شوبز

’ملکہ ترنم کہتی تھیں کہ یا تو میں ماں بن سکتی ہوں یا نور جہاں‘

Written by ceditor

کراچی میں 15ویں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں جہاں مصنف اور شعرا کی محفلیں سجیں. وہیں ملکہ ترنم کہلانے والی نورجہاں کی یاد میں ایک سیشن بھی منعقد ہوا جس میں انہیں قریب سے دیکھنے والوں نے یادیں تازہ کیں۔ – کراچی

اس سیشن کی نظامت کے فرائض انجام دیے ملکہ ترنم کے نواسے اور معروف گلوکار و اداکار احمد علی بٹ نے جب کہ ان کی صاحب زادی مصورہ نازیہ اعجاز خان، پوتی اداکارہ سونیا جہاں اور موسیقار ارشد محمود بھی اس کا حصہ تھے۔

احمد علی بٹ نے اس سیشن کے دوران انکشاف کیا کہ ان کی نانی نے ان کی کامیابی کی پیش گوئی ان کے بچپن میں ہی کر دی تھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ وجہ بھی بتائی تھی کہ وہ کامیاب اس لیے ہوں گے کیوں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بے شرم ہیں۔

اسی طرح ارشد محمود نے بھی ان ریکارڈنگ سیشن کا احوال بتایا جس میں وہ میڈم نورجہاں کے ساتھ ہوتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈم کا اپنے کام سے مخلص ہونا ان کی سب بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے لوگ ان کی وفات کے اتنے برس بعد انہیں یاد کر رہے ہیں۔

نور جہاں کی بیٹی نازیہ اعجاز نے بھی اس موقع پر اپنی والدہ کے حوالے سے کئی باتیں بتائیں جب کہ ‘مائی نیم از خان’، ‘دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ’ اور ‘ہو من جہاں’ جیسی ہٹ فلموں میں کام کرنے والی سونیا جہاں نے بتایا کہ اداکاری کا شوق انہیں اپنی دادی کو دیکھ کر ہوا۔

فیض جیل سے رہائی کے بعد نور جہاں کے پاس کیوں آئے؟

‘نور جہاں، سرور جہاں’ کے نام سے منعقد سیشن کے دوران ملکہ ترنم کی بیٹی نازیہ اعجاز نے بتایا کہ فلم ‘قیدی’ میں استعمال ہونے والا گیت ‘مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’ میڈم نور جہاں کو بہت پسند تھا اور فلم میں استعمال ہونے سے پہلے ہی انہوں نے اسے گایا تھا۔

جب مارشل لا کے دور میں فیض احمد فیض نظر بند تھے تو نور جہاں کو ایک ریڈیو پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ وہ یہ نظم نہیں گائیں گی جس کے جواب میں انہوں نے پروگرام میں شرکت سے ہی انکار کر دیا تھا۔

ان کی بیٹی کا مزید کہنا تھا کہ نورجہاں نے شرط رکھی تھی کہ اگر وہ پروگرام کا حصہ بنیں گی تو اس نظم سے ہی آغاز کریں گی ورنہ نہیں کریں گے جس کے بعد انہیں اس نظم کی اجازت مل گئی تھی۔

ان کے بقول فیض احمد فیض نے یہ گانا جیل میں بیٹھ کر سنا تھا۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو اپنے گھر جانے سے پہلے نورجہاں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے آئے۔

نورجہاں کی بیٹی نازیہ اعجاز نے بتایا کہ فلم ‘قیدی’ میں استعمال ہونے والا گیت ‘مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’ میڈم نورجہاں کو بہت پسند تھا۔

نور جہاں کے ساتھ کام کرنے والے موسیقار و اداکار ارشد محمود نے بھی اس موقع پر بتایا کہ ان کی میڈم سے پہلی ملاقات فیض احمد فیض کے گھر پر ہی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈم نور جہاں کو پہلی بار دیکھ کر وہ اتنا مرعوب ہوئے کہ ان کی سانس ہی رک گئی تھی۔

‘جو کام سے ایمان داری نہیں کر سکتے، وہ کسی کے ساتھ ایمان دار نہیں ہو سکتے۔’

اس سیشن کے لیے نور جہاں کی پوتی اداکارہ سونیا جہاں بھارت سے خصوصی طور پر پاکستان آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھلے میڈم کو ملکہ ترنم سمجھتی ہو لیکن اپنے بچوں کی اولادوں کے لیے وہ ایک مزیدار بزرگ تھیں جو کچن میں کام بھی کرتی تھیں اور بچوں کا خیال بھی رکھتی تھیں۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اداکاری سے پہلے انہوں نے دادی کے اصرار پر موسیقی سیکھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اچھی طالبہ نہیں تھیں اس لیے اس شعبے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

بالی وڈ فلم تاج محل سے ڈیبیو کرنے والی اداکارہ نے مزید بتایا کہ جب ان کی دادی اپنے استاد کے ساتھ ریاض کر رہی ہوتی تھیں تو معلوم ہوتا تھا کہ جیسے دنگل ہو رہا ہے۔

نور جہاں کی پروفیشنل ازم پر بات کرتے ہوئے ارشد محمود کا کہنا تھا کہ میڈم کسی بھی شخص کو دیکھ کر جانچ لیتی تھیں کہ وہ ٹھیک آدمی ہے یا نہیں۔

ارشدمحمود کے مطابق ان کی میڈم نور جہاں سے پہلی ملاقات فیض احمد فیض کے گھر پر ہی ہوئی تھی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے کام کے معاملے میں وہ سب سے بڑی نقاد بھی خود ہی تھیں۔

ان کے بقول ایک مرتبہ وہ اپنے ہی کام سے خوش نہیں تھیں اور اگلے دن اپنی مرضی کی ریکارڈنگ کرکے ہی مطمئن ہوئیں۔

ان کے بقول ترنم سیریز کا کنٹریکٹ ایک بڑی کمپنی کے پاس تھا جس کے کراچی آفس میں وہ نوکری کرتے تھے۔ لیکن جب میڈم کو ان کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ ان کے باس کو فون کرکے کہہ دیتی تھیں کہ ارشد کو بھیجو تاکہ اجازت لینے میں وقت ضائع نہ ہو۔

’نورجہاں ایک شفیق ماں، جنہیں اپنے کام سے عشق تھا‘

اس سیشن کے آغاز اور اختتام پر نورجہاں کے مقبول گیت اسکرین پر پیش کیے گئے۔ لیکن ان کی زندگی کا وہ پہلو جس سے باہر والے ناواقف تھے اس پر ان کی بیٹی نازیہ اعجاز نے بات کی۔

نورجہاں کی پوتی اداکارہ سونیا جہاں کا کہنا تھا کہ دنیا بھلے میڈم کو ملکہ ترنم سمجھتی ہو لیکن اپنے بچوں کی اولادوں کے لیے وہ ایک مزیدار بزرگ تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے آج سے 50 سال قبل ایک ‘سنگل مدر ‘ہوکر چھ بچوں کو پالا جس کے بارے میں سوچ کر یقین نہیں آتا۔

ان کے بقول میڈم نے جس محبت اور شفقت سے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اسی کی وجہ سے وہ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملکہ ترنم کو موسیقی سے عشق تھا اور وہ یہی کہتی تھیں کہ یا تو میں ماں بن سکتی ہوں یا نورجہاں۔ لیکن اس کے باوجود وہ دونوں شعبوں میں کامیاب رہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی والدہ ساتھی گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن اور معروف فنکار مختار بیگم سے بہت متاثر تھیں۔ ان کے جیسا دکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔

یہاں 1965 کی جنگ میں بننے والے ترانوں پر بات کرتے ہوئے ارشد محمود نے بتایا کہ نہ صرف میڈم نے یہ تمام ترانے بلامعاوضہ گائے بلکہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جیسے نامور شعراء سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے لکھوائے بھی۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor