو کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کما لیے
اگر کسی یوٹیوب چینل پر کے ایک لاکھ سبسکرائبر ہوجائیں تو اسے یوٹیوب کی طرف سے ‘سلور کری ایٹر ایوارڈ’ ملتا ہے۔ دس لاکھ سبسکرائبرز مکمل پر گولڈ اور ایک کروڑ سبسکرائبرز پر ‘ڈائمنڈ کری ایٹر ایوارڈ’ ملتا ہے۔
ہر ایوارڈ کے ساتھ یوٹیوب انہیں حاصل کرنے والے پیجز کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے اور انہیں نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد ‘100 کے’ سبسکرائبرز مکمل کرے اور یوٹیوب سے ایوارڈ حاصل کر کے آگے بڑھے۔
یوٹیوب کی اصطلاح میں انگریزی حرفِ تہجی ‘کے’ کو ایک ہزار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ‘ون کے’ کا مطلب ایک ہزار۔
پاکستانی شوبز اسٹارز یوٹیوب پر کیوں آ رہے ہیں؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یوٹیوب چینلز کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ کیوں کہ اس پلیٹ فارم پر اپنے بات لوگوں تک پہنچانے میں نہ تو کوئی روک ٹوک ہے اور نہ ہی سینسر شپ۔ اور اگر آپ کی بات پسند کرنے والے لوگ زیادہ ہوں تو ویوز کے حساب سے پیسے بھی ملتے ہیں۔
اسی وجہ سے کئی ٹی وی ایکٹرز، نیوز اینکرز اور موسیقار بھی یوٹیوب پر اپنے آفیشل پیجز بنا چکے ہیں۔ یہ پیجز نہ صرف اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ چند ایک کو تو یوٹیوب کی جانب سے ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔
فلم ‘نامعلوم افراد’، ‘ایکٹر اِن لا’ اور ‘دی ڈونکی کنگ’ میں موسیقی دینے والے شانی ارشد طویل عرصے سے میوزک انڈسٹری سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے ٹی وی کمرشلز اور ڈراموں کے آفیشل ساؤنڈ ٹریکس کی اگر فہرست بنائی جائے تو شاید وہ کئی صفحات پر آئے گی۔
شانی ارشد نے بھی اپنا یوٹیوب چینل بنایا ہوا ہے جس پر اس وقت تقریباً 37 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔ شانی ارشد یوٹیوب کو فن کاروں کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شانی ارشد نے کہا کہ جس تیزی سے یوٹیوب کے مختلف چینلز پر سبسکرائبرز بڑھ رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زیادہ تر لوگ نہ صرف یوٹیوب دیکھ رہے ہیں بلکہ اس پر پبلش کیے جانے والے کانٹینٹ کو پسند بھی کر رہے ہیں۔
شانی ارشد نے بتایا کہ یہی رجحان دیکھ کر انہوں نے بھی اپنا آفیشل یوٹیوب چینل بنانے کا سوچا۔ ان کے بقول، "اس پر میں اپنی مرضی سے میوزک بناتا ہوں اور ریلیز کرتا ہوں۔ دن بدن میرے سبسکرائبرز بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس پر مجھے بہت جلدی ردعمل مل جاتا ہے جس کی وجہ سے میرے میوزک بنانے اور پوسٹ کرنے کی روانی بڑھ رہی ہے۔”
دوسری جانب اداکار فیصل قریشی کا یوٹیوب چینل بھی لوگ پسند کر رہے ہیں اور اسے سبسکرائب بھی کر رہے ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کے یوٹیوب چینل پر دو لاکھ 41 ہزار سبسکرائبرز ہو گئے ہیں جس کی ایک وجہ ان کا کثرت سے ویڈیوز بنا کر یوٹیوب پر پوسٹ کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ یوٹیوب پر آرٹسٹ جو بھی کام کرتا ہے وہ اس کا اپنا ہوتا ہے۔ اس پر کسی سے ہدایات لینے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
فیصل قریشی نے کہا کہ اپنے نام سے چینل ہونے کی وجہ سے انہیں یہ اطمینان ہے کہ لوگ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں اور صرف ان کی وجہ سے یہ چینل دیکھ رہے ہیں۔
