جائزے فلمیں

ارطغرل: پاکستانی فن کاروں کی روزی پر لات یا کارکردگی بہتر بنانے کا چیلنج؟

Written by Omair Alavi

ان دنوں پاکستان میں سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والا ترک ڈرامہ ‘غازی ارطغرل’ زیرِ بحث ہے۔ ڈرامہ جہاں عام ناظرین میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے وہیں اس نے پاکستان میں کئی فن کاروں کو بے چین کردیا ہے۔

کئی پاکستانی اداکاروں نے پی ٹی وی پر ‘غازی ارطغرل’ کے نشر ہونے کو مقامی اداکاروں، تیکنیکی ماہرین اور پاکستانی ڈراموں کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

سب سے پہلے اداکار و ہدایت کار شان شاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے ڈرامے سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

شان شاہد کا مؤقف تھا کہ حکومتِ پاکستان کا ‘غازی ارطغرل ‘جیسے بڑے بجٹ کے ترک ڈرامے کو سرکاری ٹی وی پر چلانا درست نہیں۔ اگر اتنا ہی پیسہ کسی پاکستانی ڈائریکٹر کو دیا جائے تو وہ پاکستانی ہیروز اور ان کی زندگی پر بھی ایسا ڈرامہ بنا سکتے ہیں۔

لیکن شان شاہد کی بات ‘غازی ارطغرل’ کی سحر میں جکڑے بہت سارے ناظرین کو اچھی نہیں لگی اور انہوں نے سوشل میڈیا پر سپر اسٹار شان کی فلموں کے پوسٹر، کلپس اور گانے تنقیدی پوسٹس کے ساتھ ٹوئٹر پر پوسٹ کرنا شروع کردیے تھے۔

شان شاہد کی بات سے لوگ اتفاق کریں یا نہیں، اداکار یاسر حسین ان کی بات سے کافی متفق ہیں۔ پہلے تھیٹر اور پھر فلم ‘کراچی سے لاہور’ سے شہرت پانے والے یاسر حسین کہتے ہیں کہ ‘غازی ارطغرل ‘کی آڑ میں پاکستانی فن کاروں کی روزی پر لات ماری جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غازی ارطغرل ایک بہت اچھا ڈرامہ ہے اور انہیں اس کے کانٹینٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

لیکن ان کے بقول جب عمران خان کی حکومت آئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم چھوٹی انڈسٹریز کو سپورٹ کریں گے جیسے چین نے کیا۔ باہر سے کچھ نہیں لائیں گے۔ سب کچھ پاکستان میں بنے گا۔ لیکن اس کے بعد پہلے ہمارے ڈراموں کے بجٹ 30 فی صد کم ہوئے۔ پھر کرونا کی وجہ سے 20 فی صد کٹوتی ہوئی اور اس سب کے بعد ترک ڈرامے کو سرکاری ٹی وی پر چلانا کہاں کی عقل مندی ہے؟

یاسر حسین کہتے ہیں کہ اگر یہ ترک ڈرامہ پی ٹی وی پر دو سال تک چلتا ہے تو اس عرصے کے دوران جو مقامی طور پر تیار کانٹینٹ پی ٹی وی پر چلنا تھا، اس کا کیا ہو گا؟ ان کے بقول پاکستان میں ویسے ہی ڈرامے نہیں بن رہے اور اس قسم کے فیصلوں سے انڈسٹری کو مزید نقصان ہوگا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

یاسر حسین کہتے ہیں ‘غازی ارطغرل’ کی ایک قسط ایک کروڑ میں بنتی ہے جب کہ پاکستان میں پورا سیریل دو کروڑ میں بنتا ہے۔ اس کے بعد بھی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستانی ایسے ڈرامے کیوں نہیں بناتے؟ ان کے بقول جتنی مالیت کے کپڑے ارطغرل پہنا ہوا ہے اتنا تو ہماری ایک قسط کا بجٹ ہے۔

یاسر حسین کہتے ہیں کہ ‘ارطغرل ‘کی کامیابی کے بعد اگر دیگر چینلز بھی ترک ڈرامے دکھانے لگے تو انڈسٹری کو ایک بار پھر انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر عشق ممنون، فاطمہ گل اور میرا سلطان چلنے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔

یاسر حسین کہتے ہیں کہ ‘غازی ارطغرل ‘ہمیں اسلامی اقدار سکھانے کے لیے دکھایا جارہا ہے لیکن جس طرح کی گالیاں انہیں سوشل میڈیا پر پڑ رہی ہیں، اس سے تو ایسا کہیں نہیں لگتا کہ ہم نے اس ڈرامے سے کچھ سیکھا ہے۔

پاکستان میں کچھ عرصہ قبل یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے عدالت سے رجوع کرنے کی وجہ سے حکام نے ملکی چینلز پر غیر ملکی کانٹینٹ کو صرف 10 فی صد تک محدود کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستانی ڈراموں نے ایک بار پھر شائقین کے دل جیتنا شروع کر دیے تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شان شاہد اور یاسر حسین کی باتوں سے کئی ساتھی اداکار بھی اتفاق کرتے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اداکار سید جبران کا بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی کانٹینٹ چلانے سے جہاں عوام کو مختلف قسم کا کام دیکھنے کو ملتا ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ان ڈراموں سے ہمارے ڈراموں پر فرق نہ پڑے۔ اسی لیے غیر ملکی ڈراموں کو ایک خاص وقت پر ایئر کرنا چاہیے نہ کہ پرائم ٹائم میں جیسا کہ ‘غازی ارطغرل’ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

سید جبران کہتے ہیں کہ فارن کانٹینٹ صرف اس طرح چلایا جائے جس سے ہماری انڈسٹری کو کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔

ان کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ بے شک ‘منی ہائیسٹ’ [نیٹ فلکس کا مشہور ڈرامہ] بھی ڈب کر کے چلالیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس طرح کے ڈرامے پرائم ٹائم میں دکھانا بے وقوفی ہوگی کیوں کہ جب چینل کو بنے بنائے ڈرامے مل رہے ہوں گے تو وہ اپنے ڈرامے کیوں بنائیں گے؟ اور اس سے ہماری انڈسٹری کا نقصان ہوگا۔

لیکن کئی اداکار اور شوبز ستارے ترک ڈرامے سے متعلق اس طرح کے تحفظات کا شکار نہیں۔

معروف اداکار اور پروڈیوسر ہمایوں سعید نے اپنی فلم ‘جوانی پھر نہیں آنی ٹو’ کا کچھ حصہ ترکی میں فلمایا تھا اور اداکار فرحان علی آغا نے ‘میرا سلطان’ جیسے مشہور ڈرامے میں صداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ دونوں غازی ارطغرل کو پاکستان میں نشر کرنے کے خلاف نہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ جب ترک ڈرامے سے متاثر ہو کر وہ صلاح الدین ایوبی ڈرامہ بنانے کا سوچ سکتے ہیں تو دیگر پروڈیوسرز کیوں ایسا نہیں کرتے؟

ان کے خیال میں غازی ارطغرل جیسے ڈراموں کا سرکاری ٹی وی پر چلنا اچھی بات ہے لیکن اس قسم کے تبادلے کو مستقل نہیں ہونا چاہیے۔

ہمایوں سعید کے بقول ایسی بڑی پروڈکشن جب پی ٹی وی پر چلے گی تو ہم جیسے لوگوں کو بھی ہمت ملے گی۔ اسلامی تاریخی کے کرداروں کے بارے میں اس طرح کے اسپیشل ڈرامے ہمیں ٹی وی پر دکھانے چاہئیں۔

ان کے بقول وہ پانچ چھ سال سے تاریخی ڈرامہ بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن ‘غازی ارطغرل’ دیکھ کر ہی اب وہ صلاح الدین ایوبی پر ڈرامہ بنانے بنانے کی ہمت کر رہے یں۔

معروف اداکار فرحان علی آغا کہتے ہیں کہ غازی ارطغرل جیسے ڈراموں سے نہ صرف ہمیں اسلامی تاریخ کے بارے میں سیکھنے کو ملتا ہے بلکہ ایک اداکار اپنے فن کے حوالے سے نئے پہلو بھی دریافت کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فرحان علی آغا کا کہنا تھا کہ یہ سیریل اپنے ملک کے لیے قربانی دینے کا درس دیتا ہے اور اس کو دیکھ کر اگر لوگ کچھ نیا سیکھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے کوئی بھی ذریعہ ہو، اچھا ہوتا ہے۔

ان کے بقول انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ لوگ اس ڈرامے کے خلاف بات کیوں کر رہے ہیں؟

فرحان علی آغا کہتے ہیں دیگر چینلز تو آج بھی ترک ڈرامے چلا رہے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ ڈرامہ روایتی ڈراموں سے ذرا ہٹ کر ہے اس لیے اس پر تنقید ہو رہی ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اداکار احسن خان کا کہنا ہے کہ غازی ارطغرل ڈرامے سے ہمیں خوفزدہ ہونے کے بجائے سیکھنا چاہیے۔

ان کے بقول ہمارے بچپن میں ‘پی ٹی وی’ پر ہمیشہ سے غیر ملکی کانٹینٹ چلا ہے جیسے ‘چپس’ ہو، ‘نائیٹ رائیڈر’ ہو یا ‘سیسمی اسٹریٹ۔’

"مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صبح اسکول جانے سے پہلے مستنصر حسین تارڑ صبح کی نشریات میں ایک پانچ منٹ کا کارٹون دکھایا کرتے تھے۔ ہم یہی سب دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں غازی ارطغرل کا سرکاری ٹی وی پر چلنا کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے ہمیں سیکھنے کا موقع ملے گا اور ہمارے بچوں میں اسلامی تاریخ کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوگا۔”

احسن خان کہتے ہیں کہ اگر ہم برطانیہ اور امریکہ کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں تو سلطنتِ عثمانیہ کی کیوں نہیں؟

ان کے بقول اس ڈرامے سے ہمیں نقصان اس وقت ہوتا جب ہم اور ترکی والے ایک جیسے ڈرامے بنا رہے ہوتے۔ "لیکن ان کے اور ہمارے ڈراموں میں کوئی چیز مشترک نہیں، اور یہی ہمارا پلس پوائنٹ ہے۔ وہ ہماری طرح کے ڈرامے نہیں بناسکتے اور ہم ان کی طرح کے نہیں بن اسکتے۔ لیکن تحمل سے بیٹھ کر ان کے ڈراموں سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔”

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