سرمد سلطان کھوسٹ
کراچی —
اداکار و ہدایت کار سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ جوائے لینڈ کی کان فلم فیسٹویل میں نمائش اور جیوری ایوارڈ جیتنے سے پاکستانی سنیما کو بہت فائدہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ بطور پروڈیوسر ان کے لیے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں کہ ان کی فلم کو ملک سے باہر پسند کیا گیا۔
اپنی دیگر فلموں ‘زندگی تماشا’ اور ‘کملی’ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ وہ ‘زندگی تماشا’ کی ریلیز کے لیے پراُمید ہیں جب کہ کملی’ کو وہ نئے زمانے کی پاکستانی فلم سمجھتے ہیں۔
اداکار و ہدایت کار سرمد کھوسٹ گزشتہ دو دہائیوں سے شوبز سے وابستہ ہیں،نہ صرف ان کا شمار ٹی وی کے تجربہ کار ہدایت کاروں میں ہوتا ہے بلکہ ایک دہائی قبل مقبول ہونے والے ڈرامے ‘ہم سفر’ کی ہدایت کاری بھی انہوں نے دی تھی۔
حال ہی میں کان فلم فیسٹیول میں ‘جوائے لینڈ’ نامی جو پاکستانی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی، سرمد کھوسٹ اس کے شریک پروڈیوسر تھے۔ یہ فلم ‘کھوسٹ فلمز’ کے بینر تلے کان میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جہاں اس سے قبل کوئی پاکستانی فیچرفلم نہیں دکھائی گئی تھی۔
کان میں جانا اور وہاں بحیثیت کو پروڈیوسر فلم کی نمائش کا حصہ بننا اور جیوری ایوارڈ جیتنے پر سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ وہ ان جذبات کو بیان نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جوائے لینڈ’ کی وجہ سے پاکستانی سنیما اور پاکستانی فلم میکرز کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ کھلے گی اور نئے فلم سازوں کو حوصلہ ملے گا کہ ان کا کام ملک سے باہر پسند کیا جاسکتا ہے۔
‘جوائے لینڈ’ کو او ٹی ٹی کے بجائے سنیما میں ریلیز کرنے کی کوشش کریں گے’
جوائے لینڈ’ سے جڑنے پر سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ فلم کے ہدایت کار صائم صادق سے ان کی بہت پرانی دوستی ہے۔ کولمبیا یونی ورسٹی جانے سے پہلے صائم صادق ٹی وی ڈرامے ‘مور محل’ میں ان کے معاون ہدایت کار تھے جب کہ ‘زندگی تماشا ‘میں بھی وہ سین جس میں سرمد خود اسکرین پر ہیں، وہ بھی صائم ہی نے ڈائریکٹ کیے تھے۔
‘صائم کی شارٹ فلم ‘ڈارلنگ ‘ جسے تین سال قبل وینس فلم فیسٹیول میں ایوارڈ ملا تھا، کھوسٹ فلمز اس کا بھی حصہ تھی۔
سرمد کھوسٹ کے بقول "جب وہ (صائم صادق)’جوائے لینڈ ‘ بنا رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ مجھے اس کا حصہ بننا ہے۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے پروڈکشن کا ذکر چھیڑا تو میں نے ہامی بھر لی اور اب مجھے خوشی ہے کہ اس فلم نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ۔’
ان کا کہنا تھا کہ” ساری محنت صائم صادق کی ہے، ان کا کردار صرف سپورٹنگ ہے۔ فلم کو ‘کان فلم فیسٹویل’ میں بھیجنے کی بات کو انہوں نے آغاز میں اس لیے خفیہ رکھا کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ ‘زندگی تماشا’ کی طرح کہیں وہ بھی مستردنہ ہوجائے، لیکن شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔’
سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ ‘پوری دنیا کا ایک ایسی فلم کو دیکھنا جو ہماری کہانی، ہماری زبان میں ہو فخر کی بات ہے۔ پاکستانی سنیما کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کے لیے بھی وہ ایک بڑا دن تھا جب فلم کو جیوری ایوارڈ ملا۔ ہماری فرانس میں ایک مقامی ڈسٹری بیوٹر سے بھی بات ہوگئی ہے جو وہاں اسے ریلیز کرے گا ، جس کے بعد ہم اسے دیگر ممالک میں لے جائیں گے۔’
سرمد کھوسٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘جوائے لینڈ’ کو کسی بھی اسٹریمنگ پلیٹ فارم پر ڈالنے سے پہلے ان کی کوشش ہو گی کہ وہ سنیما میں ریلیز کریں، کیونکہ فلم کو بڑی اسکرین پر دیکھنے کا تجربہ ہی الگ ہوتا ہے۔او ٹی ٹی پلیٹ فارم آخری آپشن ہونا چاہیے۔
