کراچی —
فن کار سوشل میڈیا پر اکثر سماجی مسائل اور دیگر موضوعات پر بات کرتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر بیشتر اداکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اداکار فیصل قریشی ، ہمایوں سعید اور ماہرہ خان سمیت متعدد فن کاروں نے سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے دورِ حکومت کی حمایت کی جب کہ اداکارہ اشنا شاہ نے کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی کو نامناسب قرار دیا۔
البتہ پاکستان شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے سینئر اداکار ساجد حسن کا یہ ماننا ہے کہ فن کاروں کو سیاست پر کھلے عام بات نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ان کا شعبہ نہیں اور انہیں اپنی اداکاری پر توجہ دینا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سلیبرٹیز سیاست سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جب کہ کچھ فن کار یہ نہیں چاہتے کہ ان کے مداح ان کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے تقسیم ہو جائیں تو وہ چپ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسا کرنا ان کا حق ہے۔
ساجد حسن کے بقول "بہتر تو یہی ہے کہ فن اور سیاست کو جوڑا نہ جائے لیکن جو فن کار سیاست کو سمجھتے ہیں تو انہیں اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔”
سوشل میڈیا پر عمران خان کی حمایت کرنے والے اداکار و گلوکار ہارون شاہد کے مطابق پاکستان پر جتنا حق سیاست دانوں کا ہے فن کاروں کا بھی اتنا ہی حق ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون شاہد نے کہا کہ "اگرہم ٹی وی پر کام کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم عام انسان نہیں ہیں، ہم ٹیکس بھی دیتے ہیں، ہمارے گھر کے باہر جو سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اس سے پریشان بھی ہوتے ہیں، ویزا حاصل کرنے کے لیے ایک عام پاکستانی کی طرح پراسس سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو پھرہمیں سیاست پر بات کرتے ہوئے سلیبرٹی کیوں قراردیاجاتا ہے؟”
ہارون شاہد کے مطابق وہ شوبز سے تعلق رکھنے والے اس فرد کو زیادہ اہمیت دیں گے جو سیاست پر بات کرتا ہو۔ ان کے نزدیک ایسے فرد کی کوئی اہمیت نہیں جس کی کوئی رائے ہی نہ ہو اور جو برانڈ کو ناخوش کرنے کے ڈر سے خاموش بیٹھ جائے۔
‘ہر باشعور اور محبِ وطن شہری سیاسی حالات پر بات کرنے کا اہل ہے’
پاکستانی اداکارہ زینب قیوم سوشل میڈیا پر سیاست سے متعلق اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر محبِ وطن پاکستانی کی طرح انہیں بھی سیاست پر اپنی رائے دینے کا حق ہے۔
ان کے بقول، "اگر میں ٹیکس دیتی ہوں تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ میرے شعبے کی وجہ سے میری رائے کو کم تر سمجھے۔”
زینب کہتی ہیں ہر وہ شخص جس کے پاس شناختی کارڈ ہے، جسے پاکستان سے محبت ہے اور جو خود کو ایک محبِ وطن پاکستانی سمجھتا ہے، اسے سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔
پاکستان میں شوبز اور سیاست کا ساتھ نیا نہیں
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں شوبز اور سیاست کا ساتھ نیا نہیں۔ ماضی میں کئی سیاست دانوں نے سیاست میں آنے سے قبل شوبز کی دنیا میں طبع آزمائی کی جب کہ چند ایک نے تو شوبز میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے سیاست میں آنے سے بہت پہلے فلم ‘سالگرہ’ میں اداکاری کی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انہوں نے اداکار وحید مراد کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہی سے تعلق رکھنے والی سیاست دان فوزیہ وہاب نے بھی سیاست میں آنے سے پہلے 90 کی دہائی میں حسینہ معین کے ڈرامے ‘کہر ‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شرمیلا فاروقی بھی 90 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے ‘پانچواں موسم’ میں اعجاز اسلم، طلعت حسین، گلاب چانڈیو اور عبداللہ کادوانی کے ساتھ اسکرین شیئر کر چکی ہیں۔
اسی طررح اگر اداکاروں کی بات کی جائے تو دو دہائیوں تک ٹی وی اور فلم سے منسلک رہنے والی کنول نعمان نے اداکاری چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی جو اس وقت رکنِ پنجاب اسمبلی ہیں۔
اردو اور پشتو فلموں کی معروف اداکارہ مسرت شاہین نے بھی سن 2000 میں پاکستان تحریک مساوات کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی تھی اور ہر انتخابات میں وہ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف الیکشن لڑ کر خبروں کی زینت بنیں۔
سینئر اداکارہ گلِ رعنا نے بھی گزشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا تاہم انہیں خاص کامیابی نہ مل سکی۔
سیات میں قدم رکھنے والے اداکار
اداکار سید کمال نے 80 اور 90 کی دہائی میں متعدد بار قومی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہی ہوئے۔ تاہم انہوں نے اپنے اس تجربے پر مبنی فلم ‘سیاست’ بنائی جسے شائقین نے بے حد پسند کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مقبول اسٹیج شو ‘نیلام گھر’ کے میزبان طارق عزیز نے بھی سیاست میں قدم رکھا۔ وہ نوے کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھے اور انہوں نے نہ صرف الیکشن لڑ ا بلکہ کامیابی بھی حاصل کی۔
ان کے علاوہ اداکار شفیع محمد شاہ ، قیصر خان نظامانی ، ایوب کھوسہ اور ساجد حسن نے بھی مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور ناکام رہے۔تاہم معروف فلم اداکار محمد علی نے الیکشن تو نہیں لڑا لیکن وہ سیاست میں کافی حد تک سرگرم رہے۔
اسی کی دہائی میں وہ صدر ضیا الحق اور بعد میں میاں نواز شریف سے کافی قریب رہے۔ انہوں نے سابق صدر ضیاالحق کے کہنے پر اپنی اہلیہ اور اداکارہ زیبا بیگم کے ساتھ بھارت جاکر منوج کمار کی فلم ‘کلرک’ میں اداکاری کی تھی۔
معروف موسیقار اور گلوکار جواد احمد نے بھی 2018 کے انتخابات سے قبل برابری پارٹی پاکستان قائم کی تھی۔ انہوں نے خواجہ سعد رفیق اور عمران خان کے خلاف الیکشن بھی لڑا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔
پاکستان تحریک انصاف کے منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی اداکاروں نےعمران خان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس میں ٹی وی اینکر عامر لیاقت اور مرحوم اداکار عابد علی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ البتہ حال ہی میں عامر لیاقت نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
معروف گلوکار ابرار الحق نے بھی گزشتہ دو انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا لیکن یہ بھی ناکام ہوئے تھے۔ تاہم ماڈل عباس جعفری سندھ اسمبلی کا الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