اسپورٹس

کیا پی ایس ایل کے باقی میچز کراچی میں نہیں ہو سکتے تھے؟

Written by Omair Alavi

کراچی — 

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے ایڈیشن کے بارے میں گزشتہ دنوں جتنے سوالات نے جنم لیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن ہو گا، یا نہیں ہو گا۔ کراچی کو میزبانی ملے گی یا ابوظہبی کو، غیر ملکی کھلاڑی شرکت کریں گے یا نہیں۔ ان سب سوالات کے جواب کبھی ہاں تو کبھی ناں میں آتے تھے۔

تاہم اب فیصلہ ہو چکا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی محنت رنگ لے آئی اور وہ لیگ جو بڑی مشکل سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے پاکستان منتقل ہوئی تھی، ایک مرتبہ پھر واپس یو اے ای لوٹ گئی ہے۔

لیکن کیا اس قدم سے پاکستان سپر لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی واپسی یقینی ہوگی؟ کیا کرکٹ اسٹارز کی وہ چکاچوند جس کا شائقین کو انتظار ہے، وہ کہیں ماند تو نہیں پڑ جائے گی؟ اس کا فیصلہ تو آئندہ چند دن میں ہو جائے گا۔ البتہ جہاں کئی انٹرنیشنل اسٹارز نےلیگ میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ وہیں کئی کھلاڑیوں نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن منسوخ کیوں ہوا تھا؟

رواں سال کے آغاز میں جب کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن کرانےکی ٹھانی۔ حالاں کہ ایونٹ کا پانچواں ایڈیشن نومبر 2020 میں ہی ختم ہوا تھا۔ مبصرین کے مطابق اگلے ایڈیشن میں مناسب وقفہ دیا جا سکتا تھا۔

بیس فروری 2021 کو ترکی کے شہر استنبول میں ریکارڈ ہوئی افتتاحی تقریب سے ایونٹ کا آغاز ہوا اور پھر کراچی میں سجا کرکٹ کا میلہ جس میں پہلے 20 فی صد اور پھر 50 فی صد شائقین کو اسٹیڈیم آنے کی اجازت تھی۔ لیکن کھلاڑیوں میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سبب رواں سال چار مارچ کو ایونٹ روک دیا گیا اور یوں 30 میچز پر مبنی پہلے راؤنڈ کو 14 میچز کے بعد ہی بریک لگ گئی۔

رواں ہفتے پی سی بی نے اعلان کیا کہ پی ایس ایل سکس کے بقیہ میچز یکم جون سے 20 جون کے درمیان ابوظہبی میں کرائے جائیں گے تاکہ فرنچائز کو نقصان بھی نہ ہو اور شائقین بھی گھر بیٹھے ایونٹ کے مزے لیں۔

تاہم کیا ایسے وقت میں جب بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کو کرونا کی وجہ سے روک دیا گیا، پی سی بی کا فیصلہ دانش مندانہ ہے یا جلد بازی پر مبنی، اس بارے میں ماہرین بھی تقسیم ہیں۔

ابوظہبی میں نہ صرف خرچہ بڑھے گا، بلکہ درجہ حرارت بھی ناقابلِ برداشت ہو گا’

کھیلوں کے سینئر صحافی عبدالماجد بھٹی کے خیال میں پاکستان میں پی ایس ایل کا انعقاد کرانے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ نہ کہ یو اے ای میں، جہاں نہ صرف خرچہ بڑھے گا بلکہ درجہ حرارت بھی زیادہ ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاحتی مقامات ایس او پیز کے ساتھ کھولے جا رہے ہیں. تو ایسے میں اگر پاکستان میں ہی پی ایس ایل کرائی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر پاکستان سپر لیگ کراچی کے بجائے ابوظہبی میں ہوئی تو اس میں کرونا کیسز پازیٹیو نہیں آئیں گے؟

ان کے بقول اسی سال جنوری میں متحدہ عرب امارات اور آئرلینڈ کے درمیان ون ڈے سیریز کے دو میچز کرونا کی وجہ سے منسوخ ہوئے تھے. جب کہ حالیہ خبر ہے کہ دبئی اور ابوظہبی سے پاکستان آنے والوں میں سے 50 کے قریب لوگوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ میچز میں شائقین نے تو آنا نہیں اور میچز صرف ٹی وی شائقین کے لیے کھیلے جائیں گے تو اس حوالے سے بھی سوچ لینا چاہیے تھا۔ (فائل فوٹو)
ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ میچز میں شائقین نے تو آنا نہیں اور میچز صرف ٹی وی شائقین کے لیے کھیلے جائیں گے تو اس حوالے سے بھی سوچ لینا چاہیے تھا۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابو ظہبی کا شیخ زید اسٹیڈیم ریگستانی علاقے میں ہے جہاں رات کو بھی درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو ہر لحاظ سے کھلاڑیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

شائقین نے تو آنا نہیں اور میچز صرف ٹی وی شائقین کے لیے کھیلے جائیں گے

ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گرمی کے اس عالم میں کرکٹ کھیلنے سے پاکستانی کھلاڑی ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو جائیں اور مستقبل میں ہونے والی انگلینڈ کی سیریز سے ان فٹ ہو کر باہر ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کرانا مسئلہ نہیں۔ لیکن جب شائقین نے تو آنا نہیں اور میچز صرف ٹی وی شائقین کے لیے کھیلے جائیں گے۔ تو اس حوالے سے بھی سوچ لینا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک شیڈول تو آیا نہیں۔ البتہ اگر ایونٹ کے میچز جلدی کرانے ہیں تو ابوظہبی میں ایک دن میں دو میچز ہوسکتے ہیں۔ امکان یہی ہوگا کہ دوسرا میچ پاکستانی وقت کے مطابق رات دس بجے شروع اور رات دو بجے ختم ہوگا جو کسی بھی لحاظ سے دانش مندی نہیں۔

‘اگلے سال پہلے نامکمل اور پھر نئے ایڈیشن کے لیے ونڈو ملنا مشکل ہوجاتی

تاہم کمنٹیٹر اور مبصر مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کا دوبارہ شروع ہونا پاکستان کرکٹ کے لیے خوش آئند بات ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر اب پی ایس ایل نہ ہوتی تو اس کے بعد ونڈو نہیں ملتی اور بورڈ کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔

مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ ہمارے ملک کا ایک برانڈ بن چکا ہے۔ اس سال چار مارچ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا تھا۔

ان کے بقول اگر پہلے ہی ایس او پیز کو فالو کیا جاتا اور احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ لیکن دیر آید درست آید، ایسا ہی کچھ گزشتہ سال بھی ہوا تھا کہ ایونٹ کو دو حصوں میں کرنا پڑا تھا لیکن اس سال اگر یہ دوبارہ شروع نہ ہوتی تو اگلے سال پہلے نامکمل اور پھر نئے ایڈیشن کے لیے ونڈو ملنا مشکل ہوجاتی۔

فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی سوچتا بھی ہے یا نہیں؟

مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں افسران کی فوج تو ہے۔ لیکن فیصلہ کرتے وقت شاید ان کے پاس سوچنے کی صلاحیت نہیں۔ اسی لیے تو مقامی کھلاڑیوں اور آفیشلز کے قرنطینہ میں جانے سے پہلے یا پھر غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان روانہ ہونے سے قبل یہ خبر دی گئی کہ لیگ تو ہو گی لیکن وہاں نہیں جہاں آپ سمجھ رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ کھلاڑی جنہیں کراچی میں ہوٹل میں چیک ان کرنا تھا۔ ابوظہبی کے لیے بورڈنگ پاس پکڑیں گے اور جن کھلاڑیوں کو کراچی لینڈ کرنا تھا ان کی چارٹرڈ فلائٹس کا رخ اب ابوظہبی کی جانب ہوگا۔

مرزا اقبال بیگ کے بقول اب پی ایس ایل میں کئی اسے کھلاڑی جو پاکستان میں کھیلے گئے 14 میچز میں ایکشن میں نظر آئے تھے، باقی میچز میں نہیں شامل ہوں گے اور ان کی جگہ وہ کھلاڑی لیں گے جو یا تو انٹرنیشنل کرکٹ میں مصروف نہیں یا آج کل فارغ ہیں۔

انہی کھلاڑیوں میں شامل ہیں آسٹریلیا کے عثمان خواجہ جو گزشتہ پانچ سال سے اپنے ملک کی ٹی ٹوئنٹی میں نمائندگی کے لیے اور دو سال سے ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشل ٹیم میں کم بیک کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

سری لنکا کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے آل راؤنڈر تشارا پریرا، پاکستان کے خلاف جنوبی افریقی سیریز میں شرکت کرنے والے یانیمن ملان اور ویسٹ انڈیز کے آندرے رسل، جو کبھی اپنی ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں تو کبھی نہیں، بھی شامل ہیں۔

نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل کی شمولیت سے لیگ کو چار چاند تو لگ جائیں گے لیکن متبادل کھلاڑی کی حیثیت سے منتخب ہونے والے بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، محمود اللہ اور لٹن داس نے پی ایس ایل پر اپنے ملک میں ہونے والی بنگلہ دیش پریمئیر لیگ کو فوقیت دی اور ان کے متبادل کا فیصلہ آئندہ ہو گا۔

ان کے علاوہ جنوبی افریقہ کے آل راؤنڈر جارج لنڈے، آسٹریلوی کھلاڑی جو برنز اور بین کٹنگ بھی مختلف وجوہات کی وجہ سے اب پی ایس ایل کا حصہ نہیں ہوں گے۔

ایونٹ کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری اب برطانوی کمپنی کے حوالے

فی الحال جو خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان کے مطابق پی سی بی نے ملتوی شدہ لیگ کے سولہ راؤنڈ میچز اور کوالیفائنگ راؤنڈ کے چار میچز کے لیے بائیو سیکیور ببل کو مزید سیکیور بنانے کی ذمہ داری خود لینے کے بجائے ایک برطانوی کمپنی کو دے دی ہیں۔

