کراچی —
پاکستان نے جہاں دنیائے کرکٹ کو عظیم کھلاڑی دیے وہیں چند کھلاڑی ایسے بھی آئے جن میں ٹیلنٹ تو بہت تھا، لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کھلاڑیوں میں کئی نے اپنے شروع کے میچز میں ریکارڈز بنائے جب کہ کچھ کو تو مستقبل کا کپتان بھی قرار دیا گیا۔ لیکن حالات و واقعات اور کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں نے ان کھلاڑیوں کے کیریئر کو بریک لگا دی۔
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں جتنی کامیاب کہانیاں ہیں، اتنی ہی بھولی ہوئی داستانیں۔ اور ان کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کا سلیکشن کا معیار ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کھلاڑیوں کو اپنا لوہا منوانے کے لیے مستقل مواقع ملتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
عتیق الرحمان کے بقول پاکستان میں کبھی کوئی کھلاڑی ایک سال بعد اور کبھی کوئی چھ سال بعد کم بیک کر رہا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا، بھارت اور سری لنکا جیسے ممالک کے پاس ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار سے زائد رنز اسکور کرنے والے متعدد کھلاڑی ہیں اور ہمارے پاس صرف ایک کرکٹر ہے۔
عتیق الرحمان کے بقول "پاکستان کرکٹ میں جتنی لمبی فہرست ہیروز کی ہے۔ اتنی ہی لمبی ان کھلاڑیوں کی ہے جن کو کم مواقع ملے۔ اگر آپ نام لکھنے بیٹھے تو ختم نہیں ہوں گے۔ ان میں زیادہ تروہ لوگ ہیں جن کے نام ریکارڈ بکس میں زندہ ہیں۔”
عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ تقریباً 250 کھلاڑیوں نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کیپ حاصل کی جن میں سے 20 سے 25 ایسے ہیں جنہیں ایک میچ کے بعد دوبارہ موقع ہی نہیں ملا۔ چالیس سے 45 ایسے کرکٹرز ہیں جنہوں نے صرف ایک سے پانچ ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ نوے کے لگ بھگ کرکٹرز وہ ہیں جو صرف 10 میچ کھیل سکے۔ اور اس کے بعد انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔
عتیق الرحمن کہتے ہیں کہ ان سوالوں کے جواب کرکٹ آفیشلز پر قرض ہیں کہ کیا ان کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کمی تھی؟ کیا انہیں سفارش کی بنیاد پر ٹیسٹ کیپ دی گئی تھی؟ کیا ان کی موجودگی سے دوسروں کو خطرہ تھا یا وہ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے موزوں نہیں تھے؟
ان کے بقول "پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ آگے جا کر کھلاڑی اچھی کارکردگی دکھائیں اور دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی 10 ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے کئی کھلاڑی ہوں، نہ کہ صرف ایک یونس خان۔”
عتیق الرحمان کی بات میں دم ہے یا نہیں۔ یہ تو آپ کو ان کھلاڑیوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہو گا جو آئے، چھائے لیکن کامیاب کہانی نہ بن سکے۔
بازید خان (مڈل آرڈر بیٹسمین)
آج کل کرکٹ حلقوں میں بازید خان کو ایک کمنٹیٹر کی حیثیت سے لوگ جانتے ہیں۔ لیکن اس صدی کے آغاز میں انہیں ایک ابھرتے ہوئے کرکٹ ستارے کے طور پر لوگ جانتے تھے۔
ان کے والد ماجد خان کا شمار دنیا کے بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے جب کہ دادا جہانگیر خان نے 1930 میں چار ٹیسٹ میچز میں متحدہ بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ ایسے میں بازید خان کا ٹیم میں آنے، باپ اور دادا کا نام روشن کرنے اور پاکستان کی کپتانی کرنے کا سب کو انتظار تھا۔
