اسپورٹس

کیا عثمان خان کو امارات کی جگہ پاکستان کی نمائندگی سے فائدہ ہو گا؟

Written by ceditor

کراچی — 

عثمان خان نے ملتان سلطانز کی جانب سے پی ایس ایل میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
عثمان خان کاکول میں جاری پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹریننگ کیمپ میں شریک ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کا ٹریننگ کیمپ فوج کی زیرِ نگرانی کاکول میں جاری ہے جس میں حال ہی میں ختم ہونے والی پاکستان سپر لیگ نائن کے ٹاپ اسکورر عثمان خان بھی شریک ہیں۔

عثمان خان پی ایس ایل نائن کے اختتام تک تو بطور غیر ملکی کرکٹر ملتان سلطانز کی نمائندگی کر رہے تھے لیکن اب پاکستان سے کھیلنے کے لیے پرامید ہیں۔

ان کی اس ممکنہ سلیکشن میں جہاں پاکستان سپر لیگ نائن میں دو سینچریوں کا عمل دخل ہے وہیں ان کی جارحانہ بیٹنگ کا بھی ہاتھ ہے جس نے ملتان سلطانز کو فائنل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

عثمان خان کے کریئر میں اماراتی کرکٹ بورڈ کا بھی کافی ہاتھ تھا جس کی اگلے سال وہ انٹرنیشنل ٹیم کی نمائندگی کے اہل ہو سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان ٹیم میں ممکنہ طور پر جگہ بنانے کے بعد وہ اس موقع سے محروم ہو جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق عثمان خان نے پی سی بی سے مشاورت کے بعد اماراتی کرکٹ بورڈ کو اپنا سینٹرل کانٹریکٹ ختم کرنے کا نوٹس بھیج دیا جس پر اطلاعات کے مطابق اماراتی بورڈ کے حکام زیادہ خوش نہیں ہیں۔

اگر عثمان خان کو پاکستان ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اماراتی کرکٹ بورڈ اسے کانٹریکٹ کی خلاف ورزی سمجھ کر ان پر جرمانہ لگائے یا ان کی مقامی لیگز میں شرکت پر پابندی لگا دے۔

اس کے برعکس وہ اگر فٹ رہے تو پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ٹیم کی نمائندگی کر کے نہ صرف نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف سیریز کا بلکہ رواں سال ورلڈ کپ کا بھی حصہ ہوں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کسی ایسوسی ایٹ ملک کے کھلاڑی کو کسی انٹرنیشنل ٹیم نے اچھی کارکردگی کے بعد منتخب کیا ہو۔ حال ہی میں سنگاپور کے ٹم ڈیوڈ آسٹریلوی ٹیم کا حصہ بنے تھے۔

لیکن کیا عثمان خان کی پاکستان ٹیم میں سلیکشن ان کے کریئر کے لیے اور پاکستان کے لیے اچھا فیصلہ ثابت ہو گا؟ یہ معاملہ کرکٹ حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

عثمان خان کو اماراتی کرکٹ بورڈ کے ساتھ معاہدے سے کیا فائدہ ہوا تھا؟

کرکٹ ماہرین کے مطابق عثمان خان کا شمار ان نوجوان کرکٹرز میں ہوتا ہے جو ماڈرن کرکٹ کے انداز کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں ختم ہونے والی پاکستان سپر لیگ کے سیزن میں صرف سات میچوں میں دو سینچریوں اور دو ہی نصف سینچریوں کی مدد سے 430 رنز بنا کر سب کی توجہ حاصل کی۔

لیکن اس لیگ میں شان دار کارکردگی کی وجہ ان کا وہ تجربہ تھا جو انہوں نے بطور اماراتی کھلاڑی گزشتہ کچھ برسوں میں حاصل کیا نہ صرف وہاں انہوں نے بطور تیز رنز بنانے والے بلے باز اپنی الگ شناخت بنائی بلکہ وکٹ کیپنگ کی وجہ سے انہیں آل راؤنڈر بھی تسلیم کیا گیا۔

دس مارچ 1995 کو کراچی میں پیدا ہونے والے کھلاڑی نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز تو 2017 میں پاکستان سے کیا تھا۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے کئی مقامی ٹی ٹوئنٹی میچوں میں شرکت کر کے کافی نام کما لیا تھا۔

تاہم پاکستان میں بہتر مواقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ دلبرداشتہ ہو کر امارات چلے گئے تھے جہاں 28 سالہ کھلاڑی نے ایک نجی کمپنی میں نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ٹیموں کی نمائندگی کر کے اماراتی کرکٹ بورڈ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

عثمان خان کو ان کی شاندار پرفارمنس پر اماراتی کرکٹ بورڈ نے سینٹرل کانٹریکٹ بھی دے دیا تھا جس کے بعد ان کی یو اے ای کی ٹیم میں سلیکشن کا امکان بڑھ گیا تھا۔

عثمان خان سے قبل بھی کئی پاکستانی اور بھارتی نژاد کھلاڑی یو اے ای کی قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ لیکن انہیں ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے وہاں کا ورک پرمٹ حاصل کر کے کچھ عرصے کے لیے رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے۔

عثمان خان نے بھی ایسا ہی کیا اور اسی سینٹرل کانٹریکٹ کی وجہ سے وہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور انٹرنیشنل لیگ ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ساتھ ابوظبی ٹی ٹین اور کینیڈا میں ہونے والی گلوبل ٹی ٹوئنٹی میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کر سکے تھے۔

عموماً ان مقابلوں میں یا تو وہ پاکستانی کھلاڑی کے طور پرکھیل پاتے ہیں جن کے پاس سینٹرل کانٹریکٹ نہیں ہوتا یا جنہیں پی سی بی اجازت دیتا ہے، تاہم عثمان خان پر ان اصولوں کا اطلاق نہیں ہوا۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے سے عثمان خان کے کریئر کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟

سال 2023 عثمان خان کے کریئر کا یادگار ترین سال ثابت ہوا جس میں پہلے انہوں نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں صرف 55 گیندوں پر سینچری اسکور کی اور بعد میں ملتان سلطانز کی جانب سے صرف 36 گیندوں پر پی ایس ایل کی تیز ترین سینچری بنائی۔

انہوں نے اب تک نہ پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں نمائندگی کی ہے نہ ہی متحدہ عرب امارات کی۔ لیکن پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ سے انہیں یہاں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔

اگر وہ پاکستان کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پھر انہیں ایک تو انٹرنیشنل لیگز سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ دوسرے ٹاپ آرڈر کے بجائے اس پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑے گا جو انہیں دی جائے گی۔

پی ایس ایل 9 کے دوران صائم ایوب نے بطور اوپنر اچھی کارکردگی دکھا کر اس پوزیشن پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے جب کہ محمد رضوان اور بابر اعظم ٹاپ تھری پوزیشن سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔

مڈل آرڈر میں افتخار احمد جیسے جارح مزاج بلے باز کی موجودگی میں عثمان خان کے پاس صرف نمبر چار اور نمبر ‘پانچ پر بیٹنگ کرنا ہی رہ جاتا ہے جہاں ان کی دھواں دار بیٹنگ سے فائدہ کم ہی اٹھایا جا سکے گا۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor