کراچی —
اسپاٹ فکسنگ کی وجہ سے ڈھائی سال کرکٹ سے دور رہنے والے پاکستانی کرکٹر شرجیل خان کی پاکستان سپر لیگ میں شان دار کارکردگی کے بعد حال ہی میں قومی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔ لیکن ابھی انہیں 11 رکنی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے مزید مراحل سے گزرنا ہے۔
ٹیم مینجمنٹ نے دورۂ جنوبی افریقہ کے لیے شرجیل خان کو ٹی ٹوئنٹی سیریز کے اسکواڈ میں منتخب تو کر لیا ہے لیکن فائنل الیون میں ان کی شرکت فٹنس سے مشروط کر دی گئی ہے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف 10 اپریل سے شروع ہونے والی محدود اوورز کی سیریز سے قبل انہیں وزن گھٹا کر فٹ ہونے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔
شرجیل خان وہ پہلے کرکٹر نہیں جو پابندی کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ رہے ہیں اس سے پہلے بھی کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں جب کھلاڑی کھیل میں بدعنوانی یا دیگر وجوہات کی بنا پر سزا پانے کے بعد ٹیم میں واپس آتے رہے ہیں۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا شرجیل خان، ویسٹ انڈین کرکٹر مارلن سیمیولز اور جنوبی افریقہ کے جارح مزاج بلے باز ہرشل گبز کی طرح کامیاب واپسی کرتے ہیں، یا پھر ان کا کریئر ہم وطن محمد عامر کی طرح مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔
آئیے مختلف وجوہات کی بنا پر سزائیں بھگتنے کے بعد ٹیم میں واپس آ کر شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
ہرشل گبز (جنوبی افریقہ)
جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی شان دار فیلڈنگ اور ورلڈ کپ 2007 میں نیدرلینڈز کے لیگ اسپنر ڈان وان بنگی کے خلاف ان کے لگاتار چھ چھکے نظر کے سامنے آ جاتے ہیں۔
لیکن اس بہترین بلے باز اور فیلڈر کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب ان کے کریئر کو بریک لگنے کا خدشہ تھا۔
گبز پر یہ الزام تھا کہ کپتان ہنسی کرونئے نے ہرشل گبز کو ایک میچ میں ’20 رنز سے کم اسکور’ کرنے کے لیے 15 ہزار ڈالرز کی پیش کش کی جسے نوجوان کھلاڑی نے ٹھکراتے ہوئے میچ میں 74 رنز بنائے۔ لیکن اس بابت انہوں نے کسی کو آگاہ نہیں کیا۔
اس بنیاد پر وہ چھ ماہ تک کرکٹ سے دُور رہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ کر ہرشل گبز نے سارا غصہ بالرز پر نکالنا شروع کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ ٹیسٹ کرکٹ میں 14 اور ون ڈے کرکٹ میں 21 سینچریاں اسکور کرنے والے کھلاڑی نے ٹیم کی کئی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
سن 2006 میں آسٹریلیا کےخلاف ایک ون ڈے میچ میں تو انہوں نے صرف 111 گیندوں پر 175 رنز اسکور کرکے نہ صرف 435 رنز کا ہدف حاصل کرنے مین ٹیم کی مدد کی۔ بلکہ ٹیم کو سیریز جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج کل وہ کراچی کنگز سمیت لیگ کرکٹ کی کئی ٹیموں کی کوچنگ کر رہے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے بہترین کوچز میں ہوتا ہے۔
مارلن سیمیولز (ویسٹ انڈیز)
ابھرتے ہوئے ویسٹ انڈین آل راؤنڈر مارلن سیمیولز کے کریئر میں ایک تکلیف دہ موڑ تب آیا جب ان پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے دو سال کی پابندی عائد کی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سٹے باز کو میچ کے حوالے سے معلومات فراہم کی تھیں۔
دو سال بعد مارلن سیمیولز نے جب کم بیک کیا تو ان کی عمر 30 سال تھی۔ لیکن انہوں نے کھوئے ہوئے وقت کا ازالہ کرنے میں دیر نہیں کی۔ سری لنکا کے خلاف ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012 کے فائنل میں انہوں نے 56 گیندوں پر 78 رنز بنا کر ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
ایونٹ کے فائنل میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ ہو یا پھر ‘ٹیم آف دی ٹورنامنٹ’ میں جگہ بنانا، مارلن سیمیولز نے خود پر لگے داغ کو دھونے کی بھرپور کوشش کی۔ چار سال بعد بھی جب ویسٹ انڈین ٹیم ایونٹ کے فائنل میں پہنچی تو مارلن سیمیولز کے 66 گیندوں پر ناقابلِ شکست 85 رنز نے ان کی ٹیم کو دوسری بار چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اسی سال انہیں ویسٹ انڈین کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ بڑھتی عمر اور بالنگ ایکشن پر اعتراض کے پیشِ نظر انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ امکان ہے کہ وہ جلد ہی ویسٹ انڈین کرکٹ سیٹ اپ میں کسی اہم رول میں نظر آئیں گے۔
محمد عامر (پاکستان)
سن 2010 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑیوں محمد آصف، محمد عامر اور سلمان بٹ کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر سزائیں بھی ہوئیں اور ان پر کھیل کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔
ان تینوں سزا یافتہ کھلاڑیوں میں سے صرف محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہوئی۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017 کے فائنل میں بھارت کے خلاف تباہ کن بالنگ ہو یا ورلڈ کپ 2019 میں وکٹیں لینا، محمد عامر نے ان دو ایونٹس میں شان دار کارکردگی دکھائی۔
نئے بالرز کی آمد، ٹیسٹ کرکٹ سے اچانک ریٹائرمنٹ اور لیگ کرکٹ کو ترجیح دینے کی وجہ سے محمد عامر وہ سب کچھ نہ کر سکے جن کی ان سے امید تھی۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کے رویے سے ناراض ہو کر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ لیکن بعض ماہرین کے مطابق اب بھی محمد عامر میں کرکٹ باقی ہے اور وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔
شکیب الحسن (بنگلہ دیش)
سابق بنگلہ دیشی کپتان اور دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک شکیب الحسن پر آئی سی سی نے 2019 میں اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کی وجہ سے دو سال کی پابندی عائد کی۔ ان پر الزام تھا کہ دو مرتبہ بک میکرز کی طرف سے رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے اس بارے میں مینجمنٹ کو آگاہ نہیں کیا۔
دو سال کے بعد شکیب الحسن کی واپسی ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں ہوئی جس کے دونوں ٹیسٹ میچز میں ویسٹ انڈیز اور تینوں ون ڈے میچز میں بنگلہ دیش نے کامیابی حاصل کی۔
انجری کی وجہ سے ٹیسٹ سیریز کی صرف ایک اننگز میں اُن کی بیٹنگ آ سکی، لیکن ون ڈے میں ان کی آل راؤنڈ کارکردگی نے میزبان ٹیم کو خوب سہارا دیا۔
انہوں نے اپنی واحد ٹیسٹ اننگز میں 68 رنز بنائے جب کہ ون ڈے سیریز میں ان کا اسکور 19، 43 ناٹ آؤٹ اور 51 رنز رہا۔ ٹیسٹ سیریز میں وہ زیادہ بالنگ نہیں کرسکے لیکن تین ون ڈے میچز میں انہوں نے چھ وکٹیں حاصل کیں جن میں ایک اننگز میں چار وکٹ ان کی بہترین کارکردگی رہی۔
اسٹیو اسمتھ، ڈیوڈ وارنر (آسٹریلیا)
سن 2018 میں دورۂ جنوبی افریقہ کے دوران اس وقت کے آسٹریلوی کپتان اسٹیو اسمتھ، نائب کپتان ڈیوڈ وارنر اور کیمرون بینکرافٹ پر گیند سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات لگے اور کئی ماہ تک وہ کھیل سے دُور رہے۔
بال ٹیمپرنگ کا معاملہ 24 مارچ 2018 میں سامنے آیا تھا۔ یہ جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز کا واقعہ ہے جب کیمرون بینکرافٹ فیلڈ کے دوران بال ٹیمپرنگ کرتے پائے گئے۔
بعد میں انہوں نے کپتان اسٹیون اسمتھ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران جرم کا اعتراف کیا جب کہ اسمتھ نے بھی ان کا ساتھ دینے اور انہیں بال ٹیمپرنگ سے متعلق معلومات کا اعتراف کر لیا۔
‘کرکٹ آسٹریلیا’ نے اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پر ایک ایک سال جب کہ ٹیم کی کپتانی پر تین سال اور کیمرون بینکرافٹ پر نو ماہ کی پابندی لگا دی۔
البتہ، اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر نے ٹیم میں واپسی کے بعد شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