فلمی جائزے فلمیں

بڑے بجٹ میں بننے والی وہ فلمیں جو باکس آفس پر ناکام ہوئیں

Written by ceditor

کراچی — ہر بڑی فلم کی ریلیز سے قبل اس کے پروڈیوسرز پُرامید ہوتے ہیں کہ وہ فلم باکس آفس پر زیادہ سے زیادہ بزنس کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ ان کے خیال میں وہ کم سے کم وقت میں اپنے بجٹ سے تین گنا زیادہ ریٹرن وصول کرلیں گے جس کے بعد فلم کو ہٹ قرار دیا جائے گا۔

لیکن حال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارت کی مہنگی ترین فلموں میں شامل ‘آدی پورش’ باکس آفس پر کچھ خاص بزنس نہ کر سکی۔ و مذہبی کتاب رامائن سے ماخوذ بھارتی چھ ارب روپے کی خطیر لاگت میں بننے والی فلم نے 17 روز کے دوران بھارت میں لگ بھگ دو ارب 85 کروڑ روپے کا بزنس کیا۔

آدی پورش کے ہدایت کار اوم روت اور مصنف منوج منتشر نے فلم کے متنازع مکالمے تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ٹکٹ بھی سستے کر دیے تھے لیکن بڑے بجٹ کی یہ فلم باکس آفس پر فلاپ ہوتی ہی نظر آرہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب کوئی بڑے بجٹ کی فلم باکس آفس پر اپنا جادو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہو۔ اس سے پہلے بھی ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستان کی زیادہ بجٹ کی کئی فلمیں شائقین کے دل کو نہ بھاسکیں اور باکس آفس پر فلاپ قرار پائیں۔

آئیے چند ایسی ہی فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی ریلیز سے قبل پروڈیوسرز پرامید تھے کہ ان کا لگایا ہوا پیسہ دگنا یا تین گنا ہو کر واپس آئے گا لیکن فلم کے فلاپ ہونے کے بعد کچھ کو اسٹوڈیو بند کرنا پڑے تو بعض کو اگلی فلم بناتے وقت متعدد بار سوچنا پڑا۔

کٹ تھروٹ آئی لینڈ؛ کامیاب اسٹوڈیو کو ناکام بنانے والی فلم

ٹرمنیٹر ٹو: ججمنٹ ڈے، بیسک انسٹنکٹ، ٹوٹل ریکال اور ریمبو فرانچائز جیسی مقبول اور کامیاب ہالی وڈ فلمیں بنانے والے ‘کارولکو پکچرز’ کی مینجمنٹ کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان کی فلم ‘کٹ تھروٹ آئی لینڈ’ آگے جا کر ان کے اسٹوڈیو کو ہی ختم کر دے گی۔

سن 1995 میں 98 ملین ڈالرز کی لاگت سے بننے والی اس وقت کی سب مہنگی فلم ‘کٹ تھروٹ آئی لینڈ’ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں دنیا کی سب سے بڑی فلاپ فلم کے طور پر درج ہے۔

اس فلم نے دنیا بھر سے صرف ساڑھے 18 ملین ڈالرز کا بزنس کیا تھا جو اس کے بجٹ کے پانچویں حصے سے بھی کم تھا۔

فلم کی کہانی بحری قزاقوں کے گرد گھومتی ہے۔

اسٹوڈیو کو توقع تھی کہ اس کے ہٹ ہونے کے بعد اس قسم کی مزید فلمیں سامنے آئیں گی۔ لیکن فلم باکس آفس پر اتنی بری طرح فلاپ ہوئی کہ ایک تو اسٹوڈیو دیوالیہ ہو گیا اور کسی بھی پروڈیوسرز نے اگلے آٹھ سال تک بحری قزاقوں پر فلم بنانے کا نہیں سوچا۔

کنگ آرتھر کی جادوئی تلوار

عموماً ہدایت کار گائے رچی کی فلمیں باکس آفس پر اچھا بزنس بھی کرتی ہیں لیکن جب انہوں نے کنگ آرتھر کی کہانی کو اسکرین پر لانے کی کوشش کی تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک سو پچھتر ملین ڈالرز کی لاگت سے بننے والی فلم میں اداکار چارلی ہننم نے معروف بادشاہ آرتھر کا کردار نبھایا تھا جب کہ ساتھی اداکاروں جوڈ لا اور ایرک بینا کی موجودگی بھی اس فلم کو کامیاب نہ بنا سکی۔ باکس آفس پر اس کا مجموعی بزنس 150 کروڑ ڈالرز بھی نہ پار کرسکا۔

سن 2017 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو کری ایٹیو لبرٹی لینے پر شائقین اور مبصرین دونوں نے ہی مسترد کردیا تھا۔

