اسپورٹس

جب پاکستانی ٹیم کو دورۂ بھارت پر پچ اُکھاڑنے اور سانپ چھوڑنے کی دھمکیاں ملیں

Written by ceditor

کراچی — کرکٹ کے سب سے بڑے میلے ورلڈ کپ کرکٹ کے انعقاد میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ لیکن بھارتی حکومت اب تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کو خصوصی سیکیورٹی فراہم کرنے پر تیار نظر نہیں آتی۔

جمعے کو نئی دہلی میں ہونے والی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سیکیورٹی کے حوالے سے سوال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسی سیکیورٹی دیگر ٹیموں کو فراہم کی جائے گی، ویسی ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی ملے گی۔

بقول ترجمان بھارتی وزارت خارجہ وہ اکتوبر میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی تمام ٹیموں کو فول پروف سیکیورٹی دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیموں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھارت کے سیکیورٹی ادارے ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے حکومتِ پاکستان نے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کو اجازت دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ٹیم کی سیکیورٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان کو بھارت میں سیکیورٹی خدشات لاحق ہوئے ہوں۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارتی سیاست دانوں اور انتہا پسندوں کی وجہ سے یا تو میچ کا وینیو تبدیل کرنا پڑا یا پھر دورہ منسوخ کرنا پڑا۔

سن 1989 میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا تھا جس میں سچن ٹنڈولکر نے بھارت اور وقار یونس نے پاکستان کی جانب سے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا۔ لیکن گرین شرٹس کے جوابی دورے پر روانہ ہونے سے قبل ہی اسے منسوخ کرنا پڑا تھا۔

یہ دورہ اور اس کے بعد طے شدہ دو مزید دوروں کی منسوخی کے پیچھے بھارتی انتہا پسند جماعت شیو سینا کا ہاتھ تھا جس نے 1991 میں ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم کی پچ کو پہلے توڑ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا اور اس کے بعد اسے کھود کر ناکارہ بنایا۔

بھارتی انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کی دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم نے نوے کی دہائی میں ممبئی میں کوئی میچ نہیں کھیلا کیوں کہ ممبئی میں شیو سینا کا راج تھا۔

سن 1999 میں پاکستانی ٹیم نے وسیم اکرم کی قیادت میں بھارت کا دورہ کیا جس پر قومی ٹیم نے دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کے ساتھ ساتھ ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے میچ میں بھی شرکت کی۔

سیریز کا پہلا میچ دونوں ٹیموں کو دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں کھیلنا تھا۔ لیکن ایک طرف شیو سینا کے 25 کے قریب کارکنوں نے سیریز سے قبل بھارتی کرکٹ بورڈ کے ممبئی میں واقع ہیڈ کوارٹر پر پر ہلہ بول دیا تو دوسری جانب دہلی کے اسٹیڈیم کی پچ کو ناکارہ بنا کر دورہ منسوخ کرنے کی کوشش کی۔

لیکن اس بار بھارتی حکومت نے دورہ منسوخ یا ملتوی کرنے کے بجائے ٹیسٹ میچ کو ایسے وینیو پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں شیو سینا کے حامیوں کی مداخلت کا امکان کم تھا۔

پاکستان نے چنئی میں کھیلے گئے اس میچ میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ ان کی میچ وننگ کارکردگی کو ہوم کراؤڈ نے کافی سپورٹ کیا۔

سیریز کا دوسرا میچ فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا جسے آج بھی لیگ اسپنر انیل کمبلے کی اننگز میں 10 وکٹوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔

لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ شیو سینا نے اس میچ سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر میچ منسوخ نہ کیا گیا تو وہ اسٹیڈیم میں زہریلے سانپ چھوڑ دیں گے۔

اسی دھمکی کی وجہ سے بھارتی کرکٹ بورڈ نے اس میچ کے لیے 20 کے قریب مقامی سپیروں کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ میچ میں کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو اور میچ بغیر کسی تعطل کے کھیلا گیا۔

اور آخر میں بات اسی دورے پر کولکتہ میں کھیلے گئے ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے میچ کی جس میں پاکستانی پیسر شعیب اختر نے مسلسل دو گیندوں پر بھارت کے دو بڑے بلے بازوں راہول ڈریوڈ، اور سچن ٹنڈولکر کو بولڈ کر کے سب کی توجہ حاصل کر لی تھی۔

میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کامیابی تو حاصل کی لیکن انہیں بھرے ہوئے اسٹیڈیم کے بجائے تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیم کے سامنے جشن منانے پر اکتفا کرنا پڑا۔

گراؤنڈ خالی کرانے کی وجہ سچن ٹنڈولکر کا دوسری اننگز میں وہ رن آؤٹ تھا جس میں وہ فیلڈر شعیب اختر سے ٹکر کی وجہ سے رن آؤٹ ہو گئے تھے۔

جب متبادل فیلڈر ندیم خان نے باؤنڈری سے تھرو پھینکی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ تھرو سیدھی وکٹ پر جا لگے گی۔ لیکن جب ایسا ہوا تو سچن ٹنڈولکر کا بیٹ کریز سے باہر تھا، اور امپائر نے ان کی پاکستانی کھلاڑی سے ٹکر کے باوجود انہیں قوانین کے مطابق آؤٹ قرار دیا۔

اس فیصلے کے بعد اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں نے ہنگامہ کر دیا اور پاکستانی فیلڈرز کی جانب سے خالی بوتلیں پھینکیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سچن ٹنڈولکر کو ناٹ آؤٹ قرار دے کر واپس بلایا جائے تاکہ وہ اپنے پسندیدہ بلے باز کو ایکشن میں دیکھ سکیں۔

بھارتی ماسٹر بلاسٹر نے باہر آکر تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کی لیکن جب بھارتی ٹیم میچ ہارنے لگی تو اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں نے ایک مرتبہ پھر ہنگامہ آرائی شروع کر دی جس کے بعد منتظمین نے اسٹیڈیم خالی کرا لیا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor