اسپورٹس

پی ایس ایل 6 کے شیڈول میں تاخیر، ابو ظہبی کا گرم موسم بھی کھلاڑیوں کے لیے ‘امتحان’

Written by Omair Alavi

کراچی — 

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے ایڈیشن کے بقیہ میچز کے لیے زیادہ تر کھلاڑی ابو ظہبی پہنچ گئے ہیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کے براڈ کاسٹرز بھی ابو ظہبی میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ لیکن ایونٹ کے انعقاد سے قبل پیش آنے والی مشکلات اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد اس وقت بھی پاکستان میں موجود ہیں اور ان کی روانگی میں حائل ہیں ان کے ویزہ مسائل جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق کپتان کا مسئلہ معمولی نوعیت کا تھا جو اب حل ہو چکا ہے اور وہ منگل کی صبح ذیشان اشرف اور زید عالم سمیت چھ کھلاڑیوں کے ساتھ ابوظہبی روانہ ہو جائیں گے۔

تاہم سات افراد جن میں تین کرکٹرز عمر امین، آصف آفریدی اور محمد عمران شامل ہیں، اب بھی روانگی کے پروانے کے انتظار میں ہیں جو انہیں ابھی تک موصول نہیں ہوا۔

ایسے میں ان کھلاڑیوں کو پہلے ہوٹل سے ایئر پورٹ پھر ایئر پورٹ سے واپس ہوٹل اور پھر ہوٹل سے واپس گھر واپس بھیجنے کا فیصلہ اور پھر چارٹرڈ کے بجائے کمرشل فلائٹ کے ذریعے ابوظہبی روانہ کرنے کی تجویز نے شائقین کرکٹ کو مزید الجھا دیا ہے کہ آیا پی ایس ایل وقت پر شروع ہوگی یا نہیں۔

میچز کے شیڈول میں تبدیلی کا خدشہ

پاکستان سپر لیگ سکس کے بقیہ میچز کا آغاز جون کے پہلے ہفتے میں ہونا تھا تاکہ 20 جون تک ایونٹ کا اختتام ہو جائے اور پاکستان ٹیم دورۂ انگلینڈ پر 22 جون کو روانہ ہو سکے۔

تاہم ویزوں کے مسائل اور قرنطینہ کی شرط نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ نہ صرف ایونٹ کے آغاز میں تاخیر کا امکان ہے بلکہ چند کھلاڑیوں کے نہ پہنچنے پر فرنچائز مالکان ناراضگی کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر اپنے کپتان کے ویزہ مسائل کی وجہ سے خاصے ناراض ہیں اور انہوں نے سرفراز کے بغیر ایونٹ میں شرکت کو نا ممکن قرار دے دیا ہے۔

امید ہے کہ سرفراز احمد منگل کی صبح کمرشل فلائٹ سے براستہ دوحہ ابو ظہبی پہنچ جائیں گے اور ٹیم کو جوائن کر لیں گے۔

لیکن تاحال میچز کا شیڈول جاری نہیں ہو سکا جس کے بعد یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ایونٹ شاید تاخیر سے ختم ہو۔

بعض ماہرین کے مطابق میچز کی تعداد کم کرنے اور کوالی فائنگ راؤنڈ کی جگہ سیمی فائنل اور فائنل کرانے کی تجاویز پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابوظہبی میں ڈبل ہیڈر (یعنی ایک ہی دن میں دو میچز کرانا) کرانا کھلاڑیوں کو مشکلات میں ڈالنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔

ایونٹ کے اختتام میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کی آئندہ سیریز پر اثر پڑے گا، پاکستان کو اس سال انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنا ہے جب کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کی میزبانی بھی کرنی ہے۔

اگر پی ایس ایل سکس وقت پر شروع ہو جاتی تو پاکستان کو 22 جون کو انگلینڈ کے لیے روانہ ہونا تھا اور 20 جولائی تک تین ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل کر فوراً ویسٹ انڈیز جانا تھا جہاں پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز پر مشتمل سیریز کا پہلا میچ 27 جولائی کو کھیلا جانا ہے۔

پی ایس ایل سکس کے بقیہ میچز میں تاخیر ان دونوں اہم غیر ملکی دوروں کے شیڈول کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور اگر شیڈول کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ایک ٹی ٹوئنٹی لیگ کی خاطر انٹرنیشنل میچز کی قربانی دی گئی تو یہ کسی بھی صورت شائقین کو قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

کھلاڑی خود کو جسمانی اور دماغی طورپر فٹ رکھیں تو بہتر ہے!

ایک طرف چند کھلاڑیوں کی ابوظہبی روانگی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے تو دوسر ی جانب کھلاڑی قرنطینہ میں وقت گزار کر کرونا کو شکست دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

کھلاڑی یہ بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ گرم موسم میں کرکٹ کھیلنے کے لیے انہیں دماغی اور جسمانی طور پر خود کو کیسے ڈھالنا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسپورٹس اینکر نجیب الحسنین کے ٹوئٹ سے صاف ظاہر ہے کہ ابوظہبی میں موسم ہر چیز کے قابل ہے بس کرکٹ کے قابل نہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ کھلاڑیوں کی سہولت کے لیے ‘لائٹ کٹ’ کا استعمال کیا جائے گا جب کہ اننگز کے دوران بریک کی تعداد بڑھانا۔ کھلاڑیوں کو آئس کالر اور آئس ویسٹ فراہم کرنا جیسی تجاویز زیرِ غور ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر فیصل اقبال جو سخت گرمی میں آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس وقت بھی آسٹریلوی ٹیم گرمی کے توڑ کے لئے آئس جیکٹس، آئس کالر سے لیس تھی اور پاکستان ٹیم کے پاس صرف امارات میں کھیلنے کا زیادہ تجربہ تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دوران میچ اسکرین پر اس وقت کا درجۂ حرارت بھی دکھایا گیا تھا۔

اُن کے بقول وہ پر امید ہیں کہ اس بار فرنچائز اپنے کھلاڑیوں کا بھرپور انداز میں خیال رکھیں گی تاکہ انہیں کنڈیشنز سے زیادہ فرق نہ پڑے۔

بقول فیصل اقبال پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل انتظامیہ اور تمام فرنچائز مبارک باد کی مستحق ہیں کہ ان مشکل حالات میں ابو ظہبی میں پی ایس ایل کا انعقاد ہونے والا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ تین سیزن میں وہ پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز کراچی کنگز کے ساتھ بطور بیٹنگ کوچ منسلک رہے جس کی وجہ سے انہیں کئی نئے کھلاڑیوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان سپر لیگ ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے تمام کھلاڑیوں، کوچنگ اور اسپورٹ اسٹاف خود کو انٹرنیشنل لیول پر لانے کے لیے گروم کر سکتا ہے۔ اس گرم موسم میں اس کا انعقاد کھلاڑیوں کے لیے ایک اچھا سبق ثابت ہو گا۔ کیوں کہ مشکل کنڈیشنز ہی اچھے کھلاڑی بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔”

آسٹریلیا کے خلاف 2002 میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سیریز میں سینئر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں کئی نوجوان کھلاڑیوں کو موقع ملا اور یہی تجربہ بعد میں ان کے بہت کام آیا۔

فیصل اقبال کا کہنا تھا کہ "مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں صرف ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل ہوا کرتی تھی، گرمی میں 50 اوورز کے میچز کھیلنا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن ایک پروفیشنل کے طور پر اپنی سو فی صد کارکردگی دکھانے کی ہر کسی کو کوشش کرنی چاہیے۔”

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت آسٹریلوی ٹیم میں اسٹیو وا، شین وارن، جسٹن لینگر اور ایڈم گلکرسٹ جیسے نامور کھلاڑی موجود تھے اور ان کی مدد کرنے کے لیے آئس کالر اور آئس جیکٹس مینجمنٹ نے مہیا کی تھیں۔

اُن کے بقول "اس وقت ہم نے اپنے تولیے کو برف میں رکھ کر ٹھنڈا کیا اور اسے گردن پر باندھ کر کھیلتے رہے۔ ہمیں ٹیسٹ میچ میں سیشن کے دوران اضافی پانی کے وقفے ملے تھے جس میں ہم باؤنڈری روپ کے باہر جا کر چھاؤں میں کچھ دیر سستا لیتے تھے۔”

فیصل اقبال کا یہ بھی کہنا تھا کہ سن 2002 کی ٹیسٹ سیریز اور 2021 میں پی ایس ایل میں سب سے بڑا فرق فارمیٹ اور ٹائمنگ کا ہے جس سے کھلاڑیوں کو فائدہ ہو گا۔

اُن کا کہنا ہے کہ "اس وقت ٹیسٹ میچ دن میں ہوتے تھے جب کہ اس مرتبہ پی ایس ایل کے میچز شام اور رات کو ہوں گے جب موسم نسبتاً بہتر ہوتا ہے اور میچز کا دورانیہ بھی کم ہو گا اور ایک اننگز 20 اوورز پر مشتمل ہو گی۔”

اگر کوئی کھلاڑی زخمی ہوا تو ذمے دار کون ہو گا؟

پاکستان سپر لیگ کے معاملات کو باریک بینی سے دیکھنے والے معروف صحافی سلیم خالق کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اگر تیاری اچھی ہوتی، تو کوئی بھی مسئلہ سامنے نہ آتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابوظہبی میں پانچ سے زیادہ ڈبل ہیڈرز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔

بقول سلیم خالق "جلدی کے کاموں میں ویسا ہی ہوتا ہے جیسا پی ایس ایل سکس کے بقیہ میچزکے انعقاد سے قبل ہو رہا ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے پی سی بی کو پاکستان میں کھیلنے سے منع نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں کچھ دن انتظار کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام نے شاید پہلے ہی دماغ بنا لیا تھا لیگ کو بیرون ملک لے جانے کا، اسی لیے ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں حالات بہتر ہو رہے ہیں، انہیں یہ مشکلات پیش آ رہی ہیں۔”

انہوں نے انکشاف کیا کہ اگر عید الفطر کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور این سی او سی کا رابطہ ہوجاتا تو شاید پی ایس ایل کے میچز ملک میں ہی کھیلنے کا فیصلہ ہوتا۔

سلیم خالق نے یہ بھی کہا کہ جب تک تمام کھلاڑی اور براڈ کاسٹرز ابو ظہبی میں جمع نہیں ہو جاتے، ایونٹ کا شیڈول جاری نہیں کیا جا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ "جب قسطوں میں ویزے آئیں گے جب سب کھلاڑی جمع ہو جائیں گے جب تمام براڈ کاسٹرز قرنطینہ سے نکل آئیں گے۔ ایونٹ کے شیڈول کا اعلان تب ہی ممکن ہو گا۔ ابھی نہ تو تمام براڈ کاسٹرز ابو ظہبی پہنچے ہیں اور نہ ہی جنوبی افریقہ سے آنے والوں کا 10 دن کا قرنطینہ پورا ہوا ہے۔”

سلیم خالق کے مطابق اگر کوئی بھی کھلاڑی پی ایس ایل کی وجہ سے زخمی ہوا تو اس کی تمام تر ذمے داری پاکستان کرکٹ بورڈ پر عائد ہو گی۔

البتہ، پاکستان کرکٹ بورڈ کا یہ مؤقف ہے کہ وہ ابو ظہبی حکام کے ساتھ مل کر معاملات حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم غیر معمولی حالات کی وجہ سے ویزوں کے اجرا میں تاخیر ہوئی۔

پی سی بی حکام کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل چھ کے باقی ماندہ میچز کے بروقت انعقاد کے لکے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