نوے کی دہائی میں انڈر 15 ورلڈ کپ میں انہیں دیکھ کر ماجد خان کی یاد آگئی اور یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ جلد ہی قومی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ 2005 میں ایک ٹیسٹ اور 2004 سے 2008 کے درمیان پانچ ون ڈے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد انہوں نے کمنٹری کو اپنا ہدف بنایا اور آج کرکٹ کمنٹری میں ان کا ایک الگ مقام ہے۔
فواد عالم (اوپنر)
ویسے تو فواد عالم کا شمار پاکستان کے اچھے مڈل آرڈر بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود انہیں ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا جس پر کرکٹ حلقے عرصۂ دراز سے سوال اُٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کے تینوں میچز بحیثیت اوپنر کھیلے اور پہلے ہی میچ میں سینچری اسکور کرکے ریکارڈ بکس میں اپنا نام درج کر دیا۔ نہ صرف وہ پہلی اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی کھلاڑی ہیں بلکہ ملک سے باہر ڈیبیو میں سینچری اسکور کرنے کا اعزاز بھی اُن کے پاس ہے۔
ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تو انہوں نے مڈل آرڈر میں بیٹنگ بھی کی اور ون ڈے میں 40 کی اوسط سے 966 رنز اسکور کیے۔ لیکن تین ٹیسٹ میں 41 کی اوسط سے 250 رنز بنانے کے باوجود گزشتہ 11 سال سے پانچ روزہ کرکٹ میں واپسی کے منتظر ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں کھیلے گئے میچز میں وہ اسکواڈ کا تو حصہ تھے لیکن فائنل الیون سے انہیں باہر ہی رکھا گیا۔
یاسر حمید (اوپنر)
پہلے ہی ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سینچری اسکور کرنے والے یاسر حمید بھی پاکستان کی نمائندگی صرف سات سال کر سکے۔ 2003 میں بنگلہ دیش کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں انہوں نے سو کا ہندسہ تو عبور کیا لیکن اس کے بعد اگلے 24 ٹیسٹ میں وہ صرف آٹھ نصف سینچریاں ہی اسکور کر سکے۔
اس کے باوجود بھی 32 کی اوسط سے تقریباً 1500 رنز بنانے والے یاسر حمید کو 2010 کے دورۂ انگلینڈ میں ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ ون ڈے میں بھی ان کی کارکردگی تسلی بخش تھی۔ انہوں نے 56 ون ڈے میچز میں 36 کی اوسط سے 2028 رنز اسکور کیے جن میں تین سینچریاں اور 12 نصف سینچریاں شامل تھیں۔
قومی ٹیم سے بے دخلی کی وجہ ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کا غیر ذمہ دارانہ انٹرویو بھی قرار دیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تینوں کھلاڑیوں کے حوالے سے گفتگو کی تھی جس کی وجہ سے بورڈ نے ان پر پابندی لگا دی تھی۔
محمد وسیم (مڈل آرڈر بیٹسمین)
صرف 19 سال کی عمر میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے محمد وسیم کے پاس وہ سب تھا جس کی ایک کرکٹر کو آرزو ہوتی ہے۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ انہوں نے پہلے ہی میچ میں سینچری اسکور کی۔ ون ڈے اور ٹیسٹ دونوں میں وہ ٹیم کی ضرورت تھے۔
اپنے خوبصورت اسٹروکس کی وجہ سے وہ مسلسل تین سال قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ نہ صرف آسٹریلیا میں تین ملکی سیریز کے دوران انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی بلکہ زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچ میں 192 رنز کی اننگز بھی کھیلی۔
کرکٹ ماہرین کے مطابق اس دبنگ بیٹسمین کا کیریئر مسلسل ناکامیوں کے علاوہ محمد یوسف اور یونس خان کی انٹری نے ختم کر دیا۔ آج کل محمد وسیم ٹی وی پر کمنٹری کے ساتھ ساتھ کوچنگ سے بھی وابستہ ہیں اور ان کا شمار ملک کے بہترین کوچز میں ہوتا ہے۔
فیصل اقبال (مڈل آرڈر بیٹسمین)
جاوید میانداد کا بھانجا ہونے کی جتنی سزا فیصل اقبال کو ملی، شاید ہی کسی اور بھانجے کو ملی ہو۔ ون ڈے کرکٹ میں اننگز کا آغاز کرتے ہوئے سینچری بنانا ہو یا عرفان پٹھان کی پہلے اوور میں ہیٹ ٹرک کے بعد قومی ٹیم کو سنبھالنا۔ فیصل اقبال نے اپنے مختصر کیریئر میں پاکستان کی جانب سے کئی یادگار اننگز کھیلیں۔
لیکن ان کے حصے میں نو سال میں 26 ٹیسٹ اور چھ سال میں صرف 18 ون ڈے میچز ہی آئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈومیسٹک کرکٹ میں تسلسل سے پرفارم کرنے والے بیٹسمین کا کہنا تھا کہ اگر ان سے مڈل آرڈر ہی میں بیٹنگ کرائی جاتی تو آج ان کے کریڈٹ پر بھی زیادہ میچز ہوتے۔
اُن کے بقول بیٹنگ آرڈر میں مسلسل تبدیلیاں اور اچھی کارکردگی کے باوجود بھی اگلے میچ میں ڈراپ کرنے سے کسی بھی کھلاڑی کا مورال ڈاؤن ہوسکتا ہے۔
فیصل اقبال کہتے ہیں کہ "میں نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ تو کھیلی لیکن زیادہ تر مجھے متبادل کھلاڑی کے طور پر کھلایا گیا۔ اچھے سے اچھے کھلاڑی کو اگر آپ بہترین کارکردگی کے بعد ڈراپ کریں گے تو اس کا وہی حال ہوگا جو میرا ہوا تھا۔”
فیصل کہتے ہیں کہ "اللہ کا شکر ہے میں نے اوپننگ کرتے ہوئے ون ڈے میں سنچری اسکور کی اور جب کسی سینئر کھلاڑی کی جگہ مجھے جب بھی شامل کیا تو میں نے اچھا پرفارم کیا۔ لیکن اس کی وجہ سے مجھے ہر پوزیشن کے لیے موزوں سمجھا گیا جو میرے کیریئر کے لیے غلط تھا۔”
فیصل اقبال نے گلہ کیا کہ اُن کے ہوتے ہوئے شعیب ملک، عمر اکمل، اظہر علی، اسد شفیق اور حارث سہیل کو ٹیم میں سیٹ کرا دیا گیا جبکہ اُنہیں باہر ہی بٹھایا گیا۔
اُن کے بقول "کئی بار تو ایسا ہوا کہ ون ڈے میں پرفارم کرنے والے کھلاڑی کو ٹیسٹ میچ میں موقع دے دیا گیا جب کہ میں اسکواڈ میں موجود ہوتا تھا۔ اور جب ون ڈے میں میں نے سینچری اسکور کی، تو زیادہ تر بیٹسمین مجھ سے ایسے خفا ہوگئے جیسے میں نے کوئی غلط کام کردیا ہو۔”
فیصل کے بقول 2010 میں اچھی کارکردگی کے باوجود اُنہیں مزید مواقع نہیں ملے جس کا اُنہیں گلہ ہے۔
حسن رضا (مڈل آرڈر بیٹسمین)
ویسے تو حسن رضا کو ان کی کم عمری کے ریکارڈ کی وجہ سے سب جانتے ہیں، لیکن ان کی وجۂ شہرت ان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی تھی۔
ٹیسٹ کرکٹ کے لیے موزوں تصور کیے جانے والے اس نوجوان کو پانچ روزہ کرکٹ میں صرف سات مواقع ملے جس میں اس نے ایک ہی میچ میں آسٹریلیا کے خلاف دونوں اننگز میں نصف سینچریاں اسکور کیں۔ 16 ون ڈے میچز میں حسن کی کارکردگی سلیکٹرز کو متاثر نہ کرسکی تو انہیں ٹیسٹ ٹیم سے بھی فارغ کردیا گیا۔ اس کے باوجود فرسٹ کلاس کرکٹ میں حسن رضا رنز کے انبار لگاتے رہے اور اب تک 36 سینچریاں بنا چکے ہیں۔
عاصم کمال (مڈل آرڈر بیٹسمین)
پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایک کھلاڑی ایسا بھی گزرا ہے جس نے 12 ٹیسٹ میچ میں آٹھ نصف سینچریاں اسکور کیں۔ اپنے کیریئر میں 38 کی اوسط سے 717 رنز بنانے والے عاصم کمال کو بدقسمت ہی کہا جاسکتا ہے۔
پہلے ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف 99، تیسرے اور چوتھے ٹیسٹ میں بھارت کے خلاف 73 اور ناقابلِ شکست 60، آسٹریلیا جا کر 87، بھارت کے خلاف 91 اور ویسٹ انڈیز میں ایک ہی میچ میں 55 اور 51 رنز کی اننگز کھیلنے والے کھلاڑی کو کیوں اور کس نے ڈراپ کیا؟ ان سوالوں کا جواب اگر اسی وقت ڈھونڈ لیا جاتا تو آج پاکستان کے پاس مڈل آرڈر میں ایک بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والا کھلاڑی ہوتا جو نہ جانے کتنی فتوحات میں اہم کردار ادا کرچکا ہوتا۔
یاسر عرفات (آل راؤنڈر)
جس انڈر 15 ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی، اسی ٹورنامنٹ میں یاسر عرفات نے اپنی آل راؤنڈ کارکردگی سے سب کو متاثر کیا۔
لیکن قومی ٹیم میں پہلے وسیم اکرم اور پھر اظہر محمود اور عبدالرزاق کی موجودگی کی وجہ سے انہیں ٹیسٹ ڈیبیو کے لیے ایک دہائی سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔
اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں انہوں نے بھارت کے خلاف نہ صرف پہلی اننگز میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا بلکہ 44 رنز کی اننگز بھی کھیلی۔ دوسرے ٹیسٹ میں نصف سینچری اسکور کرنے کے باوجود انہیں صرف تین ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔
بیٹنگ اور بالنگ دونوں شعبوں میں ماہر تصور کیا جانے والا یہ کھلاڑی دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتا تو نہ صرف ٹیم کا مستقل رکن ہوتا بلکہ ایک ورلڈ کلاس آل راؤنڈر بھی۔ لیکن پاکستان میں یاسر عرفات کے حصے میں صرف 11 ون ڈے اور 13 ٹی ٹوئنٹی میچز ہی آئے۔ 2012 میں آخری بار پاکستان کی نمائندگی کرنے والے یاسر عرفات نے انگلینڈ کا رخ کیا اور کاؤنٹی کرکٹ میں کئی ریکارڈز اور کامیابیاں اپنے نام کیں۔
عتیق الزمان (وکٹ کیپر)
پاکستان کرکٹ ٹیم میں وکٹ کیپرز کی بات کی جائے تو معین خان اور راشد لطیف کا نام سرِ فہرست ہے۔ دونوں کی میچ وننگ کارکردگی اور وکٹ کیپنگ سے کون واقف نہیں۔
ان دونوں کی موجودگی میں کسی تیسرے کا پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی نمائندگی کرنا بھی عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن عتیق الزماں نے نہ صرف ایسا کیا بلکہ ون ڈے کرکٹ میں بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔
اپنے واحد ٹیسٹ میچ میں پانچ کیچز اور 25 رنز اسکور کرنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین نے تین ون ڈے میں چار بلے بازوں کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرایا۔
آج کل عتیق الزمان انگلینڈ میں مقیم ہیں اور کوچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جتنے عرصے بھی پاکستان کی نمائندگی کی، اس سے وہ مطمئن ہیں۔
عتیق الزمان کا کہنا تھا کہ "ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ لمبے عرصے تک ملک کی نمائندگی کرے لیکن میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ میرا مقابلہ صرف معین خان اور راشد لطیف سے نہیں تھا، بلکہ ان تمام وکٹ کیپرز سے تھا جنہوں نے اس عرصے میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی جن میں جاوید قدیر، وسیم عارف، وسیم یوسفی، طاہر رشید وغیرہ شامل ہیں۔”
ان کے بقول انہیں اپنے مختصر کیریئر پر فخر ہے کہ انہوں نے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھائی جس کی وجہ سے لوگوں نے انہیں یاد رکھا ہوا ہے۔
ارشد خان (آف اسپنر)
نو ٹیسٹ میچز میں 32 وکٹیں اور 58 ون ڈے میچز میں 4 رنز فی اوور کے حساب سے 56 وکٹیں، اس کارکردگی کے بعد بھی آف اسپنر ٹیم کا مسلسل رکن نہ ہو تو کیا کرے؟
یہ اعداد و شمار آف اسپنر ارشد خان کے ہیں جنہوں نے مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کی موجودگی میں پاکستان ٹیم میں جگہ بنائی اور 1993 سے لے کر 2006 تک پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی۔
کئی ون ڈے میچز میں تو انہوں نے پاکستان کی جانب سے 15 اوور سے قبل بالنگ کی جس میں ایک میچ میں سری لنکا کے خلاف اننگز کا آغاز بھی کیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب آف اسپنرز کو مڈل اوورز تک محدود رکھا جاتا تھا کیوں کہ ٹاپ آرڈر میں سنتھ جے سوریا جیسے بلے باز ہوتے تھے۔
ارشد خان کے کیریئر کا اختتام متنازع انڈین کرکٹ لیگ میں شمولیت کی وجہ سے ہوا لیکن ان کی میچ وننگ بالنگ آج بھی سب کو یاد ہے۔
شاہد نذیر (فاسٹ بالر)
نوے کی دہائی میں جہاں وسیم اکرم اور وقار یونس کا راج تھا، ایک ایسا بالر بھی ٹیم میں آیا جس نے پہلے میچ میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے دوسرے بالرز کے لیے راستہ کھولا۔
