کراچی —
کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران سنیما دیکھنے والوں نے فلم بینی کی پیاس کو ‘نیٹ فلکس’ اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے بجھایا ہے۔ لیکن اس دوران نشر ہونے والے بعض پروگراموں نے تنازعات کو بھی جنم دیا۔
نیٹ فلکس کی سیریز ‘دی کراؤن’ کے حال ہی میں پیش کیے جانے والے چوتھے سیزن نے برطانیہ میں تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ بعض افراد کے بقول سیریز میں برطانوی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا جو کئی لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
اسی وجہ سے برطانوی حکومت نے نیٹ فلکس حکام سے درخواست کی کہ وہ ‘دی کراؤن’ کے آغاز میں ایک ایسا ڈسکلیمر یا انتباہ شامل کریں جس سے شائقین کو معلوم ہو کہ جو کچھ اسکرین پر دکھایا جا رہا ہے وہ فکشن (افسانہ) ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
امریکی اسٹریمنگ ویب سائٹ نے فکشن قرار دینے کا برطانوی حکومت کا مطالبہ مسترد کر دیا جس سے دنیا بھر کے شائقین میں اس خبر کے بعد مزید تجسس پیدا ہو گیا ہے کہ آخر ‘دی کراؤن’ میں ایسا کیا ہے جس پر برطانوی حکومت کو اعتراض ہے۔
‘دی کراؤن’ سیریز میں متنازع کیا ہے؟
‘دی کراؤن’ سیریز موجودہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ اس سیریز کے اب تک دس دس اقساط ہر مبنی چار سیزن آ چکے ہیں۔ پہلا سیزن 2016 میں ریلیز کیا گیا تھا جو اُن کی جوانی، شادی اور تخت سنبھالنے تک کے عرصے کی عکاسی کر رہا تھا جب کہ دوسرا سیزن 2017 اور تیسرا 2019 میں ریلیز کیا گیا جن میں کہانی کو مزید آگے بڑھایا گیا۔
سیریز کا دوسرا سیزن 1956 سے 1963 تک اور تیسرا سیزن 1964 سے 1977 تک کے عرصے کے واقعات کے گرد گھومتا ہے۔
چوتھے سیزن میں 1977 سے لے کر 1990 تک کا وہ دور دکھایا گیا جس میں نہ صرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی موت واقع ہوئی بلکہ برطانیہ کے ولی عہد کی شادی خوابوں کی شہزادی سے ہوئی۔
ویب سیریز کا چوتھا سیزن 15 نومبر کو ریلیز ہوا جو اس وقت تک کا سب سے متنازع سیزن ہے۔ یہ سیزن متنازع کیوں نہ ہو؟ شہزادی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے گرد گھومنے والی ہر کہانی، ہر کتاب اور ہر ڈاکومینٹری تنازعات سے ہی تو بھری ہوتی ہے۔
اسی سیزن میں برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کا بھی کردار شامل کیا گیا ہے جو ناقدین کے بقول اپنے بعض سخت گیر فیصلوں کی وجہ سے کافی متنازع رہی تھیں۔
کیا ‘دی کراؤن’ سے پہلے کبھی کچھ ایسا نہیں دکھایا گیا؟
یہ پہلا موقع نہیں جب برطانوی شاہی خاندان کو عوام کے سامنے متنازع انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ سال 2006 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘دی کوئین’ میں بھی ملکہ الزبتھ دوئم کو ایک سخت ماں اور ساس کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
معروف اداکارہ ہیلن میرن نے اس فلم میں ملکہ برطانیہ کا کردار نبھایا تھا اور اس فلم میں انہیں شاندار کارکردگی پر بہترین اداکارہ کا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ اس فلم کو پیٹر مورگن نے لکھا تھا جو ‘دی کراؤن’ کے خالق بھی ہیں۔
Diana, Princess of Wales and Prince Charles stand in front of Uluru, formerly known as Ayers Rock, during their tour of Australia in March 1983. pic.twitter.com/3Gq4QU55ra
— The Crown (@TheCrownNetflix) November 27, 2020
سن 2013 میں بھی ایک فلم ‘ڈیانا’ کے نام سے پیش کی گئی تھی جس میں اداکارہ نیومیواٹس نے شہزادی ڈیانا کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم پرنسز آف ویلز کی زندگی کے آخری دو سال اور ان کے معاشقوں پر مبنی تھی لیکن بے جان کہانی اور ناقص اداکاری کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ایسی بری طرح ناکام ہوئی کہ اس کے بعد کسی نے اس موضوع پر فلم بنانے کا نہیں سوچا۔
‘دی کراؤن’ پر برطانوی حکومت کا اعتراض، نیٹ فلکس کا جواب!
ایک طرف ‘دی کراؤن’ کے چوتھے سیزن کو شائقین بہترین قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب مؤرخین اسے تاریخ کو مسخ کرنے اور نوجوان نسل کی نظر میں شاہی خاندان کو گرانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔
اسی وجہ سے برطانوی حکومت کو نہ صرف اس سیزن پر اعتراض ہے بلکہ برطانیہ کے وزیرِ ثقافت اولیور ڈاؤڈن کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہوگا وہ ‘دی کراؤن’ کے بعد انہیں حقیقت سمجھ بیٹھیں گے۔ اسی وجہ سے اُن کی حکومت نے نیٹ فلکس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ویب کے آغاز میں انتباہ جاری کریں کہ ‘دی کراؤن’ کی کہانی حقیقت پر نہیں۔
“She just really became her. It was spooky to sit in front of her.”
— The Crown (@TheCrownNetflix) December 6, 2020
Olivia Colman on Emma Corrin’s portrayal of Princess Diana in The Crown. pic.twitter.com/af8H0PzIdl
نیٹ فلکس نے نہ صرف یہ مطالبہ مسترد کیا بلکہ برطانوی میڈیا کے مطابق اسٹریمنگ سروس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ‘دی کراؤن’ کو ہمیشہ ایک تاریخی ڈرامے کے طور پر پیش کیا۔ اس کے آغاز میں انتباہ لگانے کی ضرورت اس لیے نہیں پیش آتی کیوں کہ شائقین کو بھی اندازہ ہے کہ اس کی کہانی غیر حقیقی ہے۔
‘دی کراؤن’ کے چوتھے سیزن میں کیا غلطیاں ہیں؟
‘دی کراؤن’ کی تحقیق کو اچھا کہنے والے برطانیہ اور شاہی خاندان کی تاریخ سے واقف نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آئرش ری پبلکن آرمی سے محاذ آرائی، ارجنٹائن سے فالکن آئی لینڈز پر جنگ اور شاہی محل میں ہونے والی سازشیں اور معاشقے اسی دور میں ہوئے، لیکن لگتا یہ ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے لیے رائٹر نے ٹائم لائن کا بھی خیال نہ رکھا۔
برطانوی تاریخ کے شناساؤں کا کہنا ہے کہ ‘دی کراؤن’ میں پرنس چارلس سے ڈیانا کی پہلی ملاقات کا احوال تو درست ہے، مگر عکاسی نہیں۔
اسی طرح لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا اپنی موت سے قبل پرنس چارلس کو خط لکھنا، ڈیانا کا شہزادے سے مل کر ان کی وفات پر تعزیت کرنا اور شہزادے کا شادی سے تین دن قبل کامیلا پارکر باؤلز کو بریسلیٹ تحفے میں دینا بھی درست نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر اور ان کے شوہر کو بالمورل میں قیام کے دوران مشکلات تو پیش آئیں لیکن نہ تو وزیرِ اعظم نے شاہی خاندان کی کسی انداز میں تضحیک کی نہ ہی ان کے روانہ ہوتے ہی ڈیانا کی وہاں آمد ہوئی۔ ڈیانا کا مہمان بن کر بالمورل جانا اور وہاں جا کر سب کا دل جیت لینا ایک سال بعد کا واقعہ ہے۔
Margaret Thatcher and her husband Denis at 10 Downing Street in May 1979 shortly after her appointment as the United Kingdom’s first female Prime Minister. pic.twitter.com/g7DEhPMHnu
— The Crown (@TheCrownNetflix) November 22, 2020
بکھنگم پیلس میں ایک غیر متعلقہ شخص کی آمد اور ملکہ برطانیہ کے کمرے میں بلا اجازت پہنچ جانا تو ٹھیک دکھایا گیا ہے۔ لیکن نہ تو اس آدمی نے ملکہ کو ڈرایا، اور نہ ہی اسے پولیس اس طرح لے گئی جیسے اسکرین پر دکھایا گیا۔ البتہ یہ وہ پہلا موقع تھا جب برطانوی عوام کو پتا چلتا ہے کہ ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر دونوں الگ الگ کمروں میں سوتے ہیں، جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملکہ برطانیہ کی طرف سے وزرا اور ان کے قلمدان کا تخمینہ لگانا، وزیرِ اعظم کے خلاف اخبار میں خبر لیک کرانا اور شہزادی ڈیانا کا شادی سے پہلے ٹریننگ کے عمل سے گزرنا سب فکشن کے زمرے میں آتا ہے۔ نہ ملکہ برطانیہ نے کبھی کسی وزیرِ اعظم کے کام میں مداخلت کی، اور نہ ہی کبھی کوئی خبر لیک کی۔ اسی طرح ڈیانا بھی شاہی خاندان کے طور طریقوں سے آگاہ تھیں، اس لیے انہیں ٹریننگ کرتے ہوئے دکھانا وقت کا ضیاع ہے۔
شاہی جوڑے کے درمیان کمیلا پارکر باؤلز کی وجہ سے جو تنازع ان کی علیحدگی کی وجہ بنا، وہ دراصل 1986 میں شروع ہوا۔ شادی کے پہلے پانچ سال تک چارلس اور ڈیانا کے معاملات ٹھیک تھے۔ ڈیانا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور چارلس کی گرتی شہرت کی وجہ سے شہزادے نے کمیلا سے دوبارہ تعلق شروع کیا جو آج بھی قائم ہے۔
اور تو اور، شہزادی ڈیانا کے امریکی دورے سے قبل شہزادہ چارلس کا اعتراض، ملکۂ برطانیہ کے کزنز کا پاگل خانے میں داخلہ اور شہزادی مارگریٹ کا اس معاملے کی تہہ تک جانا بھی درست نہیں۔ ملکہ برطانیہ کی والدہ کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا، لیکن ویب سیریز میں دکھایا گیا جیسے شاہی خاندان کی عزت بچانے کے لیے انہوں نے ایسا کیا۔
‘دی کراؤن’ میں کیا دکھانا چاہیے تھا جو نہیں دکھایا؟
‘دی کراؤن’ میں یہ تو بتایا گیا کہ برطانوی وزیرِ اعظم کے گمشدہ بیٹے کی وجہ سے ارجنٹینا سے جنگ کا خطرہ مول لیا، لیکن اس بات میں کوئی صداقت نہیں، جنوبی افریقا کے خلاف ایکشن نہ لینے اور کامن ویلتھ قراردار پر دستخط کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا گیا جب کہ اصل بات یہ تھی کہ کامن ویلتھ کے فیصلے سے ان کے بیٹے کا بزنس متاثر ہو سکتا تھا۔
کہانی کے پروڈیوسزر کو 1984 میں برائٹن ہوٹل میں بم دھماکے کا ذکر کرنا چاہیے تھا جس میں مارگریٹ تھیچر تو بچ گئیں۔ لیکن ان کے پانچ ساتھی ہلاک ہو گئے تھے۔
برطانیہ کو خارجہ اور معاشی امور پر درپیش مشکلات کے وقت ملک کا اقتدار سنبھالنے والی مارگریٹ تھیچر کو ‘آئرن لیڈی’ کا خطاب ملا۔ لیکن اس سیریز میں اُنہیں زیادہ تر ولن کے روپ میں دکھایا گیا جو کہ غلط ہے۔
‘دی کراؤن’ کا پانچواں سیزن کب آتا ہے اور وہ کن واقعات کے گرد گھومے گا؟ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، لیکن نقادوں کے نزدیک اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو موجودہ نسل کو شاہی خاندان سے نفرت سی ہو جائے گی، جو کسی بھی طرح سے نہ برطانوی حکومت کو قبول ہو گا اور نہ ہی شاہی خاندان کو۔