اسی کمپنی نے گزشتہ سال دبئی میں کرونا کے دوران ہونے والی انڈین پریمئیر لیگ کو محفوظ بنایا تھا اور اب پی ایس ایل سکس کو محفوظ بنانا اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ لیکن کیا یہ کمپنی فرنچائز مالکان، کھلاڑیوں کے خاندانوں اور فینز کو روکنے میں کامیاب ہوگی۔

مرزا اقبال بیگ پر امید ہیں کہ پی سی بی نے بائیو سیکیور ببل کو محفوظ بنانے کے لیے ‘ایسٹراڈا’ نامی جس کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں، اسے اس کام میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی برطانوی کمپنی نے گزشتہ سال دبئی میں آئی پی ایل کے محفوظ انعقاد کو یقینی بنایا تھا اور اس بار بھی اس نے جو اقدامات کیے ہیں۔ اس سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ بخوبی ہورہا ہے۔

ان کے بقول چھ ٹیموں کے لیے تین ہوٹل مختص کرنا، براڈ کاسٹنگ عملے، جس میں کمنٹیٹرز بھی شامل ہیں، ان کے لیے ایک الگ ہوٹل، وہ اقدامات ہیں جن کی وجہ سے کرونا سے بچا بھی جا سکتا ہے اور اس کے روک تھام میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

ابوظہبی میں ایسا کیا ہے جو کراچی میں نہیں؟

عبدالماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ابوظہبی میں لے جانے سے کئی نقصانات ہوں گے جس کے بارے میں بورڈ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان اپنی کوئی ہوم سیریز ملک سے باہر نہیں کھیلے گا۔ لیکن پی ایس ایل کے متحدہ عرب امارات جانے سے بورڈ کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ مانا کہ عمران خان نے یہ بات سیکیورٹی حالات کی وجہ سے کہی تھی اور اب کرونا کی وجہ سے حالات مختلف ہیں، لیکن اب پاکستان کرکٹ بورڈ کیسے دوسرے ممالک کو پاکستان آنے پر قائل کرے گا۔ جب وہ خود اپنی کرکٹ لیگ دوسرے ملک لے جارہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے دس ماہ میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو پاکستان کا دورہ کرنا ہے لیکن جب پی سی بی اپنی لیگ سیکیور نہیں بنا پا رہا تو یہ ٹیمیں یقیناً سوال کر سکتی ہیں کہ آپ انٹرنیشنل میچز کیسے سیکیور کریں گے۔ کیا وہ سیریز بھی یو اے ای میں کھیلیں گے؟

ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر بورڈ کو کراچی میں میچز نہیں کرانا تھے تو تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرکے ایونٹ کو ملتان، لاہور یا راول پنڈی جیسے کسی اور شہر منتقل کیا جاسکتا تھا۔ (فائل فوٹو)
ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر بورڈ کو کراچی میں میچز نہیں کرانا تھے تو تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرکے ایونٹ کو ملتان، لاہور یا راول پنڈی جیسے کسی اور شہر منتقل کیا جاسکتا تھا۔ (فائل فوٹو)

ان کے بقول جب ٹیموں کو بائیو سیکیور ببل میں رہنا ہے، کرکٹ میچز اسٹیڈیم میں کھیل کر واپس ہوٹل ہی آنا ہے، تو ابوظہبی کے بجائے پاکستان میں سیریز کیوں نہیں ہوسکتی؟۔ آرام سے کراچی کا ایک فائیو اسٹار ہوٹل پورا بک کرالیا جاتا، نیشنل اسٹیڈیم میں تماشائیوں اور میڈیا کے بغیر میچ ہوتے اور وہ کئی گنا زیادہ خرچہ جو پی سی بی ابوظہبی میں کرے گا، اسے بچالیا جاتا۔ لیگ کو ملک سے باہر لے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بورڈ کو کراچی میں میچز نہیں کرانے تھے تو تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرکے ایونٹ کو ملتان، لاہور یا راولپنڈی جیسے کسی اور شہر منتقل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن پی سی بی نے بغیر یہ سوچے کہ خرچہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ ایونٹ کو دوسرے ملک لے جانے کا فیصلہ کیا۔

ماجد بھٹی کا کہنا تھا کہ نہ جانے بورڈ کب بتانا پسند کرے گا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو ابوظہبی لانے کے لیے چارٹرڈ فلائٹس، ان کے قیام کے لیے مہنگے ہوٹلز، دوسرے ملک میں کرکٹ گراؤنڈ استعمال کرنے کی فیس، وہاں ٹرانسپورٹ کے زیادہ پیسے اور سیکیورٹی والوں کی تنخواہ، اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟۔ پاکستان میں نہ صرف یہ خرچے بچ جاتے بلکہ کامیاب ایونٹ کے ذریعے مستقبل میں دوسری ٹیموں کو پاکستان مدعو کرنے کے لیے ایک کامیاب ماڈل بھی مل جاتا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