کراچی —
جہاں کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کا نظام درہم برہم ہے، وہیں اس وبا کی وجہ سے سنیما انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں زیادہ تر عوام معیاری اردو فلموں کے لیے عید کے عید ہی سنیما جاتے تھے، وہاں بھی اس عید پر سنیما ویران پڑے ہیں
پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلمیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ پر ہی ریلیز ہوتی ہیں۔
ہدایت کار ندیم بیگ کی ‘جوانی پھر نہیں آنی’، ‘پنجاب نہیں جاؤں گی’ اور ‘جوانی پھر نہیں آنی ٹو’ کا شمار پاکستان کی کامیاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ ندیم بیگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستانی سنیما یوں لگتا ہے کہ ایک ہی جگہ ٹھر کر رہ گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حال ہی میں ختم ہونے والے بلاک بسٹر ڈرامے ‘میرے پاس تم ہو’ کے ہدایت کار کا کہنا تھا کہ اس وبا کی وجہ سے نہ صرف ان کی اگلی فلم ‘لندن نہیں جاؤں گا’ تعطل کا شکار ہوگئی ہے بلکہ دوسرے پروڈیوسرز کی فلموں پر بھی اثر پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا لوگوں کی فلمیں بنی ہوئی رکھی ہیں۔ جب سنیما کھلیں گے، لوگ آئیں گے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے، تب ہی بات آگے بڑھے گی۔
فلم اور ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسر حسن ضیاء بھی سمجھتے ہیں کہ سنیما انڈسٹری کو جو نقصان کرونا کی وبا سے پہنچا ہے، اس سے نکلنے میں وقت لگے گا۔
حسن ضیاء جو ماضی میں ‘رانگ نمبر’، ‘مہرالنساء وی لب یو’ اور ‘رانگ نمبر ٹو’ جیسی ہٹ فلمیں پروڈیوس کرچکے ہیں۔ ان کی اگلی ‘فلم گھبرانا نہیں ہے’ کی شوٹنگ مارچ میں شروع ہو گئی تھی۔ لیکن کرونا کی وجہ سے فلم کی شوٹنگ کو معطل کردیا گیا۔ فلم میں صبا قمر، سید جبران اور زاہد احمد کے ساتھ ساتھ جان ریمبو بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔
‘سنیما پہلے آکسیجن پر تھا، اب وینٹی لیٹر پر ہے’
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسن ضیاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سنیما ویسے ہی آکسیجن پر تھا، اب کرونا کے بعد وینٹی لیٹر پر چلا گیا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے ہمارا سنیما پانچ سال پیچھے چلا گیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں وہ وقت آگیا تھا جب نئے نئے فلم میکرز آرہے تھے اور آزادی کے ساتھ فلمیں بنارہے تھے۔ لیکن جب تک دنیا کے بڑے ممالک سنیما نہیں کھولیں گے اور ان میں بڑے اسٹوڈیوز کی فلمیں نہیں لگیں گی، تب تک ہمارے ہاں بھی صورتِ حال تبدیل نہیں ہوگی۔
حسن ضیاء سمجھتے ہیں کہ کرونا کی وبا سے ویسے تو ٹی وی پر اتنا فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن سنیما سے جن لوگوں کا روزگار وابستہ تھا اور جو لوگ مختلف سنیما چینز میں کام کرتے تھے، وہ یا تو اب تک بے روزگار ہو چکے ہوں گے یا آئندہ ہفتوں میں ہو جائیں گے۔ حکومت کو ان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
گزشتہ عید الاضحیٰ تک پاکستانی سنیما کی اڑان اونچی ہی نہیں، بہت اونچی تھی۔ پچھلے سال عید پر تین مقامی فلمیں سنیماوں کی زینت بنیں تھیں جن میں ‘پرے ہٹ لو’ اور ‘سپر اسٹار’ کو فلم بینوں نے پسند کیا تھا جب کہ نوجوانوں کو ‘ہیر مان جا’ نے منا لیا تھا۔
فلم ‘سپر اسٹار’ میں ماہرہ خان اور بلال اشرف کی اداکاری کو لوگوں نے پسند کیا تھا جب کہ مایہ علی اور شہریار منور کی کیمسٹری عوام آج تک نہیں بھلا پائے۔
کیا پاکستان میں بھی ڈرائیو ان سنیما کی واپسی ہوگی؟
‘سپر اسٹار’ کے ہدایت کار احتشام الدین اس سال بھی فلم ‘دم مستم’ کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ کرونا کی وجہ سے سب کچھ رک گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات نہ بدلے تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سنیما کی رونقیں بحال کرنے کے لیے ‘ڈرائیو ان’ سنیما کا سہارا لینا پڑے گا۔
احتشام الدین نے کہا کہ پاکستان میں اس سال سنیما کھلنا مشکل ہیں۔ جب بھی چین اپنے ملک میں سنیما کھولے گا یا جب بھارت میں سنیما آباد ہوں گے تو اس کے بھی ایک، ڈیڑھ ماہ کے بعد پاکستان جیسے دوسرے ممالک کی سنیما انڈسٹری کی جان میں جان آئے گی۔ لیکن ان کے بقول اب دنیا بھر میں سنیما جب بھی کھلیں گے، انہیں سخت ایس او پیز فالو کرنا پڑیں گے۔
احتشام الدین سمجھتے ہیں کہ جب تک سنیما بند ہیں، لوگ ٹی وی دیکھیں گے اور ہمیں اچھا کام کرنا پڑے گا۔ ورنہ ان کے بقول لوگ اسٹریمنگ سروسز کی طرف چلے جائیں گے۔
فلم ‘سپر اسٹار’ کے ہدایت کار کا کہنا تھا کہ سنیما کو زندہ رکھنے کے لیے ڈرائیو اِن سنیما بنانا ہوں گے۔ بلیو ٹوتھ، وائی فائی اور اسی قسم کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ڈرائیو اِن پر لاگت بھی کم آئے گی اور لوگوں کے لیے یہ خطرناک بھی نہیں ہوگا۔ جیسے چائے خانے مقبول ہوئے ہیں اسی طرح ڈرائیو اِن سنیما بھی پاپولر ہوجائیں گے، سوشل ڈسٹنسنگ بھی رہے گی اور تفریح بھی ہوجائے گی۔
‘سنیما کھلیں گے تو مزید مشکلات آئیں گی’
دوسری جانب کراچی کے مشہور ‘ایٹریم سنیما’ کے مالک، معروف فلم ڈسٹری بیوٹر اور پروڈیوسر ندیم مانڈوی والا سنیما کی بحالی میں جلدبازی سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کے بقول دنیا بھر میں تمام فلموں کی ریلیز ڈیٹس اسی لیے آگے بڑھائی گئی ہیں تاکہ سنیما انڈسٹری کو کم سے کم نقصان ہو۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ جن فلموں کو اپریل، مئی یا جون میں ریلیز ہونا تھا اب وہ جولائی اور اگست میں یا اس کے بعد ریلیز ہوں گی۔
ان کے بقول سنیما کی اتنے زیادہ عرصے تک بندش کی وجہ سے بہت سی مشکلات جنم لیں گی اور جب بھی سنیما کھلیں گے، مالکان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے خیال میں ان مسائل میں سرِ فہرست 50 فی صد نشستوں کو خالی رکھنا، معمول سے کم منافع حاصل کرنا اور لوگوں کا سنیما میں اس زور و شور سے نہ آنا ہو گا۔
ندیم مانڈوی والا سمجھتے ہیں کہ دیگر انڈسٹریز کے برعکس سنیما انڈسٹری کو کرونا کے بعد سنبھلنے میں ذرا زیادہ وقت لگے گا۔
اس سال عید الفطر پر تین پاکستانی فلمیں ریلیز کے لیے تیار تھیں۔ جن میں ‘اے آر وائی فلمز’ کی ‘ٹچ بٹن’، فواد خان کی ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ اور کامیڈی فلم ‘لفنگے’ شامل تھیں۔
اداکار سمیع خان کا جو ‘لفنگے’ کے ساتھ ساتھ ‘یارا وے’ میں بھی کام کر رہے ہیں کہنا ہے کہ سنیماز کا فی الحال بند ہونا ایک درست قدم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک ڈسٹری بیوٹرز، پروڈیوسرز اور ایگزیبٹرز سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے اور سنیما کے حوالے سے ایس او پیز نہیں تیار کریں گے، لوگوں کا سنیما میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔
‘رانگ نمبر ٹو’ اور ‘کاف کنگنا’ کے ہیرو نے مزید کہا کہ ہمارے سنیما مالکان کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو پہلے بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ سنیما کب کھولنے ہیں اور کیسے کھولنے ہیں۔ اور اگر اس سلسلے میں ڈرائیو اِن سنیما مسئلے کا حل ہو تو ہمیں کرونا کے اختتام تک اسی نوعیت کے عبوری انتظامات کرنا ہوں گے۔
لیکن کیا ڈرائیو اِن سنیما واقعی سنیما انڈسٹری کو درپیش بحران کا حل ہیں؟ دبئی میں تو حالیہ بحران کے دوران ایک ڈرائیو ان سنیما کا افتتاح بھی ہوچکا ہے لیکن کیا یہ تجربہ پاکستان میں کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔
‘سنیما مالکان حکومت سے مل کر ایس او پیز بنائیں’
اداکارہ امر خان جنہوں نے ٹی وی ڈراموں ‘بیلا پور کی ڈائن’ اور ‘گھگی’ سے خوب شہرت حاصل کی، کرونا سے پہلے فلم ‘دم مستم’ کی شونٹنگ میں مصروف تھیں۔ فلم میں نہ صرف وہ اداکاری کے جوہر دکھائیں گی بلکہ اس کی کہانی، اسکرین پلے اور مکالمے بھی انہوں نے خود لکھے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امر خان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ سنیما انڈسٹری جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔ جس طرح دیگر انڈسٹریز حکومت کے تعاون سے کھل رہی ہیں، سنیما بھی کھولے جائیں گے اور ایک بار پھر عوام میں پاکستانی فلموں کو پذیرائی ملے گی۔
امر خان کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں لوگ سنیما انڈسٹری کے معاملات سمجھے بغیر اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کووڈ 19 صرف پاکستان کا نہیں، دنیا بھر کا مسئلہ ہے اور ہم سے بڑی بڑی انڈسٹریز کو اس وبا سے دھچکا لگا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کام روک دیا جائے اور سنیما بند کردیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سنیما مالکان کو حکومت سے مل کر طریقۂ کار طے کرنا ہوگا جس کے بعد امید ہے کہ سنیما کھلیں گے بھی اور چلیں گے بھی۔
انہوں نے بتایا کہ ‘دم مستم’ تکمیل کے مراحل میں ہے اور اگر حالات خراب نہ ہوتے تو اس عید پر ریلیز بھی ہوجاتی۔ ان کے بقول گزشتہ دو ماہ سے فلم کی پوری ٹیم بھی لاک ڈاؤن میں ہے اور فلم مکمل کرنے اور اسے ریلیز کرنے کا فیصلہ آگے کے حالات دیکھ کر ہی کیا جائے گا۔
کیا نیٹ فلکس پاکستان کی سنیما انڈسٹری نگل جائے گا؟
سنیما کھلیں یا نہ کھلیں، عید الفطر کے موقع پر جو لوگ سنیما کا رخ کرتے تھے، ان میں سے بہت سے اب گھر بیٹھ کر نیٹ فلکس اور اس جیسی کئی اسٹریمنگ سروسز پر فلموں سے لطف اندوز ہوں گے۔
حسن ضیاء کہتے ہیں کہ اسٹریمنگ سروسز نے لاک ڈاؤن میں لوگوں کو مصروف رکھا ہے۔ لیکن سنیما کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اس کا متبادل آنا ابھی بہت مشکل ہے۔
حسن ضیاء کے بقول اسٹریمنگ سروسز کے آنے سے دیکھنے والوں کو تو فائدہ ہوا ہے لیکن ان کے ساتھ کام کرنے میں پاکستانی پروڈیوسرز کو ابھی بہت وقت لگے گا۔ ان کے خیال میں نیٹ فلکس اور پرائم ویڈیوز کا معیار کافی بلند ہے اور اس پر پورا اترنے کے لیے ہمیں نئے نئے تجربات کرنا ہوں گے۔ اس سے ہماری انڈسٹری کو بھی فائدہ ہوگا اور اس پورٹلز کے استعمال کرنے والوں کو بھی۔