پہلے ہی میچ میں اچھی بالنگ کا مظاہرہ کرنے والے شاہد نذیر پہلے محمد زاہد اور پھر شعیب اختر کی وجہ سے مستقل ٹیم کا رکن نہ بن سکے۔
پاکستان کے لیے شاہد نذیر نے یوں تو 11 سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی لیکن بہتر اور نوجوان فاسٹ بالرز کی مسلسل ٹیم میں آمد کی وجہ سے ان کا کیریئر 15 ٹیسٹ اور 17 ون ڈے میچز تک محدود رہا۔ انہوں نے 36 کھلاڑیوں کو ٹیسٹ اور 19 بلے بازوں کو ون ڈے میں آؤٹ کیا۔
تنویر احمد (فاسٹ بالر)
ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی گیند پر وکٹ حاصل کرنے والے انتخاب عالم کو تو سب جانتے ہیں، لیکن کیا آپ اس بالر کو جانتے ہیں جس نے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اپنے پہلے ہی اوور میں وکٹیں حاصل کیں؟ یہ کارنامہ فاسٹ بالر تنویر احمد نے سرانجام دیا تھا۔۔
فاسٹ بالر تنویر احمد نے تینوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی تو کی لیکن دو فارمیٹس میں پہلے اوور میں ہی وکٹ لینے والے وہ پہلے پاکستانی بالر ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی آؤٹنگ میں انہوں نے اننگز میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جب کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں 50 رنز اسکور کر کے پاکستان کو کامیابی بھی دلوائی۔
اور یہ سب کرنے کے لیے انہیں صرف پانچ ٹیسٹ، دو ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچ ملے۔ 2013 میں پاکستان کی آخری بار نمائندگی کرنے والے یہ فاسٹ بالر آج کل ٹی وی پر کرکٹ مبصر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
ذوالفقار بابر (لیفٹ آرم اسپنر)
34 سال کی عمر میں ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو کرنے والے ذوالفقار بابر نے ون ڈے کرکٹ کا آغاز 35 سال کی عمر میں کیا۔
اپنے پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 300 سے زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکے تھے۔ 15 ٹیسٹ میں 54 وکٹیں حاصل کرنے والے لیفٹ آرم اسپنر نے اپنی کارکردگی کی وجہ سے جس طرح انٹرنیشنل کرکٹ سے عبدالرحمان کو آؤٹ کیا تھا، اسی طرح یاسر شاہ نے ذوالفقار بابرکے کیریئر کو بریک لگا دیا۔
اچھی کارکردگی کے باوجود ذوالفقار بابر صرف تین سال تک پاکستان کی نمائندگی کرسکے اور 2016 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا گیا شارجہ ٹیسٹ انکے کیریئر کا آخری میچ ثابت ہوا۔
کبیر خان (فاسٹ بالر)
آج کل پاکستان کرکٹ ٹیم میں بیک وقت تین لیفٹ آرم پیسرز کھیل بھی رہے ہوتے ہیں اور میچز جتوا بھی رہے ہوتے ہیں۔ لیکن وسیم اکرم کے زمانے میں دوسری جانب یا تو عاقب جاوید ہوتے تھے، یا وقار یونس یا آخری دنوں میں شعیب اختر۔ ایسے میں کبیر خان کا پاکستان ٹیم میں کھیلنا اور مستقل جگہ بنانا بہت مشکل تھا۔
وسیم اکرم کی طرح وہ تیز تو نہ تھے لیکن بعض کرکٹ مبصرین کے خیال میں اُن کی بالنگ میں ورائٹی تھی۔
انہوں نے 1994 اور 2000 کے دوران چار ٹیسٹ اور 10 ون ڈے میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے کوچ رہے اور افغان کرکٹ ٹیم کو انٹرنیشنل اسٹیٹس دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
عبدالرقیب (مینیجر)
سابق آف اسپنر عبدالرقیب کو ان کی سادہ طبیعت اور بہترین مینجمنٹ اسکلز کی وجہ سے کرکٹ کمیونٹی رقیب سر کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے زمانے کے بہترین آف اسپنر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی پاکستان ٹیم کی انٹرنیشنل لیول پر نمائندگی نہیں کی۔ لیکن جب بھی انہیں کسی انٹرنیشنل ٹیم کا مینیجر بنا کر بھیجا گیا، انہوں نے اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ پاکستان کرکٹ کی اس بھولی بسری ٹیم کو ان سے بہتر کوئی مینیج نہیں کرسکتا۔