فلمی جائزے فلمیں

پاکستان کی پہلی تھری ڈی اینی میٹڈ فلم ‘اللہ یار اینڈ دی ہنڈریڈ فلاورز آف گاڈ’ میں نیا کیا ہے؟

Written by ceditor

کراچی — پاکستان میں "اینی میٹڈ "فلمیں زیادہ تو نہیں بنیں لیکن ہدایت کار عزیر ظہیر خان کی ‘اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ’ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اینی میٹڈ فلموں کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے۔

تھری ڈی ٹیکنالوجی میں بننے والی یہ فلم نہ صرف پاکستان کی جانب سے پہلی کوشش ہے بلکہ اسے دیکھ کر آنے والے فلم میکرز کا حوصلہ بڑھے گا۔

عیدالاضحٰی پر ریلیز ہونے والی فلم میں پاکستان کے نامور اداکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ ان فنکاروں میں علی ظفر، ہمایوں سعید، بشریٰ انصاری، اقرا عزیز اور میرا کے ساتھ ساتھ اظفر جعفری بھی شامل ہیں۔

فلم کے مرکزی کردار اللہ یار کے کردار میں انعم زیدی نے اپنی آواز سے جان ڈالی جنہوں نے 2018 میں بننے والی فلم ‘اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور’ میں بھی اس کردار پر وائس اوور کیا تھا۔

گزشتہ فلم کی طرح اس فلم میں بھی اللہ یار نامی لڑکے کے پاس جانوروں سے بات کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اسے اپنے علاقے کے تمام جانوروں کا محافظ مانا جاتا ہے۔

جب اس کے والد درختوں کو کاٹ کر فرار ہونے والے افراد کا تعاقب کرنے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے تو اللہ یار اور اس کے چکور دوست ہیرو ان کی کھوج میں ایک ایسی دنیا میں قدم رکھتے ہیں جہاں انسانوں کی جگہ روبوٹس کا بسیرا ہوتا ہے اور جہاں دوسری دنیا سے لائے درختوں کو کاٹ کر روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔

فلم میں جہاں بچوں کے لیے سبق ہے وہیں ان کے والدین بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

فلم میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ درختوں کو کاٹنے سے کیا نقصان ہوتا ہے بلکہ ماحولیات کے حوالے سے بھی آگاہی دی گئی ہے جس کے مطابق اللہ تعالی کی ہر تخلیق کا زندہ رہنا ضروری ہے۔

فلم کو عید الاضحٰی پر ریلیز کرنا درست فیصلہ کیوں ہے؟

تھرڈ ورلڈ اسٹوڈیوز کے تحت بننے والی اس فلم کی ہدایت دی ہیں عزیر ظہیر خان نے، جنہوں نے اس کا اسکرپٹ بھی خود ہی لکھا ہے۔ انہوں نے ہی پاکستان میں تھری ڈی اینی میٹڈ فلموں کی بنیاد رکھی جسے بچوں اور بڑوں دونوں نے پسند کیا۔

فلم کی ریلیز کے لیے بھی انہوں نے ہالی وڈ کے معروف ہدایت کار اسٹیون اسبیلبرگ کا مشورہ مانا۔ جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بچوں کی فلم بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنے ساتھ والدین کو بھی سنیما میں لاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پہلے دو جون کو ریلیز ہونے والی فلم کو انہوں نے عید الاضحٰی پر ایک ایسے وقت میں ریلیز کیا جب اس کے سامنے کوئی اور ملکی یا غیر ملکی اینی میٹڈ فلم نہیں تھی۔

اگر یہ فلم دو جون کو ریلیز ہوتی تو شاید اچھا بزنس نہ کرپاتی کیوں کہ اسی تاریخ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اینی میٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس’ ریلیز ہوئی تھی جس نے باکس آفس پر بزنس کرکے کسی دوسری فلم کو آگے آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

