کراچی —
پاکستان میں ایک زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے علاقائی زبانوں میں ڈرامے نہ صرف مقبول ہوتے تھے بلکہ سندھی، بلوچی، پشتو، ہندکو اور سرائیکی زبان میں خبریں بھی سننے کو ملتی تھیں جب کہ ان زبانوں میں گیت بھی زبان زدِ عام ہوتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی وی کی نشریات صرف چند گھنٹوں پر محیط ہوتی تھیں لیکن اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن نے نشریات کا وقت بڑھا دیا تھا جس کی وجہ سے پہلے علاقائی زبانوں کی پروگرامنگ کم اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔
معروف ڈرامہ نگار ظفر معراج سمجھتے ہیں کہ جب تک پی ٹی وی زندہ تھا یہ تمام قومی زبانیں اپنی کہانیوں اور کرداروں کے ذریعے آپس میں پیوست تھیں۔ پی ٹی وی کا زوال صرف ان زبانوں کا زوال نہیں بلکہ ان کے کرداروں، کہانیوں، ڈراموں اور فن کاروں کا بھی زوال ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی زبانوں کے فروغ کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن نے کام تو کیا لیکن جب اس کی دلچسپی ان سے ہٹ گئی تو سب سے بڑا نقصان ملک کے کونے میں رہنے والوں کا ہوا جن کی اِن زبانوں کے پروگراموں سے شناسائی بنتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب لاہور میں رہنے والا شخص کوئٹہ میں رہنے والے مجھ جیسے آدمی کو سی پیک یا کوئٹہ میں دھماکوں کی وجہ سے جانتا ہے اور میں اسے میٹرو بس یا اورنج ٹرین کی وجہ سے جانتا ہوں۔ وہ مجھے میرے کام، کرداروں یا رسم و رواج کے حوالے سے بہت ہی کم جانتا ہے۔
ظفر معراج کا کہنا تھا کہ پچھلے 15، 20 برسوں کے دوران جو رابطہ منقطع ہوا ہے اس میں کچھ ہاتھ سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اب وہ قومی نشریاتی ادارہ نہیں رہا جس نے تمام ملک کو جوڑ کر رکھا تھا بلکہ اب وہ اس کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن گیا ہے جسے علاقائی ڈراموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقائی کردار اب صرف 14 اگست یا 23 مارچ کو نظر آتے ہیں۔ اس میں کہانی، کردار، سوچ، فکر اور شناسائی ختم ہو گئی ہے اور اب ہم دوسرے علاقے کے ان ہی لوگوں سے خائف ہیں جن سے پہلے پیار محبت سے ملتے تھے۔
ڈرامہ نگار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو قومیں اپنی زبان کو زندہ رکھتی ہیں ان کا احساس زندہ رہتا ہے اور وہ بنیادی طور پر پشتوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔
‘علاقائی زبانوں کو اہمیت ملتی تو قومیت کے جذبے میں کبھی دراڑ نہ پڑتی’
معروف ٹی وی کمپیئر مہتاب اکبر راشدی سمجھتی ہیں کہ ماضی میں علاقائی زبانوں کو کم اہمیت دی گئی جس کی وجہ سے قومیت کے جذبے میں پہلی دراڑ پڑی۔
وائس آ ف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد صرف اردو کو قومی زبان بنانا ان لوگوں کے ساتھ زیادتی تھی جو اپنی مادری زبان میں خوش تھے۔
مہتاب اکبر راشدی کا کہنا تھا کہ جب علاقائی زبانوں کو اہمیت نہیں دی جا رہی تھی تو پی ٹی وی کا سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو کو ایک گھنٹے کا وقت دینا غنیمت تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کی نشریات کا دورانیہ تو بڑھ گیا لیکن علاقائی زبانوں کا وقت اتنا ہی رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہم صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب ملکی زبانوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ چاروں صوبے ‘فیڈریٹڈ یونٹس’ ہیں جن سے ملک بنتا ہے۔ لیکن ان کی زبانوں کو قومی زبان نہیں علاقائی زبان سمجھا جاتا ہے۔
کیا جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ کو آمریت کے دوام کے لیے استعمال کیا گیا؟
مہتاب اکبر راشدی کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر اتنا کم وقت روٹی کا ٹکرا پھینک کر دینے کے مترادف ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی۔
ڈرامہ نگار ظفر معراج کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کونے کونے میں بولی جانے والی زبانوں کو ‘علاقائی زبان’ کہنا نہ صرف ان زبانوں کی توہین ہے بلکہ ایسی باتیں مختلف زبان بولنے والوں کے درمیان خلیج پیدا کرتی ہے۔
‘ریڈیو کو تو سلو پوائزننگ کر کے ختم کیا گیا بعد میں ٹی وی کا بھی وہی حشر ہوا’
ان کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین میں بھی سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو سمیت تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن سے تین دہائیوں تک جُڑے رہنے والے ہدایت کار ایوب خاور کا کہنا ہے کہ پنجابی، سندھی، سرائیکی اور پشتو کو باقاعدہ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ریڈیو کو تو ‘سلو پوائزننگ’ کر کے ختم کر دیا گیا اور بعد میں ٹی وی کا بھی وہی حشر ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ دنیا گلوبل ویلج تو بن گئی ہے لیکن پاکستان میں کئی ممالک کے کلچر متعارف ہوئے۔ کیا ہم نے اپنے کلچر کو تحفظ دیا؟
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زبان، کلچر، لٹریچر، اقدار اور اہنی تاریخ سے منہ موڑ لیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تباہی اور بربادی پر نہ ہی کسی نے فکر مندی کا اظہار کیا اور نہ ہی اس پر بات کرنے کی ہمت کی۔
ایوب خاور کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ غیر شعوری طور پر اپنے علاقائی کلچر سے دور ہو گئے ہیں کیوں کہ دنیا کے مختلف علاقوں کی تہذیبیں ہمارے ہاں گھل مل گئی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں اتنے چینل ہیں لیکن کسی پر بھی کوئی ایسا دانشور نہیں بیٹھا ہوا ہے جسے آپ اشفاق احمد کی طرح صاحبِ الرائے سمجھیں۔ جن کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے اور جو اس کے لیے لوگوں کو تیار کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون موجود ہے۔ جس میں کتنا گند ہے ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔
‘علاقائی چینل زبان کو فروغ دینے کے بجائے بگاڑ رہے ہیں’
ظفر معراج کا کہنا ہے کہ چینل زبان کو فروغ دینے کے بجائے اسے بگاڑ رہے ہیں۔ یہ زبان کی ترویج پر پورا نہیں اترتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پی ٹی وی میں علاقائی زبانوں کے جو پروگرام ہوا کرتے تھے وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ آج کل کے علاقائی پروگرام ایک خاص قسم کے فارمولے کے گرد گھومتے ہیں جو اس لیے کامیاب نہیں کیوں کہ اس زبان کے لوگوں کے سوا وہ کوئی بھی نہیں دیکھتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے وقت میں علاقائی زبان کے ڈراموں، خاص طور پر لانگ پلے کے نیچے سب ٹائٹل کی پٹی بھی چلتی تھی جس سے وہ دوسرے علاقوں میں بھی دیکھا اور پسند کیا جاتا تھا۔ اس سے نہ صرف لوگ ایک دوسرے سے جُڑتے تھے بلکہ انہیں کلچر کا بھی پتہ چلتا تھا۔
ظفر معراج کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم دنیا بھر کے کلچر کو ‘امپورٹ’ کر رہے ہیں جب کہ ہمیں اپنی علاقائی کہانیوں کو پروموٹ کرنا چاہیے۔
ان کے بقول کوک اسٹوڈیو جس طرح لوک موسیقی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ ہمارے ڈرامے ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ اس سے بطور پاکستانی ہماری یکجہتی مضبوط ہو گی اور کلچر کا تبادلہ بھی ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شاید ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے لوگ ایک دوسرے کو جانیں اسی لیے پی ٹی وی کو تباہ کر دیا گیا۔
ظفر معراج نے کہا کہ آج بھی جب میں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتا ہوں تو لوگ ایک دوسرے سے خوف زدہ نظر آتے ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے سے ناواقف ہیں بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں جانتے ہی نہیں ہیں۔
دوسری جانب مہتاب اکبر راشدی سمجھتی ہیں کہ جو کام پی ٹی وی کو کرنا چاہیے تھا وہ نئے آنے والے علاقائی زبان کے چینل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے چینلز کے آنے سے زبان کو فائدہ ہوا ہے کیوں کہ یہ اس علاقے کی بات کرتے ہیں جس کی بات کوئی نہیں کرتا۔
‘مجھ پر سندھ زمین کا قرض ہے کہ میں کچھ نہ کچھ کروں’
ٹی وی اور فلم کے اداکار و ہدایت کار یاسر نواز نے کہا کہ وہ سندھی زبان سے متعلق کچھ منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہو گی کہ بہت جلد سندھی ڈرامے یا فلم میں اداکاری کریں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "مجھے خود بھی اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے کبھی سندھی ڈرامہ یا فلم کیوں نہیں کی۔ میری کوشش ہے کہ جلد ہی سندھی ڈرامے میں اداکاری یا پھر ہدایت کاری دوں۔”
ان کے بقول وہ جلد اچھی کاسٹ کے ساتھ ایک معیاری سندھی فلم بنائیں گے اور اس میں تھوڑا وقت لگے گا لیکن وہ یہ ضرور کریں گے۔
یاسر نواز کا کہنا تھا کہ مجھ پر یہ سندھ زمین کا قرض ہے کہ میں کچھ نہ کچھ کروں۔