فیصل قریشی کے بقول، "جب آپ کسی ٹی وی چینل کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو اس ڈرامے اور کردار کی سوچ کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ یوٹیوب چینل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ جیسی آپ کی شخصیت ہوتی ہے آپ ویسا ہی دکھا سکتے ہیں۔ آپ جو کرنا چاہتے ہیں یا کہنا چاہتے ہیں، وہ اپنے چینل کے ذریعے کھل کر کہہ سکتے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی یوٹیوب پر ہوں۔ اپنے بارے میں جو بات کرنا چاہتا ہوں، جو کہنا چاہتا ہوں، وہ کہتا ہوں۔ یوٹیوب ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ جس کے پاس ٹیلنٹ ہے وہ اسے یوٹیوب پر اچھی طرح دکھا سکتا ہے۔
شفاعت علی کا شمار پاکستان کے معروف اسٹیند اپ کامیڈینز میں ہوتا ہے۔ یوٹیوب پر ان کے سبسکرائبرز ایک لاکھ 21 ہزار سے زائد ہیں۔ شفاعت کئی برسوں سے ٹی وی سے بھی وابستہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں جو پذیرائی یوٹیوب چینل بنانے کے بعد ملی، اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شفاعت نے کہا کہ "سن 2016 سے پہلے میرے لیے سوشل میڈیا کا مطلب صرف ‘ٹوئٹر’ تھا۔ باقی تمام پلیٹ فارمز کو میں وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ لیکن ایک پارٹی میں میرا ایکٹ دیکھ کر گلوکار سجاد علی نے مجھے یوٹیوب چینل کھولنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت یوٹیوب پاکستان میں نیا نیا واپس آیا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے اس پر کام شروع کیا اور وہ دوبارہ بند ہو گیا تو میرا کیا ہو گا۔”
"خیر اللہ کا نام لے کر میں نے کچھ چیزیں یوٹیوب پر ڈالیں اور جب میرا کام وائرل ہونے لگا تو مزید محنت کی۔ ایک بار جب یوٹیوب پر کچھ وائرل ہو جائے تو آپ پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ لوگوں کی توقعات پر پورا اتریں۔”
ٹی وی کے مقابلے میں یوٹیوب پر کام مشکل ہے یا آسان؟
موسیقار شانی ارشد کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کریئر میں زیادہ تر اوریجنل ساؤنڈ ٹریکس، فلمیں یا ٹی وی سیریلز کیے ہیں۔ لیکن یو ٹیوب چینل کی وجہ سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کا کام سننے اور سراہنے کے لیے ناظرین کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کی ویڈیوز کا انتظار کرتے ہیں۔
ان کے بقول، "یوٹیوب چینل بنانے کے بعد سے مجھ میں یہ فرق آیا ہے کہ میں نے اپنا کانٹینٹ زیادہ بنانا شروع کیا۔ مجھے یہ نہیں دیکھنا پڑتا کہ کس جگہ پہ ریلیز کرنا ہے، کس سے ملنا پڑے گا یا کسی کی منظوری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یو ٹیوب پر ہر آرٹسٹ کے پاس اپنا چینل ہونا چاہیے۔”
فیصل قریشی سمجھتے ہیں کہ یوٹیوب پر جو آزادی انہیں میسر ہے وہ ٹی وی پر نہیں۔
"ٹی وی پر آپ باؤنڈ ہوتے ہیں، یوٹیوب پر آپ کو سب کچھ کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ متنازع باتیں کر کے اپنے چاہنے والوں کو ناراض کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اچھی بات کر کے لوگوں کو کچھ سکھاتے ہیں۔”
شفاعت علی کہتے ہیں کہ وہ اگر ٹی وی تک محدود رہتے تو لوگ ان کے بارے میں صرف اتنا ہی جان سکتے تھے جتنا ٹی وی پر آنے والے کسی شخص کو جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے 12 سال ٹی وی پر کام کیا اور چند لوگوں کے علاوہ مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں 12 سال مزید بھی کام کرتا تو یہی حال رہتا۔ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد مجھے دنیا بھر میں لوگوں نے پہچاننا شروع کیا۔ اسی پلیٹ فارم کی وجہ سے مجھے بھارت، دبئی اور نہ جانے کہاں کہاں سے آفرز آئیں۔ میں تو امید کر رہا ہوں کہ پاکستان میں یوٹیوب چلتا رہے۔”
یوٹیوب پر پابندی سے کس کا نقصان ہو گا؟
شانی ارشد کے بقول پاکستان میں یوٹیوب دوبارہ بند کرنے سے لوگوں کو بہت نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ "میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو نہ صرف یوٹیوب سے پیسے کما رہے ہیں، بلکہ کمایا جانے والا پیسہ دوبارہ اپنی ویڈیوز پر لگا کر اپنے کانٹینٹ کو مزید بہتر بنا رہے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کمائی سے ان کا گھر اور کاروبار دونوں چل رہے ہیں۔ یہ اپنے چینلز پر اتنی محنت کرتے ہیں کہ ان کا فل ٹائم کام ہی یہ بن چکا ہے۔ بہت سارے یوٹیوبرز نے اپنے اسٹوڈیوز بنائے ہیں، گھروں میں سیٹ لگائے ہیں، کیمرے خریدے ہیں اور دیگر آلات پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو ڈرونز بھی خریدے ہوئے ہیں۔ اگر یوٹیوب پر پابندی لگا دی گئی تو ان لوگوں کا کیا ہو گا؟
شانی ارشد نے مزید کہا کہ یو ٹیوب پر پابندی سے لوگوں کی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی۔ یہ وہ واحد وہ پلیٹ فارم ہے جو پاکستانیوں کو کانٹینٹ بنانے بھی دے رہا ہے اور اسے لگانے کے عوض پیسہ بھی دے رہا ہے۔ ایسی ویب سائٹ بند کرنا جس سے کافی لوگوں کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں، یہ اچھا فیصلہ نہیں ہو گا۔
فیصل قریشی کا کہنا ہے کہ انہیں یوٹیوب پر پابندی کا سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ کسی کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔
ان کے بقول، "یوٹیوب پر پابندی کی باتیں ہو رہی ہیں، میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ یوٹیوب کی وجہ سے بہت سارے لوگ اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا روزگار لگا ہوا ہے۔ ہر چیز پر پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ چاہے وہ ٹِک ٹاک ہو، بیگو بھی بند کر دیا ہے اور اب یوٹیوب۔ یہ اچھا نہیں ہو گا۔”
شفاعت علی کہتے ہیں کہ پاکستان یوٹیوب پر باقی دنیا سے پانچ سال پیچھے ہے۔ اگر اس پر دوبارہ پابندی لگی تو بہت برا ہو گا۔
"دنیا بھر کے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز ڈال کر، پیسہ بنا کر سائن آف کر گئے اور ہم ابھی بھی پہلی سیڑھی پر ہی قدم رکھ رہے ہیں۔ اگر اس پر پابندی لگی، جو میرا خیال ہے کہ نہیں لگے گی، تو وہ سارے لوگ جنہوں نے یوٹیوب کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے، ان کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ یو ٹیوب چلتے رہنا چاہیے، ورنہ بہت برا ہو گا۔”
اربابِ اختیار کو تجویز دیتے ہوئے شانی ارشد کا کہنا تھا کہ یوٹیوب بند کرنے کے بجائے اس کے کانٹینٹ پر نظر رکھی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ان لوگوں کو بلاک کرنا چاہیے جو خراب کانٹینٹ بنا رہے ہیں۔ پورا یوٹیوب بند کر دینا کوئی سمجھداری نہیں ہے۔