پاکستانی کیوسٹ نے ہفتے کو انٹرنیشنل بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن(آئی بی ایس ایف) ورلڈ اسنوکر چیمپئن بن کر پاکستان کو چوتھی مرتبہ یہ اعزاز دلایا ہے۔
کراچی —
کم عمر ترین عالمی اسنوکر چیمپئن بننے والے پاکستانی کیوسٹ احسن رمضان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ پہلا ٹائٹل ہے اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ عالمی چیمپئن بن جائیں گے۔
دوحہ سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے 16 سالہ احسن رمضان نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی اسنوکر کا شوق تھا اور والد کی حوصلہ افزائی کے بعد انہوں نے اس کھیل کو سنجیدہ لینا شروع کیا۔
ان کے بقول "آغاز میں میرے والد نے مجھے باہر جاکر اسنوکر کھیلنے سے منع کیا لیکن جب انہیں لگا کہ میں رک نہیں رہا تو انہوں نے میری کافی حوصلہ افزائی کی۔ "
احسن رمضان کا کہنا تھا کہ جب دو برس انتظار کرنے کے بعد ان کا نام انٹرنیشنل ایونٹ میں آیا تو انہیں بہت خوشی ہوئی، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ اس ایونٹ کی ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
پاکستانی کیوسٹ نے ہفتے کو انٹرنیشنل بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن(آئی بی ایس ایف) ورلڈ اسنوکر چیمپئن بن کر پاکستان کو چوتھی مرتبہ یہ اعزاز دلایا ہے، صرف 16 برس کی عمر میں یہ ٹائٹل جیتنے والے احسن رمضان اس فتح کے ساتھ ہی پاکستان کے کم عمر ترین عالمی چیمپئن بن گئے ہیں۔
انہوں نے دوحہ میں کھیلی گئی آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں ایران کے عامر سرکوش کو چھ پانچ سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی۔
اس سے قبل سن 1994 میں پاکستان کے محمد یوسف اور 2012 اور 2019 میں محمد آصف عالمی آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر ٹائٹل جیت چکے ہیں۔ تاہم عالمی وبا کرونا کی وجہ سے دو برس بعد منعقد ہونے والے اس ایونٹ کے سیمی فائنل میں احسن رمضان نے دفاعی چیمپئن محمد آصف ہی کو پانچ چار سے ہرا کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔
احسن رمضان پاکستان میں اسنوکر کھیلنے اور اس کو فالو کرنے والوں کے لیے نیا نام نہیں ہیں۔ انہوں نے عالمی مقابلوں میں تو پاکستان کی زیادہ نمائندگی نہیں کی ہے لیکن وہ انڈر ایج سرکٹ میں کئی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں، جن میں انڈر 16، 17 اور انڈر 18 چیمپئن شپ شامل ہیں۔
گزشتہ برس قومی اسنوکر چیمپئن شپ میں ان کی کارکردگی شاندار رہی تھی جہاں انہوں نے فائنل میں جگہ بنائی تھی اور تجربہ کار محمد سجاد سے سات چھ کی شکست کے بعد رنر اپ ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
احسن رمضان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے جب سن 2017 میں پنجاب کپ کھیل کر جونیئر نیشنل اسنوکر چیمپئن شپ کے لیے کوالی فائی کیا تھا تو ان کے والد کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ وہ اس ایونٹ کے کوارٹر فائنل تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے تھے لیکن اس کے بعد والد کے انتقال کی وجہ سے وہ آئندہ برس صرف ایک ہی ٹورنامنٹ کھیل سکے۔
انہوں نے کہا کہ سن 2019 میں نیشنل اسنوکر چیمپئن شپ کے دو سیمی فائنل کھیلنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ اگر وہ محنت کریں گے تو قومی سطح پر چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بعد ازاں انہوں نے 2020 میں انڈر 19 اور انڈر 18 جونیئر چیمپئن شپ جب کہ 2021 میں انڈر 17 جونیئر چیمپئن شپ اپنے نام کی۔
پاکستانی کیوسٹ کے بقول "سن 2021 میں انڈر 21 جونیئر چمپئن شپ کا فائنل کھیلنے سے میرے اعتماد میں اضافہ ہوا اور اسی سال نیشنل اسنوکر چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنا اور سجاد بھائی سے شکست نے میری ہمت بڑھائی۔ اس رنر اپ پوزیشن کی وجہ سے ہی میں نے ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ کے لیے کوالی فائی کیا۔”
‘جب انٹرنیشنل ایونٹ میں نام آیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا’
احسن رمضان کے مطابق دو برس سے کرونا کی وجہ سے کوئی انٹرنیشنل اسنوکرایونٹ نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے انہیں کافی مایوسی ہوئی لیکن جب ان کا نام انٹرنیشنل ایونٹ میں آیا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
پورے ایونٹ میں شاندار کارکردگی دکھانے والے احسن رمضان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے ہم وطن اور دفاعی چیمپئن محمدآصف کو سیمی فائنل میں شکست دی تو انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ فائنل بھی جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ان کے بقول” میرے لیے سیمی فائنل بہت اہم میچ تھا کیوں کہ میرا مقابلہ دو مرتبہ کے عالمی چیمپئن محمد آصف سے تھا، مجھے یقین تھا کہ اگر میں دفاعی چیمپئن کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاؤں گا تو پھر فائنل میں بھی فتح سمیٹ سکوں گا اور ایسا ہی ہوا ۔”
احسن رمضان کا کہنا ہے کہ میچ جیتنے کے بعد انہیں بے انتہا خوشی ہوئی اور اس کے بعد فائنل میں جب وہ مشکل میں آئے تب بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور فائیو تھری سے کم بیک کرکے ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔
پیر کو دوحہ میں ہی جاری 37ویں ایشین اسنوکر چیمپئن شپ کے پری کوارٹر فائنل میں احسن رمضان بھارت کے اشپریت سنگھ چڈھا سے شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوگئے تھے۔
انہیں اس ناک آؤٹ میچ میں دو کے مقابلے میں پانچ فریمز سے شکست تو ہوئی لیکن پھر بھی وہ اپنے پہلے غیر ملکی دورے سے بطور ورلڈ چیمپئن وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
وہ پُرامید ہیں کہ اگر اسنوکر کو حکومت کی سرپرستی اور اسپانسرز کی رہنمائی حاصل ہوگئی تو وہ مزید کامیابیاں سمیٹنے کی کوشش کریں گے ۔