فرضی کردار دی لون رینجر کی ناکامی

دی لون رینجر کے کردار کو امریکی کلچر میں وہی مقام حاصل ہے جو پاکستان اور بھارت میں آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والے افراد کو ہے۔ لیکن اس فرضی کردار کو جب جب سنیما میں پیش کیا گیا پروڈیوسرز کو ناکامی ہی ہوئی۔

سن 2013 میں جب اداکار آرمی ہیمر اور جونی ڈیپ کو لون رینجر اور ان کے ساتھی ٹونٹو کے کردار میں پیش کیا گیا تو پروڈیوسرز پر امید تھے کہ شائقین اس بار فلم کو پسند کرکے کامیاب بنائیں گے۔

لیکن 225 ملین ڈالرز کی لاگت سے بننے والی فلم کو اس کی طوالت اور جونی ڈیپ کے معاون کردار میں ہونے کی وجہ سے ناقدین اور شائقین نے مسترد کردیا۔

فلم دنیا بھر سے مجموعی طور پر 260 عشاریہ پانچ ملین ڈالرز ہی کماسکی۔

بعض سپر ہیرو فلمیں بھی باکس آفس پر چل نہ سکیں

ہالی وڈ میں بعض بڑے بجٹ سے بننے والی سپر ہیروفلمیں بھی شائقین کو متاثر نہ کر سکیں جن میں سن 2011 میں ریلیز ہونے والی گرین لینٹرن، 2020 میں ونڈر وومن 1984 اور 2022 میں بلیک ایڈم شامل ہیں۔

ان تینوں فلموں کا بجٹ 200 کروڑ ڈالرز سے زائد تھا اور ہٹ ہونے کے لیے انہیں 600 کروڑ ڈالرز کمانے تھے لیکن اس میں سے کوئی بھی فلم اپنے بجٹ سے دوگنے پیسے بھی نہ کماسکی۔

ونڈر وومن 1984 کی ناکامی کی ممکنہ وجہ اسے کروناکی وبا کے فوراً بعد ریلیز کرنا تھی لیکن گرین لینٹرن اور بلیک ایڈم اپنی کمزور کہانیوں، مایوس کن اداکاری اورپروڈکشن کی وجہ سے باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔

کامیاب فلموں کے ناکام سیکوئل

ٹرمینیٹر ٹو، ججمنٹ ڈے اور میٹریکس، 90 کی دہائی کی دو ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے ہالی وڈ میں اسپیشل ایفیکٹس کا شعبہ پروان چڑھا لیکن ان دونوں فلموں کے بالترتیب 2019 اور 2021 میں ریلیز ہونے والے سیکوئلز کو وہ پذیرائی نہیں ملی جن کی ان سے توقع تھی۔

سن 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ٹرمینیٹر، ڈارک فیٹ کا بجٹ لگ بھگ 190 کروڑ ڈالرز تھا لیکن اس کا بزنس 260 کروڑ ڈالرز رہا۔

اسی طرح 18 برس بعد میٹریکس کا ریلیز ہونے والا سیکوئل بھی باکس آفس پر بر طرح ناکام ہوا۔

ناقدین کے مطابق 190 ملین ڈالرز کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے فرانچائز کی پچھلی تین فلموں کی مقبولیت کو کیش کرنے کے لیے کامیڈی کا جو سہارا لیا جس نے شائقین کو مایوس کیا اور فلم اپنا بجٹ بھی پورا نہ کرسکی۔

اس کے علاوہ اداکار ٹام کروز کی فلم مشن امپاسبل نے 2017 کی مشہور فرانچائز ‘دی ممی’ کو ری بوٹ کرنے کی جو کوشش کی جس کی وجہ سے پروڈیوسرز کو نقصان ہوا۔

فلم کا بجٹ 195 کروڑ ڈالر تھا لیکن ناقدین اور شائقین نے اس کی بچکانہ کہانی کی وجہ سے اسے مسترد کیا جس کے نتیجے میں اس نے دنیا بھر سے صرف 410 کروڑ ڈالرز کمائے۔

بالی وڈ کی وہ بڑی فلمیں جنہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا

ہالی وڈ کے مقابلے میں بالی وڈ فلموں کا بجٹ کم ہوتا ہے لیکن دنیا بھر میں ریلیز ہونے کی وجہ سے کئی فلمیں اپنا بزنس پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ سن 1970 میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار، پروڈیوسر و اداکار راج کپور کی فلم ‘میرا نام جوکر’ بھی ایک ایسی ہی فلم تھی جسے دو انٹرمیشن اور چار گھنٹے سے زیادہ لمبی ہونے کی وجہ سے ریلیز کے وقت فلاپ قرار دیا گیا تھا۔

فلم میں تین کہانیوں کو ایک ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس میں بھارت کے ساتھ ساتھ سوویت اداکاروں نے بھی کام کیا تھا۔ فلم کا بجٹ ایک کروڑ روپے تھا جو کسی بھی بالی وڈ فلم کے لیے ریکارڈ بجٹ تھا۔ لیکن فلم کے فلاپ ہونے کی وجہ سے راج کپور کو مالی نقصان ہوا تھا جسے انہوں نے چند سال بعد ‘بوبی’ بناکر پورا کیا۔

‘میرا نام جوکر’ نے بھی بعد میں سوویت یونین میں ریلیز ہوکر اور بھارت میں کم دورانیے پر ری ریلیز ہوکر اپنا بجٹ پورا کرلیا تھا۔

گزشتہ برس ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم ‘براہماسترا: پارٹ ون، شیوا’ 400 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی جب کہ اس کا مجموعی بزنس بھی 400 کروڑ کے لگ بھگ ہی رہا۔فلم کے پروڈیوسر نےاس کے اسپیشل ایفیکٹس پر کافی پیسہ خرچ کیا لیکن اس کے باوجود بھی اسے فلاپ ہونے سے نہ بچاسکے۔

اس سے قبل عامر خان اور امیتابھ بچن کی فلم ‘ٹھگز آف ہندوستان’ بھی باکس آفس پر نمایاں بزنس نہیں کر پائی تھی۔ 300 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی فلم نے باکس آفس پر صرف 335 کروڑ ہی کمائے تھے۔

سن 2021 میں ریلیز ہونے والی اسپورٹس فلم ’83’ نے ایوارڈز تو کئی جیتے لیکن اس کی کمائی کچھ خاص نہ تھی۔ فلم کی کہانی 1983 میں ہونے والے اس کرکٹ ورلڈ کپ کے گرد گھومتی ہے جس میں کپیل دیو نے بھارت کو فتح سے ہمکنار کیا۔

رنویر سنگھ نے 250 کروڑ روپے کے بجٹ میں بننے والی فلم میں بھارتی کپتان کا کردار نبھایا تھا لیکن کرونا کی وجہ سے سنیماؤں کی بندش اور ہالی وڈ فلم ‘اسپائیڈر مین نو وے ہوم’ کے ساتھ ریلیز کی وجہ سے اسے نقصان پہنچا اور اس نے مجموعی طور پر 200 کروڑ سے بھی کم کا بزنس کیا۔

شاہ رخ خان کی فلم ‘زیرو’ 200 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی، اس کے چند سین نیشنل ایروناٹکس اور اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا ) میں فلمائے گئے تھے لیکن ان سب کے باوجود فلم کا مجموعی بزنس 191 کروڑ رہا۔

اس فلم کے بعد شاہ رخ خان نے فلموں سے بریک لے لیا اور رواں سال کے آغاز میں فلم پٹھان سے کم بیک کیا جس کا شمار بھارت کی کامیاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ عامر خان کی فلم ‘لال سنگھ چڈھا’ بھی شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ہالی وڈ فلم ‘فاریسٹ گمپ’ سے ماخوذ اس فلم کا بجٹ 180 کروڑ روپے تھا۔’لال سنگھ چڈھا’ کی ناکامی کے بعد عامر خان نے فلموں سے بریک لینے کا اعلان کیا۔

یلغار: پاکستان کی سب سے مہنگی فلم فلاپ

ویسے تو پاکستان میں زیادہ بڑے بجٹ کی فلمیں نہیں بنتیں لیکن جب بھی بڑے بجٹ کی فلموں کی بات ہو گی تو اس میں مصنف، ہدایت کار و پروڈیوسر حسن وقاص رانا کی فلم ‘یلغار’ کا ذکر ضرور آئے گا۔

یہ فلم پاکستان آرمی کے اشتراک سے بنائی گئی تھی اور اس کی کہانی سوات میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن پر مبنی تھی۔

اس فلم میں شان شاہد، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، بلال اشرف، عائشہ عمر ، گوہر رشید اور ارمینا رانا خان جیسے اداکار شامل تھے اور اس کے مصنف کے بقول اس کے لیے 100 سے زیادہ کردار تخلیق کیے گئے تھے۔ لیکن ایکشن سے بھرپور اس فلم کو باکس آفس پر وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی انہیں امید تھی۔

جس وقت یہ فلم ریلیز ہوئی تھی اس وقت یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مہنگی فلم تھی اور اس کا بجٹ لگ بھگ 30 سے 40 کروڑ روپے تھا۔ لیکن عید الاضحٰی پر ریلیز ہونے کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر صرف 20 کروڑ روپے ہی کماسکی۔

اس فلم کے فلاپ ہونے کی بڑی وجہ اس کی کمزور ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ کرداروں کی بھرمار تھی۔

About the author

ceditor