”کملی ‘ایک رومانوی فلم ہے، جس کا اندازِ بیاں مختلف ہے’
جب سرمد کھوسٹ سے پوچھا گیا کہ انہیں ایک ایسے ملک میں جہاں یا تو گنڈاسا چلتا ہے یا پھر رومانس ، ‘کملی ‘ جیسی الگ فلم بنانے کا خیال کیسے آیا ۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریلر سے ظاہر نہیں ہوتا لیکن ‘کملی ‘بھی ایک رومانوی فلم ہے جس کا اندازِ بیاں دوسروں سے ہٹ کر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم ان لوگوں کو پسند آئے گی جو نئی صد ی کا پاکستانی سنیما دیکھنا چاہتے ہیں اور جو پرانے سنیما سے بور ہوچکے ہیں۔ ان کے خیال میں ‘کملی’ وہ فلم نہ ہو جس کی انہیں تلاش ہے ، لیکن یہ اس جانب ایک کوشش ہے۔
اپنی آخری فلم ‘منٹو’ کو یاد کرتے ہوئے سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ جو آزادی انہیں بابر جاوید اور آصف رضا میر نے اس پراجیکٹ پر دی تھی، وہ ہر کسی کو نہیں ملتی۔
”زندگی تماشا’ کے سلسلے میں نیٹ فلکس، پرائم ویڈیو کے رویے سے سخت مایوسی ہوئی’
سرمد کھوسٹ کی بطور ہدایت کار ایک اور فلم ‘زندگی تماشا ‘ اپنے موضوع کی وجہ سے ریلیز نہیں ہوسکی۔ فلم کی کہانی ایک نعت خواں کے گرد گھومتی ہے جس کی ایک ویڈیو وائرل ہوجانے کے بعد لوگ اس کا بائی کاٹ کردیتے ہیں۔
لیکن سرمد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 2020 میں بھی سنسر سرٹیفکیٹ تھا اور آج بھی ہے، وہ اس فلم کی کہانی سنانا چاہتے ہیں تاکہ دیگر آزاد فلم میکرز اس سے سبق حاصل کرسکیں۔ انہوں نے پاکستان میں موجود انٹرنیشنل اسٹریمنگ سروسز کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزاد فلم میکرز کے لیے مایوس کن قرار دیا۔
اُن کے بقول ‘جب ‘زندگی تماشا’ کی ریلیز سنیما میں رکی تو ہم نے نیٹ فلکس اور پرائم ویڈیو کو یہ فلم ہر طرح سے پچ کرکے دیکھی، لیکن ایک مرتبہ بھی حوصلہ افزا ء جواب نہیں آیا۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ اس فلم کو او ٹی ٹی پر کیوں ریلیز نہیں کرتے، تو میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ نیٹ فلکس میرے انتظار میں تھوڑی بیٹھا ہوا ہے کہ’ زندگی تماشا’ ہمیں دے دو۔’
‘لوگ جب ‘ہم سفر’ کو بہترین ڈرامہ کہتے ہیں تو اچھا لگتا ہے’
سرمد کھوسٹ نے ٹی وی پر اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری میں بھی نام کمایا، لیکن اب وہ ٹی وی پر زیادہ تر بطور اداکار ہی نظر آتے ہیں اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ طویل دورانیے کے ٹی وی سیریل سے دور بھاگتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں نے ٹی وی پر ہدایت کاری نہیں چھوڑی بلکہ 40 اقساط والے ڈرامے چھوڑے ہیں، جب میں بناتے ہوئے بور ہوسکتا ہوں تو دیکھنے والے تو یقینًا بور ہوں گے۔’مور محل ‘کی شکل میں یہ تجربہ کرکے دیکھا تھا لیکن وہ چل نہیں سکا۔ ٹی وی پر اداکاری کرتا رہوں گا، بس مجھے میری اسکرین ایج کے مطابق رول ملنا چاہیے۔’
ان کا کہنا تھا کہ جب لوگ 2011 میں نشر ہونے والے ‘ہم سفر’ کی ان سے بات کرتے ہیں تو انہیں اچھا لگتا ہے، اس وقت بھی لوگ انہیں نیا ہی ہدایت کار سمجھتے تھے جب کہ انہیں فیلڈ میں دس بارہ سال ہوگئے تھے ۔اس ڈرامے کی کامیابی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
‘والد عرفان کھوسٹ کے شوبز میں ہونے سے فائدہ تو ہوا، لیکن ذمہ داری بھی زیادہ بڑھ گئی’
سرمد کھوسٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں زیادہ تر لوگوں کے ساتھ کام کرکے مزہ آتا ہے اس لیے ان کو دوبارہ کاسٹ کرتے ہیں، ایسے لوگوں میں نادیہ افگن، نعمان اعجاز، ثانیہ سعید، نمرہ بچہ، ماہرہ خان اور فواد خان شامل ہیں۔
انہوں نے اقرا عزیز کو ایک ایسی اداکار قرار دیا جس کے ساتھ انہیں کام کرنے کی آرزو ہے، وہ پرامید ہیں کہ جلد اقراعزیز کو اس کردار میں کاسٹ کرلیں گے جو ان کے ذہن میں ہے۔
ان کے مطابق کریئر کے آغاز میں انہیں والد عرفان کھوسٹ کے شوبز میں ہونے کی وجہ سے فائدہ تو ہوا، لیکن اس سے ان کے اوپر ذمہ داری بھی بڑھ گئی۔