عید الاضحٰی سے زیادہ ‘اللہ یار اینڈ دی ہنڈریڈ فلاورز آف گاڈ’ کو فائدہ اسکول کی چھٹیوں سے ہوگا کیوں کہ جولائی کے مہینے میں بچوں کے پاس وقت تو ہوگا لیکن ان کے پاس کسی دوسری فلم کا آپشن نہیں ہوگا۔

وائس اوورز بچوں کو سوچنے پر بھی مجبور کریں گے اور ہنسنے پر بھی

اب کچھ بات فلم کی اینی میشن کی جس کے لیے ہدایت کار کو دگنی محنت کرنی پڑی۔ ایک تو اینی میٹد فلم بنانے کی محنت اور دوسرا کم لاگت سے اسے تھری ڈی میں منتقل کرنے کی مشقت۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سال میں 20 کے لگ بھگ فلمیں بنتی ہیں، ایک اینی میٹڈ تھری ڈی فلم بنانا وہ بھی اس معیار کی کہ اسے بیرون ملک داد ملے، ایک اچھا قدم ہے۔

فلم کے فائٹ سین بھی کہیں کہیں اسٹار وارز سیریز کی یاد دلاتے ہیں تو کہیں کنگ فو پانڈا فرینچائز کی۔ ہر کردار کی ایک بیک اسٹوری ہونا بھی ایک بڑی بات ہے کیوں کہ عموماً پاکستان میں اینی میٹڈ فلموں میں کرداروں کو سطحی طور پر ہی لکھا جاتا ہے۔

فلم میں تمام ہی وائس اوورز آرٹسٹوں نے اپنی جاندار آواز سے شائقین کو محظوظ کیا۔ جس میں سرفہرست نام اللہ یار کے کردار کو آواز دینے والی انعم زیدی کا ہے۔

ان کی آواز میں وہ جذبات تھے جو لڑکپن میں ایک بچے کے ہوتے ہیں جب کہ انہوں نے تمام محاوروں کو بھی درست انداز میں پیش کیا جن کے بارے میں آگاہی اسکول جانے والے بچوں کو ہونی چاہیے۔

فلم میں سب سے زیادہ متاثر کن کام اداکارہ اقرا عزیز اور اظفر جعفری کا ہے جنہوں نے بالترتیب روبوٹ عائرہ اور چکور ہیرو کا کردار نبھایا۔ اقرا عزیز کی عائرہ ایک ایسی روبوٹ ہے جو اپنی دنیا میں بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور آزادی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کرتی ہے۔

فلم میں مرکزی کردار اللہ یار کے بعد اگر کسی کے ڈائیلاگ زیادہ ہیں تو وہ عائرہ کے ہیں، جو اپنی اینٹری کے وقت مزاحیہ موڈ میں ہوتی ہے لیکن بعد میں سنجیدہ ہوکر اپنے ساتھیوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے فائٹ بھی کرتی ہے۔

البتہ اظفر جعفری کے ہیرو کے مکالموں سے بچے زیادہ محظوظ ہوں گے ایک تو وہ کردار سے پہلے سے ہی واقف ہیں، دوسرا مصنف نے انہیں بڑے طریقے سے استعمال کیا۔

انہوں نے ہیرو سے وہ سوالات کرائے جن کا جواب بچوں کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔ جیسے کہ ونڈ مل کیا ہوتی ہے، ہر جانور کو زندہ رہنے کا حق کیوں ہے اور درخت کو کاٹنے کے نقصانات کیا ہیں، وغیرہ۔

ان سوالات کے جواب سن کر بچوں کے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انہیں کھل کر ہنسنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

فلم میں مرکزی ولن کا کردار اداکار و گلوکار علی ظفر نے بخوبی ادا کیا لیکن اس کردار کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ جو کررہا ہے وہ غلط ہے، جو اسے قابلِ قبول بھی بناتا ہے۔

دیگر اداکاروں میں بشریٰ انصاری اور ہمایوں سعید جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ کسی اینی میٹڈ فلم میں وائس اوور کیا۔

بشریٰ انصاری کے لیے تو یہ سب شاید نیا نہیں تھا کیوں کہ اس سے قبل وہ کلیاں جیسے پروگرام میں کٹھ پتلیوں کی آواز نکال چکی ہیں اور گانا بھی گاچکی ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے ایک لوری گا کر شائقین کو داد دینے پر مجبور کیا۔

ادھر ہمایوں سعید نے بھی وائس اوور کی دنیا میں قدم رکھ کر سب کو حیران کیا۔ جس کردار کے پیچھے ان کی آواز تھی وہ فلم کا ایک اہم کردار تھا جس کی وجہ سے اللہ یار کو اپنے والد اور دوستوں کو ڈھونڈنے میں مدد ملی۔

بعض افراد ہمایوں سعید کی بدلی ہوئی آواز سے ضرور پریشان ہوں گے لیکن ان کی آواز کردار پر فٹ بیٹھنا ہی ان کی کامیابی ہے۔

فلم میں بہتری کی گنجائش کیسے موجود ہے؟

شائقین میں موجود بچوں کو تو یہ فلم دیکھ کر تو مزہ آئے گا ہی لیکن جو بڑی عمر کے والدین ان کے ساتھ ہوں گے، انہیں کہیں کہیں روبوٹس کی دنیا میں شاید پاکستان کی جھلک نظر آئے۔ جس میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی خلیج، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی اور وسائل کا غلط استعمال نمایاں ہے۔

لیکن ان سب مسائل کی نشاندہی کے باوجود فلم میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ایک پاکستانی فلم جس کو دیکھ کر شائقین میں اردو زبان فروغ پاسکتی ہے اوربچوں کو جس کے ذریعے کئی نئے الفاظ سننے کو ملیں گے، اس کا نام انگریزی میں ہونا سمجھ سے باہر ہے۔

پچھلی فلم کا نام اس لیے انگریزی میں سمجھ آتا ہے کیوں کہ اس سے قبل بہت ہی کم اینی میٹڈ فلمیں پاکستان میں بنیں تھیں لیکن اگر اس فلم کا نام اردو میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔

اس فلم کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم یا کسی دوسرے ملک میں ریلیز کرتے وقت بے شک اس کا نام انگریزی میں رکھ دیا جاتا لیکن اردو میں نام نہ ہونا اس کے خلاف جا سکتا ہے کیوں کہ وہ لوگ جو اس فرینچائز سے واقف نہیں وہ اسے انگریزی فلم سمجھ کر نظر انداز کرسکتے ہیں۔

فلم میں ایکشن سین بڑی مہارت سے فلمائے گئے لیکن فائٹ میں کہیں کہیں آواز کا نہ ہونا عجیب لگ رہا تھا۔ خاص طور پر جب ہوا میں اڑنے والی گاڑی کا تعاقب پولیس کررہی ہوتی ہے۔

امکان ہے کہ پہلے دن کے پہلے شو کے بعد اس فنی خرابی کو درست کرلیا جائے گا۔

فلم کا بیک گراؤنڈ اور اس کی موسیقی بھی دیگر اینی میٹڈ فلموں سے بہتر ہے اور صنم ماروی کا گیت ‘میرے مالک’ گانے کو سن کر لگتا ہے جیسے اسے بچوں کے والدین کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کیا گیا ہے۔

البتہ بشری انصاری کی لوری ٹارگٹ مارکیٹ کے لیے ایک دم فٹ ہے کیوں کہ ایک تو یہ گیت بنا ہوا بھی اچھا ہے اور اسے گایا بھی بہت خوب گیا ہے۔ اگر کوئی گیت بچوں کی آواز میں بھی ہوتا تو اس سے فلم کو چار چاند لگ جاتے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor