پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے جہاں اسٹیج شوز اور سنجیدہ ڈراموں کے ذریعے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی وہیں مزاحیہ ڈراموں میں بھی اس کا کوئی مقابل نہیں۔ پی ٹی وی کے کئی لازوال مزاحیہ ڈرامے اور ان میں کام کرنے والے فن کار لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی نقش ہیں۔
ایسے ہی ایک نامور فن کار اطہر شاہ خان المعروف جیدی بھی تھے۔ ستر کی دہائی سے نوے کی دہائی تک پی ٹی وی پر جیدی کا راج تھا جنہوں نے لاتعداد ڈراموں میں کام کر کے عوام سے داد سمیٹی اور انہیں محظوظ بھی کیا۔
اطہر شاہ خان گزشتہ 20 برس سے بیماری کے باعث ٹی وی انڈسٹری سے دور تھے۔ لیکن ان کا کیا ہوا کام آج بھی سب کو یاد ہے۔ جیدی نہ صرف ایک لکھاری تھے بلکہ ایک بہترین شاعر اور عمدہ اداکار بھی تھے۔ انہوں نے نے اپنے ایک کردار ‘جیدی’ سے ایسا نام اور منفرد مقام حاصل کیا کہ لوگ ان کا اصل نام بھول گئے اور جیدی کے نام سے ہی پکارنے لگے۔
یکم جنوری 1943ء کو بھارتی شہر رام پور میں پیدا ہونے والے اطہر شاہ خان کے والدین کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اطہر شاہ کے بڑے بھائیوں ہارون پاشا اور سلیم شاہ خان نے ان کی پرورش کی۔
ساٹھ کی دہائی میں اطہر شاہ نے ریڈیو کی دنیا میں لکھاری کی حیثیت سے قدم رکھا اور اس کے بعد پہلے فلم اور پھر ٹی وی میں قسمت آزمائی کی۔
ڈرامہ نویسی کے ساتھ اطہر شاہ خان نے اداکاری، ہدایت کاری اور شاعری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انہوں نے افسانہ نگاری بھی کی۔ لیکن ان کی وجۂ شہرت ان کی مکالمہ نگاری، دو الگ الگ سینز کے درمیان ربط برقرار رکھنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر کردار نگاری تھی۔
شاعری میں بھی وہ ایک خاص مقام رکھتے تھے اور یوٹیوب پر موجود ان کے مشاعروں کی مقبولت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں اطہر شاہ خان نے اپنے جیدی بننے کا قصہ بھی سنایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جس زمانے میں ان کا لکھا ہوا ڈرامہ ‘لاکھوں میں تین’ ٹی وی پر چل رہا تھا، وہ اور اداکار قوی خان گاڑی میں کہیں جا رہے تھے کہ گاڑی خراب ہو گئی۔
قریب میں ایک گھر تھا جہاں ان دونوں نے مدد کے لیے رجوع کیا۔ چوں کہ ‘لاکھوں میں تین’ میں قوی خان مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ اس لیے مدد کرنے والوں نے قوی صاحب کی خوب تواضع کی۔ کچھ لوگ گاڑی ٹھیک کرنے چلے گئے اور باقی قوی خان سے باتیں کرنے لگے۔
قوی خان نے لوگوں کو بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب بیٹھے ہیں، دراصل ڈرامے کے خالق وہ ہیں۔ لیکن تب بھی کسی نے انہیں گھاس نہیں ڈالی۔ اسی وجہ سے اطہر شاہ خان نے اسکرین کے سامنے اداکاری کا فیصلہ کیا۔
اطہر شاہ خان کی طرح کامیڈی ڈراموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے لکھاری اور مایہ ناز اداکار محمد احمد بھی ان کے مداحوں میں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد احمد کہنا تھا کہ انہوں نے کام تو اسی زمانے میں شروع کیا جب اطہر شاہ خان کا بہت نام تھا۔ لیکن ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔
اداکار محمد احمد کے مطابق اطہر شاہ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ڈرامہ لکھتے ہوئے یا اداکاری کرتے ہوئے انہوں نے کبھی کسی کی تضحیک نہیں کی۔ نئے نئے کردار بنائے اور انہیں بہترین طریقے سے پرفارم بھی کیا جو کسی بھی رائٹر کے لیے بہت بڑی بات ہے۔
محمد احمد کا کہنا تھا کہ وہ اطہر شاہ کے مداح رہے ہیں، ان کی بہت عزت کی ہے اور ان کے کام کو سراہا ہے۔ ان کے بقول اطہر شاہ خان نے اپنے اطراف کے لوگوں پر بہترین انداز میں طنز کیا۔
ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی تک اطہر شاہ خان نے ریڈیو، اسٹیج، ٹی وی اور فلم سب کے لیے کام کیا۔ ریڈیو پر ان کا پروگرام ‘جیدی کے سنگ’ بے حد مقبول ہوا۔
فلموں میں انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن ٹی وی پر کیا گیا ان کا کام آج بھی سب کو یاد ہے۔ انہوں نے فلم بازی، ماں بنی دلہن، گونج اٹھی شہنائی اور منجی کتھے ڈھاواں کے مکالمے لکھے اور فلم آس پاس میں ہدایت کاری بھی کی۔
اپنے زمانے کے صف اول کے تمام اداکاروں کے ساتھ اطہر شاہ خان نے کام کیا جن میں محمد علی، وحید مراد، ندیم، رنگیلا، منور ظریف، قوی خان، زیبا، بابرہ شریف، معین اختر اور جمشید انصاری جیسے صف اول کے اداکار شامل ہیں۔
پاکستان میں بہت کم ایسے لکھنے والے گزرے ہیں۔ جن کے بنائے ہوئے کردار ایک سے زیادہ ڈراموں میں استعمال کیے گئے ہوں۔ اطہر شاہ خان کا تخلیق کردہ کردار جیدی کئی دہائیوں تک ٹی وی پر راج کرتا رہا۔
کامیڈی پروگرام انتظار فرمائیے ہو یا ہائے جیدی، ہیلو ہیلو ہو یا جیدی ان ٹربل، الیکشن ٹرانسمیشن ہو یا ریفرنڈم کی نشریات، جیدی کے کردار کو پی ٹی وی پر لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا۔
اس کردار کے ذریعے نہ صرف وہ خود پر ہنستے تھے بلکہ غلط انگریزی بول کر یا بے تکی باتیں کر کے اور بنے بنائے کام کو بگاڑ کر شائقین کو اپنا دیوانہ بنا لیتے تھے۔
یوں تو 1997 کے بعد انہوں نے جیدی کا کردار ٹی وی پر ادا نہیں کیا۔ لیکن ان کے چاہنے والوں کو آج بھی اس کردار کے مکالمے، حرکات اور سکنات اچھی طرح یاد ہیں۔
اطہر شاہ خان کے یادگار ٹی وی ڈراموں میں لاکھوں میں تین، انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، برگم فیملی، پرابلم ہاؤس، فیملی 93 اور رفتہ رفتہ شامل ہیں۔ لیکن جو مقام ان کے ڈرامے ‘با ادب باملاحظہ ہوشیار’ کو حاصل ہے، وہ بہت کم ہی کسی ڈرامے کو نصیب ہوا ہے۔
اس تاریخی ڈرامے میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے ہمایوں ناز 25 سال گزر جانے کے باوجود بھی اس ڈرامے اور اس کے تخلیق کار اطہر شاہ خان کو نہیں بھول سکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ اطہر شاہ خان کے ڈرامے اور ان کے کردار جیدی کو تو ہم سب بچپن سے دیکھتے آ رہے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کام کرنے کا جو موقع ملا، وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
ان کے بقول وہ نہ صرف ایک بہترین رائٹر تھے۔ بلکہ ایک اعلی پائے کے شاعر، ادیب اور اداکار بھی تھے۔ خود کو جیدی تک محدود کر کے اطہر شاہ خان نے اپنے آپ کو ٹائپ کاسٹ ضرور کیا۔ لیکن اس طرح انہوں نے اپنا لوہا بھی منوایا۔
ہمایوں ناز کا مزید کہنا تھا کہ میرے نزدیک وہ پاکستان کے جیری لوئس تھے جنہوں نے لوگوں کوخود پر ہنسنا سکھایا۔ آج کل کے زمانے میں ان جیسے لوگوں کی ہمیں ضرورت تھی۔ ایسے رائٹرز جو ہنسا ہنسا کر سماجی مسائل کی نہ صرف نشان دہی کرتے تھے بلکہ لوگوں کو ان کا حل بھی بتاتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اشفاق احمد، منو بھائی اور اب اطہر شاہ خان کے انتقال سے پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو جو نقصان پہنچا ہے، میرے خیال سے اب اس سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔
ثانیہ سعید کا شمار پاکستان کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اطہر شاہ خان کے ساتھ کام تو نہیں کیا، لیکن ان کا بچپن ان کے پڑوس ہی میں گزرا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ثانیہ سعید نے بتایا کہ جب ہم لوگ گلبرگ میں رہتے تھے تو وہ جگہ دو مشہور لوگوں کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی۔ ایک جاوید میانداد اور ایک جیدی۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے اطہر شاہ خان کو گھر سے باہر زیادہ نہیں دیکھا۔ کیوں کہ وہ لکھنے پڑھنے والے آدمی تھے۔ لیکن میرے دوستوں کے لیے یہی کافی تھا کہ میں جیدی کی پڑوسی ہوں۔ ان کے ساتھ کام نہ کرنے کا مجھے افسوس رہے گا۔
اپنی بیماری اور بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے اطہر شاہ خان نے شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے سلور جوبلی کے موقع پر انہیں گولڈ میڈل سے نوازا تھا جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں فن کی خدمت کرنے پر صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔
اطہر شاہ خان کے انتقال کے بعد ان کے لاکھوں مداح افسردہ تو ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کا کام انہیں کبھی مرنے نہیں دے گا۔